مستحسن عزم : تعارف، غزلیں اور ماہئیے

مستحسن عزم : تعارف، غزلیں اور ماہئیے

 

احسان قاسمی

 

تعارف
***
نام. :محمد مستحسن اختر
والد : محمد خیرالبشر مرحوم
والدہ : بی بی عصمت النساء مرحومہ
تاریخ پیدائش :  02 فروری 1970 ء
آبائی گاؤں : گاچھ پاڑا . پوسٹ : گاچھ پاڑا
تھانہ و ضلع : کشن گنج . بہار
تعلیم :
ابتدائی : مکتب ، مدرسہ 
مڈل = گاچھ پاڑا
میٹرک : ہائی اسکول ، بیلوا ( کشن گنج)
انٹر. : انسان کالج ، شکشا نگر ، کشن گنج
گریجویشن : بی اے ( آنرز) جغرافیہ : بھاگل پور یونیورسٹی
شریک حیات : فرحانہ ناز
اثمار حیات : محمد فہد اختر ، محمد فاران اختر
پیشہ : پرائیویٹ فرم کا قیام اور اس کے ذریعہ ممبئی میونسپل کارپوریشن میں الیکٹریکل اور میکانیکل ورک کا ٹھیکہ وغیرہ ( گذشتہ بیس برس سے ممبئ میں قیام)
اصناف ادب میں طبع آزمائی : شاعری اور افسانہ نگاری 88 – 1987 ء سے تقریباً” ایک ساتھ ۔
تلمیذ : مطالعہء کتب ۔ ( کسی سے باقاعدہ اصلاح حاصل نہیں کی )
اشاعت شدہ مجموعہ ء کلام : ” منزل کے آس پاس ” ( غزلوں کا مجموعہ ، ہندی رسم الخط میں)
2001 ء
غیر مطبوعہ شعری مجموعہ : ” لفظوں میں کھنک لے آؤ ”
اردو اور ہندی زبان کے معتبر رسائل و جرائد میں غزلوں ، افسانوں اور افسانچوں کی اشاعت.
افسانہ ‘ شمع آرزو ‘ تعمیر ہریانہ ، ‘ آمد صبح ‘ تعمیر ہریانہ ، ‘ زخم ‘ راشٹریہ سہارا ، ‘ امید کی موت ‘ تعمیر ہریانہ ، ‘ ببول کا پیڑ ‘ تعمیر ہریانہ ، ‘ ترکیب ‘ پرواز ادب ، ‘دھند ‘ راشٹریہ سہارا وغیرہ
ہندی : چنتن دشا : ممبئ ، کاویا : ممبئ ، سوادھینتا : کولکاتا وغیرہ
سوادھینتا ،کولکاتا وارشک مہوتسو انک ( سالناموں) میں پانچ پانچ غزلیں شامل ہوتی رہی ہیں .
ضخیم کتاب ‘ غزل دشینت کے بعد ‘ کے دوسرے حصے ( مرتبہ : دکشت دنکوڑی ، دلی) میں پانچ غزلیں شامل .
آل انڈیا ریڈیو ، بھاگلپور سے کئ افسانے نشر شدہ
‘ شکوہ ‘ سیریل ( 70 ایپیسوڈس) کیلۓ مکالمہ نگاری ( ڈی ڈی نیشنل ) پروڈیوسر : راکیش چودھری
‘ امراؤ جان ادا ‘ ( سیریل ) کےلۓ تھیم سانگ قلمبند کیا .
پروڈیوسر : انیرودھ چودھری ( ڈی ڈی اردو)
… 
غزلیں
***
ہو مصور تو خیالوں سے نکالو مجھ کو
مجھ میں ہر رنگ ہے جو چاہو بنا لو مجھ کو

مجھ کو گرنے دو ،بکھرنے دو ، فنا ہونے دو
قطرہءاشک ہوں پلکوں میں نہ پالو مجھ کو

ہاتھ آیا ہوا لمحہ ہوں یہ بس تم پر ہے
کل بنالو یا کہ اتیہاس بنا لو مجھ کو

میں سمندر ہوں مجھے چھونا بڑی بات نہیں
چاہئے  موتی ، جیو مجھ میں کھنگالو مجھ کو

مجھ میں آجاۓ نہ سیلاب کا میلا پانی
میں کنواں ہوں کسی آنگن کا بچا لو مجھ کو !
………

شرافت کی ، مروت کی ، حیا کی بات کرتا ہے
ہے خود وہ بے وفا لیکن وفا کی بات کرتا ہے

نہ جانے کیوں ہزاروں ٹھوکروں کے بعد بھی یہ دل
شرارت کی ، نزاکت کی ، ادا کی بات کرتا ہے

مصیبت میں تو کافر ہو ، منافق ہو کہ زاہد ہو
عبادت کی ، ریاضت کی ، خدا کی بات کرتا ہے

جلاتا ہے جو قسطوں میں مری دنیا وہی مجھ سے
تسلی کی ، دلاسے کی ، دعا کی بات کرتا ہے

تعجب ہے کہ جس کی تمکنت میں کچھ نہیں وہ بھی
بڑائی کی ، تکبر کی ، انا کی بات کرتا ہے

اسی کے حوصلے میں آتی ہے پرواز کی طاقت
جو شاہیں کی ، چکوری کی ، خلا کی بات کرتا ہے
………..

حرفِ انکار کو نہیں بھولا
ذہن اس بار کو نہیں بھولا

عمر بھر پھر کہیں بھی مات نہیں
دل بس اک ہار کو نہیں بھولا

بیوی تنخواہ کو نہیں بھولی
بچہ اتوار کو نہیں بھولا

اب بھی باقی ہے زندگی کی امنگ
سادھو سنسار کو نہیں بھولا

ہم قلم ساتھ رکھنا بھول گئے
مانجھی پتوارکو نہیں بھولا

تنگ دستی مجھے نہیں بھولی
میں بھی کردار کو نہیں بھولا

………
ہوا کے ڈر سے جو سہما اڑان سے پہلے
وہیں زمیں پہ گرا امتحان سے پہلے

تری نظر سے کیا تیرے حسن کا چرچا
مری نگاہ نے اکثر زبان سے پہلے

تمہارے قول کو سب رکھتے ہیں سر آنکھوں پر
ہزار بار یہ سوچو بیان سے پہلے

مجھے ملا ہے اگر تو ، تو پھر تعجب کیا
تجھے ہی چاہا تھا سارے جہان سے پہلے

مدد کسی کی کرو یا کرو نماز ادا
مزہ تو جب ہے کہ پہنچو اذان سے پہلے

دروپدی بھی ملے گی ملے گا یش بھی تمہیں
تم اپنا تیر چلاؤ گمان سے پہلے

اسی کا عزم پھر آگے ہوا سفر آساں
کہ جس نے طے کی چڑھائی ڈھلان سے پہلے
……….

جب بانکپن سے انس اداؤں سے پیار تھا
مٹھی میں ہر خوشی تھی خطاؤں سے پیار تھا

آنکھوں کے ایک خواب کو پانے کے واسطے
دکھ سے ، مصیبتوں سے ، سزاؤں سے پیار تھا

تجھ کو جو چھیڑتی تھی سرعام بے خطر
اس دل کو ان شریر ہواؤں سے پیار تھا

حائل ہوۓ ہیں آج جو چاہت کی راہ میں
ان کو بھی کل کسی کی اداؤں سے پیار تھا

کل عیب بھی ہنر مجھے لگتا تھا اس لئے 
تیری حماقتوں سے ، خطاؤں سے پیار تھا

وہ سرخ رو ہوۓ ہیں جنہیں ہر قدم پہ عزم
فرضوں سے ، سنتوں سے ،دعاؤں سے پیار تھا
……

کسی کا درد و غم سے ، بے کلی سے کام چلتا ہے
کسی کا حسن کی جادوگری سے کام چلتا ہے

ہم ایسے کاروباری ہیں جدا ہے کاروبار اپنا
ہمارا دل سے ، غم سے ، تشنگی سے کام چلتا ہے

نہ جانے کیوں دل اپنا اس گلی میں ہم لٹا آۓ
جہاں یارو ذرا سی دل لگی سے کام چلتا ہے

فقط سپنے نہیں مہنگے ، ضرورت بھی ہوئی مہنگی
کہاں یارو فقط اب شاعری سے کام چلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مائل اُس پر یہ دل ہوا ہی نہیں
یہ انا کا تو مسئلہ ہی نہیں

فیصلہ دل کا دل سے کرنا ہے
عقل سے اب تو پوچھنا ہی نہیں

عشق ہی روگ عشق ہی اُپچار
اور اس کی کوئی دوا ہی نہیں

عمر بھر سوچتارہا اس کو
بات کرنےکا حوصلہ ہی نہیں

کیسا ساتھی ہے کیسا رہبر ہے
حالِ دل ذہن کو پتا ہی نہیں

ہر طرف ہے گلاب کا چرچا
کہیں مالی کا تذکرہ ہی نہیں

حوصلے میں جو آ گئی ہے انا
عزمؔ سے اور مشورہ ہی نہیں
………..
ماہیۓ
***
ہموار نہیں کچھ بھی
چاہو اگر پانا
دیوار نہیں کچھ بھی
..
کچھ خواب سجانے دو
چین کے کچھ لمحے
دنیا میں بتانے دو
..
امید ہوئی روشن
آپ کے ہنسنے سے
ہر چیز ہوئی روشن
..
بیٹھا ہی نہیں کوئی
تاڑ کی چھاؤں میں
ٹھہرا ہی نہیں کوئی
..
تقدیر پرانی ہے
عشق کے خوابوں کی
تعبیر پرانی ہے
..
یوں پیار کروگے تو
جی نہ سکیں گے پھر
انکار کروگے تو
..
کچھ داؤ کھلاڑی کا
ایسا لگے جیسے
ہو کھیل اناڑی کا
..
ٹرخاؤگے کب تک تم
جھوٹ سے بچے کو
بہلاؤگے کب تک تم

مستحسن عزم کی دوسری غزلیں : غزل

احسان قاسمی کی گذشتہ تحریر : زبیرالحسن غافل : اجنبی شہر کا شناسا چہرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے