ضلع کٹیہار میں اردو شاعری کا منظر نامہ

ضلع کٹیہار میں اردو شاعری کا منظر نامہ

( قسط اول )
احسان قاسمی 
شہر کٹیہار کا قدیم نام دراصل سیف گنج تھا جسے نواب سیف خاں کے ذریعہ آباد کیا گیا تھا۔ کٹیہار جنکشن کی بنیاد 1882ء میں ڈالی گئی۔ اس وقت ریلوے کے افسران کے علم میں یہ بات آئی کہ سیف گنج نامی ایک ریلوے اسٹیشن پہلے سے موجود ہے۔ یکساں ناموں کی تکرار اور اس سے پیدا ہونے والی کسی طرح کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے سیف گنج کے ایک چھوٹے سے موضع ‘ کٹی ہار جہاں ریلوے اسٹیشن کی بنیاد رکھی جانی تھی، اسی موضع کے نام پر جنکشن کا نام رکھ دیا گیا۔ رفتہ رفتہ صوبہ بہار کا یہ ایک بڑا اور مشہور جنکشن بن گیا۔ اس کی شہرت اتنی بڑھی کہ لوگ سیف گنج کو بھول گئے اور 2 اکتوبر 1973ء کو جب اسے پورنیہ ضلع سے الگ کر ضلع کا درجہ عطا کیا گیا تو نئے ضلع کا نام 'کٹیہار، ہی رکھا گیا۔
کٹیہار ضلع کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ایک ہندو کہاوت کے مطابق کسی زمانے میں بھگوان کرشن یہاں آئے تھے اور گنگا ندی کے کنارے ان کا ‘ منی` ( قیمتی پتھر ) گم ہو گیا تھا. جس جگہ منی ہِرانے ( گم ہونے ) کا واقعہ پیش آیا وہ جگہ ‘ منی ہاری’ کے نام سے موسوم ہوئی۔
منیہاری کی تاریخی حیثیت یوں بھی ہے کہ بنگال کے نواب علی وردی خاں کی رحلت کے بعد ان کے نواسے سراج الدولہ اور دوسرے نواسے شوکت جنگ (جو اس وقت پورنیہ کے صوبہ دار تھے) کے درمیان تخت بنگالہ کی خاطر 16 اکتوبر 1756 ء کو اسی منیہاری میں گنگا ندی کے کنارے ایک خونریز جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ میں شوکت جنگ کی موت واقع ہو گئی اور بنگال کی نوابی سراج الدولہ کے ہاتھ لگی۔
منیہاری کی ادبی حیثیت یوں مسلم ہے کہ اسی قصبہ میں بنگلہ زبان کے مشہور ادیب آنجہانی پدم بھوشن بولائ چاند مکھوپادھیائے عرف بن پھول کی پیدائش ہوئی تھی۔ وہ پیشے سے ڈاکٹر تھے۔ ان کے آٹھ ناولوں پر بھوون سوم، ایک ٹی رات، ارجن پنڈت وغیرہ جیسی شہرت یافتہ فلمیں بن چکی ہیں۔ ان کے مقبول عام ناول ‘ ہاٹے بازارے` پر فلم بھی بنی اور کٹیہار ( اب سہرسہ ) سے سیالدہ جنکشن تک چلنے والی ٹرین کا نام بھی ‘ ہاٹے بازارے ایکسپریس` رکھا گیا۔ ان پر محکمہ ڈاک نے پوسٹل اسٹامپ بھی جاری کیا ۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود ایک بڑی کمی جو میں نے محسوس کی ہے وہ یہ کہ کٹیہار ضلع میں اردو زبان و ادب کی ارتقا کے حوالے سے کوئی سنجیدہ تحقیقی کام اب تک منظر عام پر نہیں آسکا ہے یا کم از کم میری نگاہوں سے اب تک نہیں گزرا ہے ۔ ‘ انسان` کے پورنیہ نمبر میں بھی کٹیہار کے ادبا و شعرا کا کوئی خاص تذکرہ موجود نہیں ہے۔
چونکہ میرا ارادہ فی الحال خود کو اردو شاعری تک ہی محدود رکھنا ہے لہذا میں اپنی معلومات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ ‘ ضلع کٹیہار میں اردو شاعری ‘ کے حوالے سے جو بھی authentic
جانکاری آپ کے پاس موجود ہو براہ کرم کمنٹ باکس میں درج کریں یا میرے واٹس ایپ نمبر (9304397482) پر ارسال کریں ۔
براہ کرم متشاعروں یا ایسے شعراے کرام کا نام دینے سے پرہیز کریں جو اپنی کم اور دوسرے شعرا کا بیش تر کلام خود کے نام سے پڑھا یا ف ب پر ڈالا کرتے ہیں۔ میری نگاہ میں ایسے لوگوں کا تمام تر کلام مشکوک ہو جاتا ہے اور اس کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی ہے ۔
آئیے اب کٹیہار ضلع سے تعلق رکھنے والے شعراے کرام کا تذکرہ کرتے ہیں. اس میں چار طرح کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں ۔
پہلی قسم ایسے شعرا کی ہے جو بنیادی طور پر کٹیہار ضلع کے رہنے والے ہیں اور ہنوز اسی ضلع میں مقیم ہیں۔
دوسرے وہ جو بنیادی طور پر کٹیہار ضلع کے رہنے والے ہیں لیکن باہر بس چکے ہیں یا فی الحال باہر رہ رہے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ جن کا آبائی ضلع کچھ اور ہے لیکن وہ کٹیہار ضلع میں مستقل طور پر بود و باش اختیار کر چکے ہیں۔
اور چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو ملازمت یا تجارت کے سلسلے میں فی الحال کٹیہار میں مقیم ہیں لیکن مستقبل میں یہاں بس بھی سکتے ہیں اور واپس اپنے آبائی وطن کی جانب لوٹ بھی سکتے ہیں ۔

۱ – مولانا حفیظ الدین لطیفی رحمن پوری :
پیدائش – 1820 ء ( قیاسا” )
رحلت – 1333 ھ بمطابق 1915ء
جائے پیدائش: اعظم نگر بلاک سے دو میل اتر موضع کنھریا۔
والد: حسین علی مرحوم
آپ حضرت شاہ لطیف علی، بارگاہِ عشق خانقاہ میتن گھاٹ کے مرید تھے اور اسی مناسبت سے اپنے نام کے ساتھ لفظ ‘ لطیفی` کا استعمال کیا کرتے تھے. 
آپ نے کچھ عرصہ رسول پور کے راج دائرہ اور بعد ازیں پٹنہ و دلی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
حضرت حفیظ الدین لطیفی کے دورۂ حدیث کے استاد مولانا نذیر حسین محدث دہلوی تھے۔
آپ نے رحمن پور میں خانقاہ کی بنیاد ڈالی جو آج بھی موجود ہے۔
آپ کے سب سے چہیتے شاگرد  مرید اور خلیفہ مولانا محمد عابد چنڈی پوری، ضلع مالدہ ( بانی دارالعلوم لطیفی، کٹیہار) تھے، جو کہ ایک شاعر بھی تھے. مولانا محمد عابد چنڈی پوری نے ہی حضرت لطیفی کے انتقال کے بعد ان کا دیوان ‘ دیوانِ لطیفی` کے نام سے مرتب کر 1938 ء میں شائع کروایا۔
دیوانِ لطیفی میں حمد و نعت اور منقبت کے علاوہ اکثر کلام فارسی میں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کلام عربی اور اردو زبان میں بھی موجود ہے۔ اس میں صفحات کی کل تعداد 102 ہے۔
میرے خیال میں کٹیہار ضلع میں اردو زبان میں شاعری کی ‘ دیوانِ لطیفی’ اولین مثال ہے۔
2 – حضرت ابو ظفر امام مظفر :
آپ مولانا حفیظ الدین رحمن پوری کے بڑے صاحب زادے اور خانقاہ رحمانی کے پہلے سجادہ نشین تھے۔ شاعر تھے اور قیصر تخلص فرمایا کرتے تھے۔ کم عمری میں مولانا حفیظ الدین رحمن پوری کے انتقال کے محض پونے تین ماہ بعد ہی رحلت فرما گئے۔ ان کی تخلیقات محفوظ ہیں یا نہیں یہ تحقیق کا موضوع ہے۔
3 – شاہ فیاض عالم ولی اللہی چشتی نظامی :
آپ مولانا حفیظ الدین رحمن پوری کے پوتے اور خانقاہ رحمانی کے دوسرے سجادہ نشین حضرت مخدوم شرف الہدی’ کے صاحب زادے تھے۔ آپ کی پیدائش 1920 ء میں ہوئی تھی اور رحلت نومبر 2020 ء میں ہوئی ۔ آپ نے دیوبند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ نے مختلف مدرسوں میں ملازمت کی۔ آخر میں مدرسہ تنظیمیہ، بارا عید گاہ کے پرنسپل کے عہدے سے 1989ء میں سبک دوش ہوئے۔ عربی، فارسی اور اردو زبان پر عبور حاصل تھا۔ آپ کی کئ تصانیف ہیں۔ آپ اقبالیات، مذہبیات اور شکاریات پر مضامین قلم بند کرنے کے علاوہ شاعری سے بھی شوق فرمایا کرتے تھے۔ شعری مجموعہ غیر اشاعت شدہ ہے۔
4 – منشی کرامت حسین تمنا دلشاد پوری :
5 – منشی تصدق حسین مشتاق دلشاد پوری :
تمنا دلشاد پوری اور مشتاق دلشاد پوری دونوں حقیقی برادر تھے۔ دلشاد پور گاؤں کدوا بلاک میں واقع ہے۔ دونوں بھائی قاضی نجم ہری پوری کے ہم عصر اور بہترین شعرا تھے۔ نجم ہری پوری نے ان کا ذکر اپنی کتاب ‘ یاد رفتگاں` میں کیا ہے اور اس بات کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ مہین گاؤں اسٹیٹ کے مالک جناب اشہد اللہ اشہد ان کا مسودہ شائع کروانے کے ارادے سے لے گئے تھے لیکن کتاب کی اشاعت سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ مسودے کے بارے میں فی زمانہ کوئی جانکاری نہیں کہ وہ اب تک محفوظ ہے یا ضائع ہو چکا۔
6 – قطب شاہین :
شہر کٹیہار کے محلہ لڑکنیاں میں رہائش تھی۔ ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد کلکتے میں کاروبار کیا کرتے تھے۔ لہذا وہ بھی اکثر کلکتے میں رہا کرتے تھے۔ استاد شاعر تھے۔ جناب آزاد مرارپوری اور شمیم ربانی نے جب کٹیہار سے رسالہ ‘ فانوس` 1963ء میں جاری کیا وہ فانوس کی مجلسِ مشاورت میں شامل رہے۔ ان کی کئی تخلیقات فانوس میں شائع ہوئی تھیں۔ فانوس کے علاوہ ملک کے دیگر موقر جرائد میں بھی ان کی تخلیقات کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ رسالہ ‘ غالب` کٹیہار کی مشاورتی کمیٹی میں بھی ان کا نام شامل تھا اور نظمیں شائع ہوئی تھیں۔ ان پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے. 
7 – ضیاء رحمانی :
کٹیہار سے شائع ہونے والے دو ماہی رسالے ‘ غالب` کے مدیر اور پیشے سے معلم، نیک انسان اور اچھے شاعر تھے. افسوس کہ مختصر حیات لے کر آئے تھے۔ ان کی تخلیقات کی بازیافت کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
8 – شاذ رحمانی :
رسالہ ‘ غالب` کے نائب / مینیجنگ مدیر اور شعری مجموعہ ‘شعور کی ردا` کے خالق شاذ رحمانی کٹیہار کے ادبی افق پر ایک روشن ستارے کی مانند نظر آتے ہیں۔
پیدائش :1952ء
رحلت: 20 اگست 2021 ء
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انھوں نے کٹیہار میں ایک ‘ اردو اسٹڈیز سرکل` کی بنیاد بھی ڈالی تھی۔ کہنہ مشق اور بہترین شاعر تھے۔ ‘شعور کی ردا` ان کا شعری مجموعہ 2003 ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ جناب ظہیر غازی پوری کے شاگرد تھے۔ میں نے ‘شعور کی ردا` کے بعد کی ان کی تخلیقات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی ڈائری نہ مل سکی۔
9 – رفیع حیدر انجم :
رفیع حیدر انجم کا آبائی گاؤں ڈانگول، تھانہ : بارسوئی ہے۔ ان کے والد محمد شفیع حیدر مرحوم ارریہ میں بہار سرکار میں ناظر کے عہدے پر فائز تھے۔ بعد ازیں ارریہ میں ہی مستقل سکونت اختیار کی۔
رفیع حیدر انجم ( پیدائش 06 اکتوبر 1955 ) یوں تو بطور افسانہ نگار کافی شہرت رکھتے ہیں اور ان کا افسانوی مجموعہ ‘بے ارادہ` کے عنوان سے 1998ء میں منظرعام پر آ چکا ہے، لیکن چھوٹی چھوٹی آزاد نظمیں بھی خوب لکھتے ہیں۔ ان نظموں میں ان کا انفرادی رنگ صاف طور پر جھلکتا نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں کا کوئی مجموعہ ابھی شائع نہیں ہوا ہے۔
10 – احسان قاسمی :
اصل نام محمد احسان الاسلام ولد شیخ ابوالقاسم مرحوم کا آبائی گاؤں متھورا پور، تھانہ : آبادپور ، وایا : بارسوئ ہے۔ تاریخ پیدائش 18 جنوری 1955 ہے۔ ان کے والد پورنیہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں اسسٹنٹ انجینیئر تھے۔ بچوں کی تعلیمی سہولیات کے مدنظر پورنیہ میں ہی مستقل سکونت اختیار کر لی۔
احسان قاسمی کا اولین مجموعہء کلام ‘ دشتِ جنوں طلب’ کے نام سے 2019ء میں منظرعام پر آ چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ ‘وادیِ غزل میں قیام` کے عنوان سے زیر ترتیب ہے۔
احسان قاسمی کی دیگر تصانیف : ‘ پیپرویٹ` افسانوی مجموعہ اور ‘ سیمانچل کے افسانہ نگار` بالترتیب 2017 اور 2020 ء میں شائع ہو چکے ہیں۔
سیمانچل کی اردو شاعری پر ان کا تحقیقی کام بھی تقریبا” مکمل ہو چکا ہے ۔
***
( سلسلہ جاری رہےگا ان شاء اللہ )

تصاویر میں :
اوپر ( دائیں سے بائیں )
جناب شاذ رحمانی اور احسان قاسمی
رسالہ ‘ غالب ‘ سال اول ، شمارہ 4 – 3
رسالہ ‘ فانوس ‘ شمارہ 6 ۔ جون 1963 ء
۔
نیچے ( دائیں سے بائیں )
شاذ رحمانی مرحوم کا شعری مجموعہ ‘ شعور کی ردا`
رفیع حیدر انجم
شاہ فیاض عالم ولی اللہی چشتی نظامی مرحوم
احسان قاسمی کا شعری مجموعہ ‘دشتِ جنوں طلب`
***

دوسری قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں : ضلع کٹیہار میں اردو شاعری کا منظر نامہ

احسان قاسمی کے شعری نمونے یہاں پڑھیں : دشت جنوں طلب کا مسافر :احسان قاسمی

احسان قاسمی کا یہ افسانہ ضرور پڑھیں : پیپر ویٹ

رفیع حیدر انجم کا افسانہ یہاں پڑھیں : پرانی بستی کی نئ کہانی

شیئر کیجیے

One thought on “ضلع کٹیہار میں اردو شاعری کا منظر نامہ

  1. ماشاءاللہ۔۔۔۔ تحقیقی مضمون پڑھنے کا مزہ ہی اور ہے
    مولائے کریم احسان قاسمی کے قلم میں مزید توانائ عطا فرمائے آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے