…..یکجہتی حیات کے آداب کیا ہوئے؟؟؟

…..یکجہتی حیات کے آداب کیا ہوئے؟؟؟

محمد قاسم ٹانڈؔوی
رابطہ:09319019005

قارئین کرام! سال میں 26/جنوری (یوم جمہوریہ) اور 15/اگست (یوم آزادی) کے دن ہمارے پورے ملک میں جشن جمہوریہ اور جشن آزادی کے عنوان اور ان خاص دنوں کی مناسبت سے جگہ جگہ عوامی تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے اور ملک بھر میں بلاتفریق مذہب و ملت چھوٹے بڑوں کی طرف سے اس دن خوشی و شادمانی کا کھل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری عمارتوں، تعلیمی اداروں اور قومی ملی تنظیموں کے دفاتر میں پوری شان و شوکت کے ساتھ ترنگا جھنڈا بھی پھہرایا جاتا ہے، اہل وطن کی طرف سے مل جل کر خوشیاں منائی جاتی ہیں، مٹھائی اور دیگر اشیا کی تقسیم ہوتی ہے، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے، جس سے ہر طرف گنگ و جمن کا سہانا ماحول اور بھائی چارے کی خوش گوار فضا قائم ہوتی نظر آتی ہے۔ اس دن کی خوشی اور خاص اہمیت کے مدنظر کہیں کہیں ملازمین و ماتحتوں کی ڈیوٹی کا بوجھ کم کرکے انھیں نصف روز کی تعطیل سے بھی نوازا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ہمارے ملک میں 26/جنوری 1950 سے مسلسل جاری ہے۔ اس لیے کہ 15/اگست 1947 کو ہمارے آبا و اجداد نے ڈھائی سو سالہ طویل مدت کے بعد انگریزوں کے ناجائز تسلط سے اس ملک کو آزاد اور ان کے مکروہ وجود سے پاک کرایا تھا۔ انگریز جو اپنی شاطر دماغی اور چالاکی کے باعث 1600/عیسوی کے اوائل میں بہ غرض تجارت کلکتہ و مدراس کے راستے ہمارے اس ملک میں داخل ہوا تھا، بدقسمتی سے کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ ہمارے اس ملک کے تخت و تاج کا ناخدا اور یہاں کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا تھا۔ اس کی ملکیت و بادشاہت کا عالم یہ تھا کہ اس کی حکمرانی کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور وہ ایک ہی وقت میں برطانیہ سے لےکر ایشا کے بیش تر حصوں پر تن تنہا حکمرانی کا سکہ چلانے والا واحد حکمراں کہلاتا تھا۔ طاقت و غرور کے نشے میں مست وہ اکثر اس طرح کے بدبودار الفاظ کہنے سے بھی نہیں چوکتا تھا کہ: "خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا"۔
مگر انگریز اپنے اس دعوی کے دوران اس بات کو بھول رہا تھا کہ حصول اقتدار اور دوران جنگ سازی و لشکر کشی کے وقت میرا واسطہ ان راجا مہاراجاؤں سے لاحق ہوا تھا، جن کی سلطنت کے اصول و ضوابط تغیر پذیر، نظام عدل و انصاف غیر مساویانہ اور ان کی عادات و اطوار تخریب کاری کی نذر ہو چکی تھیں۔ اور یہ بات سچ ہےکہ اس وقت کے فرماں رواؤں کی راتیں عیش کوشی میں اور دن سیر و سیاحت کی موج مستی میں گزر رہا تھا، عیش و عشرت میں مست ان راجاؤں کی صبح ہی اس وقت ہوتی تھی، جب سورج اپنے دورانیہ کا نصف حصہ پورا کر چکا ہوتا تھا اور ان کے ماتحت خلقت و رعایا اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو تقریبا نمٹا چکی ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایسے تغیر پذیر حالات، اخلاقی تنزلی کے شکار اور اصول سلطنت سے عاری بادشاہوں کے رہتے ہوئے اگر کوئی باہری طاقت کسی بھی ملک پر اپنا راج قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس میں باہری طاقتوں کا قصور کم اندرونی اعتبار سے سلطنت کے سپہ سالاروں کی غلطی اور وقت کے فرماں رواؤں کا جرم زیادہ بڑھا ہوا تصور کیا جاتا ہے۔ اور یہی سب کچھ اس وقت ہمارے اس ملک اور یہاں کے عوام کے ساتھ ہوا کہ مغل فرماں روا اپنی عیش و عشرت کی زندگی میں مست رہے اور وہ باہر سے آنے والی طاقتوں کی منشا اور نظریہ سے غافل و بےخبر رہے۔ لہذا ان شعبدہ باز طاقتوں نے بروقت حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت جلد اس "جنت نشاں" سرزمیں کو اپنے چنگل میں لے لیا اور اس سرسبز و شاداب گلستاں کے اصل مالک و حاکم بن کر اسے برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جس کا ایک تو بڑا نقصان یہ ہوا کہ پورے ہندستانی معاشرے کا ڈھائی سو سال تک استحصال کیا گیا اور یہاں کے عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا، دوسرے دنیا بھر میں ‘سونے کی چڑیا` سے مشہور ہمارا یہ ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونے کے بعد بالکل کنگال اور اندر سے کھوکھلا پایا گیا؛ سوائے تاریخی عمارتوں اور قدیم اثاثوں کے یہاں کچھ رہ نہیں گیا تھا۔ اس لیے کہ فطرت سے مجبور جاتے جاتے بھی سرکاری خزانہ کی لوٹ کھسوٹ اور ہمارے آبا و اجداد کی بیش قیمت اشیا بٹور کر یہاں سے اس نے رخت سفر باندھا تھا۔ اس کے علاوہ برسوں سے آباد یہاں کے عوام کے دلوں میں نفرت و عداوت کی چنگاری سلگا کر ان کے درمیان تقسیم وطن کی لکیر اور کھینچ گیا تھا۔ قوم کو آج تک اس درد کی ٹیس کا شدت سے احساس ہے اور اس وقت کی سلگائی ہوئی چنگاری نے اب شعلوں کی شکل اختیار کر رکھی ہے، جو آئے دن کہیں نہ کہیں بھڑک اٹھتی ہے اور کسی ایک طبقہ و سماج کو اپنی شعاؤں میں لےکر سب کچھ بھسم و راکھ کر دیتی ہے۔
پھر بھی یہ بات کسی طبقہ اور برادری سے تعلق رکھنے والے ہوش مند و خرد مند اور ذی شعور افراد سے مخفی نہیں ہے کہ اس ملک کی آزادی اور خود مختاری میں اگر سب سے زیادہ کسی کی قربانیاں شامل ہیں تو وہ ہمارے ہی اکابر اور بزرگوں کی پیش کی گئی قربانیاں ہیں، جنھوں نے بےدریغ اپنا لہو بہا کر اس ملک کو آزادی دلائی تھی۔ یہ ہمارے ہی اکابر و علما کی انتھک محنت اور ان کی مخلصانہ جد و جہد کا نتیجہ تھا جو مسلسل موت و زیست کی اس خاردار وادی میں اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ چنانچہ کبھی انھیں ابلتے اور کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا گیا تو کبھی توپ کے دھانے پر باندھ کر ان کے جسموں کے چیتھڑے ہوا میں بکھیر دیے گئے، نہ جانے کتنوں کو کالے پانی کی سزا سنائی گئی اور کتنوں کو درختوں پر سولی چڑھائی گئی، ایسے ہی نہ جانے کتنوں کو زندہ ہاتھیوں سے روند دیا جاتا تھا؟
الغرض! ہمارے ہی اکابر و علما نے تن کے گورے، من کے کالے اس انگریز حکم راں کو اپنے اس دیش سے نکالنے اور اسے یہاں سے اپنا بوریہ بستر باندھ نے پر مجبور کیا تھا۔ تاریخ نویسوں نے یہ بات لکھی ہےکہ:
"جان و مال کی پرواہ اور اپنے عزیز و اقارب کی سلامتی کا خیال کیے بغیر اس ملک کی آزادی میں جس طرح مسلم طبقات کی طرف سے مرحلہ در مرحلہ قربانیاں پیش کی گئی تھیں، دیگر برادران وطن کا حصہ ان کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا"۔
یہی وجہ ہے کہ آزادی حاصل ہونے کے بعد اگر ہمارے اکابر و علما چاہتے تو اس ملک کی زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور جیسے انگریز کے قبضے سے پہلے ہمارے اس ملک کی آن بان شان ہوتی تھی؛ اسی قدیم آن بان شان کے ساتھ نہ صرف اس ملک میں نظام حکومت قائم کرتے، بلکہ اپنے اس ملک کے حسن و جمال میں مزید اضافہ بھی کرتے اور یہاں کی جو قدیم گنگا جمنی تہذیب، برسوں پرانی روایات و یادگار اور آپسی بھائی چارہ کی جو امتزاج و خصوصیات تھیں؛ ان کا دور دورہ ہوتا، عالمی پیمانے پر ہمارے اس ملک کی جو شناخت ‘سونے کی چڑیا` سے ہوتی تھی اسے بحال و مہمیز کرنے کے مضبوط اقدام کیے جاتے، جس سے کہ ہر سو خوش حالی اور ترقی کی شہنائی بجتی اور ہمارا یہ ملک امن و سلامتی کا مرکز، تہذیب و تمدن کا گہوارہ، ہندو مسلم اتحاد کا محافظ، قومی یکجہتی کا استعارہ اور باہمی روا داری کا شان دار و بےمثال نظارہ اور مظاہرہ کرنے والا ہوتا؟
مگر افسوس! اس وقت ایسا نہ ہوسکا اور آج کے موجودہ حالات میں ہمارا یہ ملک جس غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے اور اس کی جمہوری اقدار و روایات جس تیزی کے ساتھ متزلزل و غیرپختہ ہوتی جا رہی ہیں؛ وہ سب اسی ایک غیر دانش مندانہ فیصلہ کی دین ہے، جس میں ہمارے اپنوں کی حد سے زیادہ سادگی اور برادران وطن کے اذہان میں پہلے سے رچی بسی عیاری و مکاری پنہاں ہے۔ اس لیے کہ آج ایک طبقہ ملک کے آئین و دستور میں تبدیلی واقع کرنے کےلیے مسلسل خفیہ سازشیں رچ رہا ہے اور اس نے اس کام پر اپنے کارندوں کو لگائے رکھا ہے؛ تاکہ جب بھی ان کے حق میں حالات موافق و ہموار ہوں تو وہ ملک میں آباد دیگر تمام طبقات کو کھل کر چیلینج کر سکیں اور اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ وہ طبقہ کبھی تو "دھرم سنسد" کا انعقاد کرتا ہے اور وہاں سے اعلانیہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتا ہے، قتل و غارت گری اور دیش سے نکالنے کی باتیں کرتا ہے، کبھی مسلمانوں کی "گھر واپسی" ان کی "لنچنگ” اور "لوجہاد" جیسے شوشے چھوڑ کر ان کے خلاف بھڑکاؤ بیان بازی کرتا ہے اور حکومتیں سب کچھ دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی بروقت کوئی ایکشن لیتی نظر نہیں آتیں، علی الاعلان اور کھلم کھلا بغاوت و شرپسندی کرنے والے جگہ جگہ ہفوات گوئی اور نازیبا حرکتیں کر رہے ہیں، مگر ان کے خلاف نہ کوئی وارنٹ آتا ہے اور نہ کوئی مناسب کارروائی ہوتی معلوم پڑتی ہے۔ جب کہ اگر یہی حرکت و اشتعال انگیزی ان کے مذہب و نظریے سے موافقت نہ رکھنے والا کر دے تو جگہ چھوڑنے سے پہلے اس کی گرفتاری عمل میں آ جاتی ہے۔
حکومتی اداروں سمیت ملک کی پالیسیوں سے کھلواڑ کرنے والے ٹولے کی باتیں اور شکایتیں تو بہت ہیں، مگر جب دیکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے ہمراہ سیکولر ذہن اور جمہوریت کی بقا کےلیے میدان میں آنے والی ایک بڑی تعداد ہمارے برادران وطن کی بھی ہے اور انھیں بھی ملک کی آزادی، اس کی خود مختاری اور جمہوری اقدار و روایات کے تحفظ اور یہاں کے آئین و دستور کی بقا کی فکر ویسے ہی دامن گیر ہے، جیسے مسلمانوں کو اس کی سلامتی کی فکر ہر وقت ستاتی رہتی ہے اور برادران وطن کا یہ طبقہ مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے؛ تو من کو تسلی اور قلب کو سکون حاصل ہو جاتا ہے.
موجودہ پُرآشوب حالات کے تناظر میں جناب ساحر لدھیاؔنوی کی نظم: ‘یوم جمہوریہ پر` کے چند اشعار پیش خدمت ہیں، ملاحظہ فرمائیں؂
آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر
دیکھےتھے ہم نے جو وہ حسیں خواب کیا ہوئے
کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا
مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزایاب کیا ہوئے
مذہب کا روگ آج بھی کیوں لاعِلاج ہے
وہ نُسخہ ہائے نادر و نایاب کیا ہوئے
ہر کوچہ شعلہ زار ہے، ہر شہر قتل گاہ
یکجہتی حیات کے آداب کیا ہوئے؟؟؟
مجرم ہوں میں اگر تو گنہگار تم بھی ہو
اے رہبرانِ قوم! خطا کار تم بھی ہو!!!
(mdqasimtandvi@gmail.com)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مولانا محمد علی جوؔہر کی شخصیت تعلیمی و تحریکی تھی!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے