افسانچے کے فن پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب

افسانچے کے فن پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب

افسانچے کا فن (انتخاب، ترتیب اور مقدمہ)
مرتب: محمد علیم اسماعیل
سنہ اشاعت: 2021
ناشر: ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی
تعارف و تبصرہ: ڈاکٹر م ق سلیم

محمد علیم اسماعیل افسانہ و افسانچہ نگار ہیں۔ ان کی اس سے قبل دو کتابیں، ’الجھن‘ (افسانے و افسانچے) 2018 اور ’رنجش‘ (افسانے) 2020 منظر عام پر آئی ہیں۔ ’افسانچے کا فن‘ ان کی تیسری کتاب ہے۔ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف اور صرف افسانچے کے فن پر بات کرتی ہے۔ نوجوان افسانہ نگار ہیں اور انھوں نے کوشش کی ہے کہ عنوان کا حق ادا کریں۔ کتاب کا انتساب مشہور افسانچہ نگار ڈاکٹر ایم اے حق کے نام ہے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انھوں نے حق ادا کیا۔ مشمولات میں مضامین 8، افسانچے کا فن اور اقتباسات 15، افسانچے کا فن اور تاثرات 10، چند منتخب افسانچے 58 شامل ہیں۔ مقدمہ سے قبل صفحہ 9 پر بڑا اچھا تاثر دیا گیا ہے۔
’’اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے، اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں، اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہم دردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بہ جانب ثابت کریں….‘‘ (پطرس کے مضامین) بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ جملے میں اس کتاب کے متعلق محسوس کرتا ہوں۔
محمد علیم اسماعیل
مقدمہ میں مرتب نے افسانچہ کیا ہوتا ہے، افسانچہ کس طرح لکھا جاتا ہے، اس میں کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں پر بحث کی ہے۔ اس کتاب میں فنِ افسانچہ کے متعلق تقریباً تمام سوالات کے جوابات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور افسانچے کے فن پر کتاب لکھنے کی نہ صرف وجہ بتائی گئی بلکہ افسانچہ نگاری میں پیش آنے والی دشواریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مضمون نگاروں نے بھی حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
سرور غزالی کا کہنا ہے:
’’افسانچہ لکھنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ افسانچہ لکھنا کبھی بھی دانستہ یا شعوری عمل یعنی اسے بنانا نہیں ہوتا۔ بس خیالات کے پنچھی آئے، کچھ دیر ٹھہرے اور پھر پھر۔ بعد میں تخلیق کار سوچتا ہے یہ کیا تھا اتنی جلدی سب پر جھاڑ کر اڑ گئے۔‘‘
رونق جمال لکھتے ہیں:
’’وقت کی کمی کی وجہ سے چاہے وہ کسی بھی زبان و ادب کا قاری ہو ضخیم کتب اور ناولوں سے دوری بنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ان مجبور قارئین میں اردو زبان و ادب کے قارئین بھی شامل ہیں۔ افسانچے کی ایجاد نے ادب میں کھلبلی سی مچادی ہے۔ افسانچے نے بہت تیزی سے مختصر وقت میں ادب میں اہم مقام پا لیا ہے۔‘‘
مرتب نے اچھے حوالوں کو درج کیا ہے۔ اس طرح ’اردو افسانچہ : تعارف و مباحث‘ میں انھوں نے جو اقتباسات دے ہیں ملاحظہ کیجیے۔
جوگندر پال لکھتے ہیں: ’’افسانچے کے اختصار کا اہم ترین پہلو یہی ہے کہ اس کے معانی افسانچہ نگار کے دو ٹوک فیصلے کی بجائے، قاری کے تخلیقی تجسّس سے انجام پاتے ہیں۔‘‘
محمد بشیر مالیر کوٹلوی کا کہنا ہے:
ایک کامیاب افسانچہ، میں اُسے ہی مانتا ہوں جسے پڑھ کر محسوس ہو کہ اس افسانچہ کو بنیاد بنا کر ایک طویل افسانہ بھی تخلیق کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عظیم راہی کے مطابق:
افسانچہ، زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کر ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کر دینے کا نام ہے۔
اس کے بعد مرتب نے افسانچے کا سب سے بڑا ہیرو، افسانچہ کیا ہے؟، کہانی پن، افسانچے کا اختتام، اشارے اور کنایے، اختتامی فیصلہ، ذہنی مشق اور تجربہ، موضوعات، رباعی کا آخری مصرع، دیگر اجزائے ترکیبی، افسانچے کی طوالت، افسانچہ اور لطیفہ، افسانچہ اور غزل، افسانچے میں افسانویت، ادب میں شناخت کا مسئلہ، آخر کون ہیں یہ لوگ؟، ایک واقعہ، اصل کہانی، نئے افسانچہ نگاروں کی عجلت شہرت اور سہل پسندی، نئے افسانچہ نگاروں کی پرورش، بے جا تنقید، ذرا نم ہو تو…، افسانچے کی مقبولیت کا راز، ان ذیلی عنوانات کے تحت خوب لکھا۔
آج کل اکثر افسانچہ نگار ایک دوسرے کو کم تر بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے اس صنف کو جو عروج حاصل ہورہا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ میں نے کورونا پر 100 سے زائد افسانچے لکھے۔ ’مٹھی میں ریت‘ کورونا کے موضوع پر میری پہلی اور مکمل افسانچوں کی کتاب ہے تو واجد اختر صدیقی نے مجھے کورونائی افسانچہ نگار لکھ دیا حالانکہ اس سے ہٹ کر بھی میرے افسانچے ہیں۔ خیر میرا مقصد کسی کی تعریف یا توہین نہیں بلکہ ہلکی تنقید نہ ہو جس سے افسانچہ نگار مایوس ہو۔
مقدمہ تفصیل سے ہے جس میں ہر طرح کا جائزہ لیا گیا جس کے لیے محمد علیم اسماعیل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مقدمہ کے بعد کتاب میں کیا کیا شامل ہے ملاحظہ کریں۔
مضامین:
افسانچہ: جوگندر پال
افسانچہ کیا ہے؟: ڈاکٹر ایم اے حق
کامیاب افسانچے کی خوبیاں: محمد بشیر مالیر کوٹلوی
اردو افسانچے کے مسائل: ڈاکٹر عظیم راہی
اردو میں افسانچہ نگاری: پروفیسر اسلم جمشید پوری
افسانچہ نگاری: سرور غزالی
اردوافسانچہ اور زندگی کے مسائل: رونق جمال
افسانچہ نگاری کے خدوخال: محمد فاروق
افسانچے کا فن اور اقتباسات:
جوگندر پال، ڈاکٹر رضوان احمد، عبداللہ جاوید، دیپک بدکی، ڈاکٹر کیول دھیر، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، امجد مرزا امجد، رؤف خیر، عارف نقوی، بانو ارشد، ڈاکٹر امام اعظم، احمد صغیر، خورشید اقبال، مراق مرزا، احسان سہگل۔
افسانچے کا فن اور تاثرات:
افتخار امام صدیقی، نذیر فتح پوری، عارف خورشید، پروفیسر حمید سہروردی، ارشد عبدالحميد، محمد علی صدیقی، جاوید نہال حشمی، ریحان کوثر، سید اسماعیل گوہر۔ اور، انٹریو: پرویز بلگرامی سے محمد علیم اسماعیل کی گفتگو۔
چند منتخب افسانچے: تقریبا 58 افسانچے ہیں۔ ہر افسانچہ اپنی جگہ مکمل ہے اور جن افسانچوں کا انتخاب کیا گیا ہے خوب ہے.
محمد علیم اسماعیل کا یہ انتخاب، ترتیب اور مقدمہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ افسانچوں کا معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے اس کی وجہ ہے افسانچے کے فن سے واقفیت نہ ہونا۔ عظیم راہی کا یہ افسانچہ کتنا معنی خیز ہے۔
’’وہ شخص جس نے میرے قتل کی سازش رچی تھی۔
معجزاتی طور پر۔۔۔ میرے بچ جانے پر۔۔۔ مبارکباد دینے والوں میں وہی سب سے آگے تھا۔‘‘
مرتب نے اچھے افسانچے جمع کیے ہیں۔ علیم اسماعیل کی یہ کتاب کوئی نیا افسانچہ نگار پڑھ لے تو یقیناً اس کی تحریر میں واضح نکھار آئے گا اور وہ افسانچے کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا سکے گا۔
صاحب کتاب کا پتہ اور رابطہ نمبر:
Mohd Alim Ismail
(Asst. Teacher)
Ward No. 15
Behind Police Station
NANDURA – 443404 (M.S)
Mob: 8275047415
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: دکھتی رگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے