وبا میں بچوں کے ذہنی توازن کا خیال رکھیں

وبا میں بچوں کے ذہنی توازن کا خیال رکھیں

سید فاضل بخاری
عمر آباد، زینہ کوٹ، سرینگر، کشمیر
طالب علم

اب لگ بھگ دو سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، جب سے ہم کووڈ وبا میں جی رہے ہیں۔ سماجی افراتفری، سیاسی افراتفری، اقتصادی افراتفری اور ذہنی افراتفری نے لوگوں کو ہر طرف سے گھیرا ہے۔ ان سب میں ذہنی امراض نے لوگوں کو اپنے شکنجے میں زیادہ جکڑا ہے۔ اس بیماری کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے تناو اور افراتفری کو نہ سمجھ پاتے ہیں اور نہ ان میں اس قسم کے امراض سے مقابلہ کرنے کا شعور ہوتا ہے۔ اس سے ان کی پوری زندگی متاثر ہوتی ہے۔ پرندوں جیسی آزاد زندگی گزارنے والے بچے جب لاک ڈاون کے زیر اثر آتے ہیں، تو ان کے ذہنی توازن کے بگڑ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے ایسے ایسے راستوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، جن سے انفرادی، گھریلو اور معاشرتی سطحوں پر تباہی ہی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ کہ یہاں پر ذہنی امراض اور مریضوں کو سماج سے جدا سمجھا جاتا ہے اور اس قسم کی بیماریوں کو ایک ناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں دوسرے امراض کو امراض کی نگاہوں سے تو دیکھا جاتا ہے، مگر ذہنی امراض کو شرمندگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک ہر کوئی اس میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے تو کسی حدتک اس کا مقابلہ کرپاتے ہیں، مگر بچے کسی بھی طرح اس صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے بہت ساری وجوہات کا عمل دخل ہے، مگر سب سے بڑی وجہ یہاں کا معاشرتی نظام ہے۔ یہاں جس چیز کو فوقیت دینی ہوتی ہے وہ انکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ یہاں پہلے دن سے سکھایا جاتا ہے کہ سب بیماریاں ٹھیک ہیں، مگر ذہنی امراض بیماریاں نہیں، بلکہ پردے کے پیچھے چھپانے والے گناہ ہیں۔ اس بات کو ایک طرف کرتے ہوئے اصل موضوع پر آتے ہوئے اب یہ بات زیادہ ضروری ہوجاتی ہے کہ بچوں کا خیال کیسے کیا جائے، جب صورت حال بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔
اس کے لیے جو چیز سب سے ضروری ہے وہ یہ کہ بچوں کو پیار سے سمجھایا جائے کہ مصیبتوں سے گزرنا ہی زندگی کا اصلی نام ہے۔ لاک ڈاون جیسی صورت حال سے مقابلہ کرنا زندگی کا ایسا باب ہے، جو پڑھنا ضروری ہے اور اس سے ایسے اسباق حاصل کرنا، وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تواریخی لحاظ سے بچوں کو علم دینا ضروری ہے کہ اس سے پہلے بھی وبائی بیماریاں ہوا کرتی تھیں اور پھر بھی لوگ جیا کرتے تھے۔ ان کو اس بات کا صحیح ادراک تھا کہ وبا زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے، جو وقت وقت پر آکر ہمیں جگا دیتی ہے کہ انسان کو سماج میں کیا کرنا چاہیے۔ دوسروں سے اس کا رشتہ کیا ہے۔ اگر باہمی رشتوں کے درمیان کوئی دراڑ پیدا ہو جائے، تو اس کا اثر کیا ہوتا ہے۔ اس سے ایک اچھا ماحول پیدا ہو سکتا ہے، جہاں ایک بچہ اپنے آپ کو لفظوں کے ذریعہ سے بول پاتا ہے اور دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ دوسروں پر بھروسا بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو چیز ضروری ہے وہ ہے کہ بچوں کو جنم کے پہلے دن سے ہی سمجھایا جائے کہ ذہنی امراض کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ یہ حالات اور دوسرے وجوہات کے نتائج ہوتے ہیں، جو ذہنی دباؤ اور دوسری قسم کی ذہنی بیماریوں کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ ان کو اس بات کی طرف مائل کرنا چاہیے کہ جو بھی ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، ان سے انسانی روپ میں بات کرنی چاہیے۔ ان کو دھتکارنا دانائی کا کام نہیں ہے۔ اس سے اس قسم کی بیماریوں کے پھیلنے کے اسباب زیادہ ہیں۔ مزید یہ ہے کہ بچوں کو بچپن سے ہی وہ طریقے بتاۓ جائیں جن سے ایک انسان ذہنی امراض سے دور رہ سکتا ہے۔ وہ کون سی وجوہات ہیں جو ان امراض کے محرک ثابت ہوتی ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں جن سے ایک بچے کو ملنے اور زندگی گزارنے سے پرہیز کرنا چاہیے، جو ذہنی امراض کے باعث بن جاتے ہیں۔ کون سی ایسی نشانیاں ہیں، جس یہ پتا چلے کہ ایک انسان ذہنی مریض ہے۔ سب سے آخر میں جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ ایسا ماحول ترتیب دیا جائے، جس سے ذہنی امراض بڑھنے کے امکانات کم ہو جائیں۔ سیاسی اور سماجی سطحوں پر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ جس سے یہ ممکن ہوسکے کہ کم سے کم لوگ اس میں مبتلا ہوں۔ تنگ نظریات سے، حسد سے، بغض سے، کرپشن سے، مذہبی جنون سے، جتنا ہوسکے پرہیز کیا جائے۔ سیاسی سطح پر بھی کوششیں کی جائیں کہ افراتفری کا ماحول بہت حدتک کم ہو۔ لوگ آزاد محسوس کریں۔
تو وقت کی نزاکت کو دیکھ کر کرنے کا کام ہے کہ ہم اس وبا میں بچوں کے ذہنی توازن کو برقرار خیال رکھیں۔ وہ ہمارے بچے ہیں اور ان کا خیال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان سے محبت سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔ ان کے کام آنا ہی سب سے ضروری بات ہے۔ ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا بہت اہم ہوگیا ہے۔ آو ہم سب اپنی انفرادی سطح پر ان کا خیال کریں۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے