ہمیشہ باقی رہے جمہوریت ہندستان کی

ہمیشہ باقی رہے جمہوریت ہندستان کی

جاوید اختر بھارتی

یہ حقیقت ہے کہ علماے کرام کی بدولت ہی بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے اور آج بھی مدارس میں ملک سے وفاداری کی تعلیم دی جاتی ہے، امن و سلامتی کا پیغام دیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ملک کی حفاظت کی ہے. اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ہے. اس لیے نہ تو مسلمانوں پر شک کی گنجائش ہے اور نہ ہی دینی مدارس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ہے. آج جس طرح مرکزی و ریاستی حکومت نئے نئے قوانین بنا رہی ہے اور احتجاج و مظاہرے کو طاقت کے استعمال کے ساتھ روک رہی ہے یہ جمہوریت کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش ہے. اس لیے کہ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے فیصلوں پر احتجاج و خیر مقدم دونوں کا اختیار ملک کے آئین نے دیا ہے اور آئین تب بنا ہے جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ ہوکر انگریز جیسی ظالم قوموں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ہندستان کو ان کی زنجیروں سے آزاد کرایا. انھی اختیارات کی بنیاد پر شہریت تر میمی قانون کی بھی پورے ملک میں مخالفت ہو رہی تھی اور احتجاج و مظاہرہ ہو رہا تھا اور ناانصافی کے خلاف احتجاج یہ جمہوریت کی شان ہے-
آج کچھ فرقہ پرست جس طرح بدزبانی کر رہے ہیں اور دینی مدارس پر جو بیہودہ الزامات لگا رہے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے. انھیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و جبر اور ناانصافی سے بہت دنوں تک حکومت قائم نہیں رہ سکتی، جہاں اسلام ہوگا وہاں سلامتی ہوگی، جہاں ایمان والے ہوں گے وہاں امن و امان ہوگا، کیونکہ اسلام کے معنیٰ ہی سلامتی کے ہیں اور سلامتی کی ہی مذہب اسلام تعلیم بھی دیتا ہے. ماضی میں جو پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ ہورہا تھا اسے قطعی طور پر مذہبی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی اور مذہبی تھا بھی نہیں بلکہ جس طرح ملک آزاد کرانے میں ہر مذاہب کے لوگوں نے حصہ لیا تھا اسی طرح آئین و جمہوریت بچانے کے لیے ہر مذاہب کے لوگ احتجاج و مظاہرے میں حصہ لے رہے تھے. اس لیے کہ ہر انصاف پسند و سیکولرازم میں یقین رکھنے والے کو اس بات کا احساس ہورہا تھا اور احساس ہورہا ہے کہ شہریت تر میمی قانون سے ملک کا زبردست نقصان ہوگا اس سے مذہبی منافرت بڑھے گی اور فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوں گی اور ملک میں فرقہ پرستی نہ رہے اور پوری طرح امن و سکون قائم رہے یہ ملک کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے.
مسلمانوں کو بھی اپنے آبا و اجداد کی تاریخ کو یاد رکھنا ہو گا کیونکہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ قوم سیاسی قوت کھو دیا کرتی ہے کہیں اس کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہی حال آج ملک میں مسلمانوں کا ہے. اس لیے جمہوریت میں سیاسی پہچان کا ہونا لازمی ہے اور سیاسی پہچان تبھی قائم ہوگی جب ہم اپنے اسلاف کی تاریخ سے روشناس ہوں گے. آج حکومت کے نشے میں چور کچھ لیڈران مدارس دینیہ کو نشانے پر لینا چاہتے ہیں اور جھوٹے الزامات لگاکر ہٹ دھرمی کا اظہار کر رہے ہیں، تاریخ کو جھٹلا رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ آج علماے کرام پر مقدمات درج کیے جارہے ہیں. جب کہ اس ملک کو آزاد کرانے کے لیے علماے کرام نے سروں پر کفن باندھے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ہزاروں ہزار کی تعداد میں شہید ہوئے ہیں. علامہ فضل حق خیرآبادی جنھوں نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا، جنھیں کالا پانی کی سزا دی گئی، فتویٰ واپس لینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن علامہ فضل حق خیرآبادی نے کہا کہ فتویٰ طبیعت کی روشنی میں نہیں دیا جاتا ہے کہ جب چاہے بدل دیا جائے بلکہ فتویٰ شریعت کی روشنی میں دیا جاتا ہے، اس لیے بدلا نہیں جاسکتا اور ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس مذہب میں وطن عزیز سے محبت اور حفاظت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنا نصف ایمان تک قرار دیا گیا ہے تو ہم اپنی آخری سانس بھی اپنے ملک ہندستان کے لیے قربان کردیں گے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک ملک کے لیے بہا دیں گے لیکن فتویٰ نہیں بدلیں گے. مولانا ابوالکلام آزاد کی بیوی بیمار تھی اور مولانا آزاد جیل کے اندر تھے، انگریز نے پیغام بھیجا کہ اگر مولانا آزاد تحریر دیں اپنے آپ کو تحریک آزادی سے الگ کر نے کی تو ہم ان کی بیوی کی بیماری کے مدنظر انھیں رہا کر دیں گے. جب یہ پیغام جواہر لال نہرو نے ان تک پہنچایا تو مولانا آزاد نے کہا کہ ایک طرف میری بیوی بیمار ہے اور دوسری طرف میری ماں کو انگریزوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ایسے میں مجھے اپنی بیوی کی فکر نہیں ہے بلکہ اپنی ماں کی فکر ہے، میں اپنی ماں کو انگریزوں کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے اپنی بیوی کی بیماری کو نظر انداز کرسکتا ہوں لیکن ماں کو سسکتا ہوا اور زنجیروں میں کراہتا ہوا نہیں دیکھ سکتا. مجھے اپنی بیوی کی بیماری منظور ہے، بیوی کی اٹھتی ہوئی ارتھی منظور ہے، بیوی کا جاتا ہوا جنازہ منظور ہے مگر مجھے ایسی رہائی منظور نہیں ہے-
ریشمی رومال کی تحریک علماے کرام نے چلائی، انقلاب زندہ باد کا نعرہ علماے کرام نے لگایا ، گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب علماے کرام نے دیا، تقسیم ہند کی مخالفت علماے کرام نے کیا، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف خطاب علماے کرام نے کیا، ملک کی آزادی کے بعد جب دستور ہند مرتب ہوا تو سب سے پہلے خیرمقدم علماے کرام نے کیا، قدم قدم پر ملک سے حب الوطنی کا ثبوت علماے کرام نے دیا اور ہزاروں علما نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، ان کا تعلق انھی مدارس سے تھا جن مدارس پر آج کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ گھناؤنے الزامات لگارہے ہیں. اگر اپنی آنکھوں سے نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہندستان کے مدارس ملک کی آزادی کی لڑائی اور جمہوریت کے فروغ کا ایک حصہ نظر آئیں گے لیکن یہاں تو ہندو مسلم اتحاد کو توڑ کر اور دونوں کے جذبات کو ابھار کر سیاست کی روٹی سینکنے کا کچھ لوگوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے، جنھیں نہ تو ملک کی پرواہ ہے اور نہ ملک کی عوام کی پرواہ ہے، نہ آئین کی پرواہ ہے نہ عہدے کے وقار کی پرواہ ہے، بس سروں پر غرور سوار ہے. زبان درازی، بدکلامی، بدزبانی، گالی اور دھمکی و اشتعال انگیز بیانات و تقریریں کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے اور آج ہماری صفوں میں بھی ایسے ایسے تنگ نظر پیدا ہو گئے ہیں کہ ملک کی آزادی سے متعلق بھی مضمون لکھتے ہیں تو مکتب فکر کی بنیاد پر لکھتے ہیں، ان کے مضامین سے اختلافات، تعصبات، بغض، حسد نفرت کی بو آتی ہے اور اس کے باوجود بھی صحافی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں. وجہ یہ ہے کہ ان کی سوچ کا دائرہ بہت چھوٹا ہے. میرے نزدیک بلا تفریق مذہب و ملت وہ سب قابل احترام ہیں جنھوں نے ملک کو آزاد کرانے میں جان و مال کی قربانی دی ہے. آج الیکشن کا بھی ماحول ہے یعنی امسال یوم جمہوریہ ایک پیغام لے کر آیا ہے اور یہ اعلان کررہا ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر کسی کو اپنا نمائندہ منتخب کرو اور حکومت کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں دو جوجمہوریت کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور جمہوریت کی شان بڑھائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری بیداری کے ساتھ حق رائے دہی کے استعمال میں حصہ لو اور ہندستان زندہ باد کا نعرہ لگاؤ.
javedbharti508@gmail.com
جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
صاحب تحریر کی گذشتہ. گارش:جو کرے اتحاد کی بات : پوچھو اس سے مسلک کیا ہے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے