مولانا محمد علی جوؔہر کی شخصیت تعلیمی و تحریکی تھی!

مولانا محمد علی جوؔہر کی شخصیت تعلیمی و تحریکی تھی!

محمد قاسم ٹانڈؔوی
رابطہ: 09319019005
وطن عزیز ہندستان کی آزادی میں جن عظیم افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ملک کو آزادی دلانے کےلیے دوران جنگ جن عظیم شخصیات نے اپنے تن من دھن کی بازی لگائی تھی؛ ان میں سے ایک اہم اور نمایاں شخصیت مولانا محمد علی جوہؔر رام پوری کی ہے، جو آگے چل کر نہ صرف ملک کے ایک عظیم رہ نما ثابت ہوئے بلکہ جنگ آزادی میں انھوں نے اپنا کردار ساز رول بھی نبھایا تھا۔ مولانا کا تخلص "جوہر" اور آبائی وطن "ریاست رامپور" تھا، جہاں مولانا نے 10/دسمبر1878ء کو آنکھیں کھولی تھیں۔ زمانۂ شیر خوارگی ہی میں والد صاحب (مولانا عبدالعلیؒ) کے سایہ عطوفت سے محروم ہو گئے تھے، جس کے بعد آپ کی تربیت اور پرورش کی مکمل دیکھ بھال آپ کی نیک طینت و فطرت والدہ ماجدہ "بی اماں" کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ آپ کی والدہ ایک روشن خیال اور مذہبی امور کی پابند عورت تھیں، جنھوں نے اپنی اس ذمہ داری کو احسن طریقہ پر نبھایا، اس کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ مولانا نے جب اپنے احساس و شعور کی آنکھیں کھولی تو انھیں اپنے ارد گرد اسلامی تعلیمات، مذہبی امور سے گہرا ربط اور دینی مزاج کی حامل ماں کا آنچل و سایہ اور ایک بہترین شفیق و مربی کی حیثیت سے ماں کو پایا، جن کی تربیت و اخلاق کی بدولت آپ کا مزاج و ذہن بھی دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوا۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کے مراحل رام پور اور بریلی میں پورے کیے، مگر اعلا تعلیم کےلیے آپ نے علی گڑھ کا رخ کیا، جہاں آپ نے بی اے کے امتحان میں شان دار کامیابی حاصل کی اور اسی اعلا و امتیازی کامیابی کی بنیاد پر آپ آلہ آباد یونی ورسٹی میں اول پوزیشن لانے والے ہوئے۔ اس کے بعد آپ مزید اعلا تعلیم کے حصول کے واسطے آکسفورڈ یونی ورسٹی بھی گئے، جہاں سے آپ نے آئی سی ایس کی تکمیل کی۔ اس کے بعد آپ اپنے وطن رام پور واپس ہوئے اور رام پور و بڑودہ میں ملازمت اختیار کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل برداشتہ ہو کر ہندستان کے تجارتی و ثقافتی مرکز شہر کلکتہ کا سفر کیا اور یہیں بود و باش اختیار کرنے کے بعد آپ نے یہیں سے انگریزی اخبار ‘کامریڈ’ جاری کیا۔ آپ کی ادارت میں جاری ہونے والے اس انگریزی اخبار نے ملک و بیرون ملک کچھ ہی عرصے میں دھوم اور ایک تہلکہ مچا کر رکھ دیا، کیوں کہ اخبار کا اداریہ بصیرت افروز، مضامین معنی خیز، انقلابی دعوت و فکر سے لبریز مقالات اور دل چسپ و حیرت انگیز معلومات کی بنا پر یہ اخبار عام و خاص سبھی طبقوں میں ذوق و شوق سے پڑھا جانے لگا تھا۔
انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ مولانا کو اردو زبان پر بھی مکمل عبور اور دست رس حاصل تھی، اسی وجہ سے مولانا نے اپنی ادارت میں ایک اردو اخبار روزنامہ ‘ہمدرد` بھی جاری کیا تھا، جس کی کاپیاں اور اس وقت کے حساب سے لگائی جانے والی شہ سرخیاں آج بھی مولانا جوہؔر کی جرآت و بےباکی، اظہار خیال کی آزادی و بےخوفی اور وطن سے محبت کی عکاسی کی نہ صرف بھرپور مناظر پیش کرتی ہیں، بلکہ صحافت کے ان اصول و ضوابط پر بھی روشنی ڈالتی ہیں؛ جہاں سے ایک کامیاب صحافت کا آغاز و افتتاح ہوتا ہے۔
چونکہ مولانا کی جدوجہد اور رات و دن کی مشغولیت کا اصل مقصد ملک کی آزادی اور خود مختاری تھا، جہاں وہ ہر ہندستانی کو آزاد فضا میں سانس لےکر جینا، اپنے کاروبار اور مشن کو ترتیب دینا اور قومی و مذہبی امور کی پابندی و ادائیگی کو ان کا آئینی و پیدائشی حق سمجھتے تھے، جس کےلیے مولانا ہمیشہ متحرک و سرگرم رہتے تھے، اور انگریزوں کے چنگل میں پھنسا یہ ملک کیسے آزاد ہو؟ اور کیسے یہاں کے عوام کو ان کے ظلم و استبداد سے چھٹکارا حاصل ہو؟ اسی کےلیے متفکر و مغموم رہتے، جس کےلیے اس وقت کے بڑے بڑے لیڈران اور قوم و ملت کی سربراہی و راہ نمائی کرنے والوں کے ساتھ اہم اجلاس میں شریک ہوکر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے اور اپنے آہنی ارادوں سے مطلع فرماتے۔ چنانچہ1919/میں تحریک خلافت کی بنیاد آپ ہی نے رکھی، اور گاندھی جی کی جاری کردہ تحریک ترک موالات میں آپ شانہ بشانہ گاندھی جی کے ساتھ رہے، اور ایسی ہی تحریکوں کا حصہ بنے رہنے اور ان کی پاداش میں مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک عدم تعاون کی بنا پر کئی سال مولانا جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی رہے۔ اسی طرح مولانا محمد علی جوہرؔ کا سب سے عظیم و یاد گار، شاہ کار اور اہم کارنامہ "جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی" کا کار تاسیس ہے، جو کہ صرف آپ ہی کی سربستہ کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اور یہ ایسا شاہ کار و بےمثال کارنامہ ہے، جس کے بارے میں مولانا عبدالماجد (دریابادیؒ) لکھتے ہیں کہ:
"محمد علی (جوہؔر) زندگی بھر کچھ نہ کرتے اور صرف جامعہ ہی کی بنیاد ڈال جاتے تو یہ ہی ایک کارنامہ سرمایہ عمل ہونے کےلیے کافی تھا"۔
دراصل مولانا دریابادیؒ کا ایسا کہنا اور لکھنا یہ ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور وہ باریک نکتہ یہ ہے کہ مولانا جوہرؔ نے جامعہ ملیہ کے تعلیمی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ‘جامعہ کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمانوں کو حق دوست و خدا پرست مسلمان بنایا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان کو وطن دوست اور حریت پسند ہندوستانی بنایا جائے`۔
چونکہ مولانا فطری طور پر مذہبی ذہن اور تحریکی مزاج کے حامل تھے، اور مولانا یہی چاہتے تھے کہ ہندستانی مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے اور علاقے میں رہائش پذیر ہو، مگر اپنے مذہب کا سچا پیروکار اور وطن کا حقیقی سپاہی و خیرخواہ ہو اور وہ جہاں بھی رہے اپنی ان دونوں خصوصیات کا حامل و ممتاز بن کر رہے۔ خود مولانا جوؔہر آخر دم تک اپنے انہی دونوں نظریات پر قائم و سرگرداں رہے، جس کےلیے آپ نے نومبر/1930ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان کا سفر کیا اور اس کانفرنس میں آپ نے اپنے وطن عزیز ہندستان سے بےانتہا عقیدت و محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس ملک کی آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہوئے یوں خطاب کیا تھا کہ:
"اگر تم لوگ (انگریز) میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا اور میری قبر بھی تم کو یہیں بنا کر دینا ہوگی"۔ چنانچہ ان تحریکوں سے مولانا کی دلی وابستگی ہونا اور دوسرے جامعہ ملیہ کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا؛ دراصل مولانا جوؔہر کے تئیں یہ بتانے کےلیے کافی ہیں کہ: مولانا کی شخصیت تعلیمی اور تحریکی تھی، اور ان کا یہ خواب تھا کہ ہر مسلمان بلکہ ہر ہندستانی ان دونوں خصوصیات سے خود کو آراستہ پیراستہ کرے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد (4/جنوری/1931ء کو) آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ بغرض تدفین آپ کی نعش سرزمین انبیاء ‘بیت المقدس` (فلسطین) لے جائی گئی، جہاں آپ کا روضہ و مقبرہ آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ (رحمۃاللہ علیہ رحمۃً واسعہ)
(mdqasimtandvi@gmail.com)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی حالت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے