کتاب: دکھتی رگ

کتاب: دکھتی رگ

مصنف: محترم خالد بشیر تلگامی صاحب
تبصرہ: ڈاکٹر انیس رشید خان، امراؤتی

ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے جس میں اُس معاشرے کی حقیقی تصویر صاف دکھائی دیتی ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ادب میں بڑی آسانی سے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ دور حاضر میں، زندگی کی مصروفیات اتنی زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ زیادہ تر انسان وقت کی کمی کے احساس کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں بڑے بڑے ضخیم ناول اور طویل ترین افسانوں کو خاص طور پر پڑھنے کے لیے وقت نکال پانا اکثر و بیش تر قارئین کے لیے مشکل ہوگیا ہے، اسی لیے اردو ادب میں ایک نئی صنف ‘افسانچہ` کی ابتدا ہوئی ہے۔ افسانچہ ایک طرح سے ایک چھوٹا سا افسانہ ہوتا ہے جس میں افسانے کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن "اختصار لفظی" کی خاصیت سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔
افسانچہ کی صنف میں جن ادیبوں کا نام صف اول میں لیا جائے گا اُن میں ایک درخشاں نام محترم خالد بشیر تلگامی صاحب کا بھی ہے۔ محترم خالد بشیر صاحب کا تعلق مرکزی جموں و کشمیر کے ضلع بارہ مولہ سے ہے، جو کہ ادبی اعتار سے بہت زرخیز ہے۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کاآغاز شاعری سے کیا ہے۔ شاعری کے بعد آپ نے اردو زبان میں اور کشمیری زبان میں افسانے اور افسانچے لکھنا شروع کیے۔ کتاب ھٰذا ۔۔۔۔ دُکھتی رگ ۔۔۔۔ آپ کے اردو افسانچوں کا پہلا مجموعہ ہے جو کہ اسی سال 2021 میں شائع ہوا ہے۔ اسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو مصنف نے اپنے والدین کےنام، اپنی شریک حیات کے نام اور اپنی تینوں بیٹیوں کے نام منتسب کیا ہے۔
اس کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ اس کے پہلے حصے میں محترم نور شاہ صاحب، محترمہ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ، محترم تنویر رومانی صاحب، محترم ایم مبین صاحب، محترم سرور غزالی صاحب اور پروفیسر اسلم جمشیدپوری صاحب کے چھے مضامین موجود ہیں۔ ان چھے مضامین میں محترم خالد بشیر تلگامی صاحب کی تحریروں اور آپ کی ادبی کاوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان مضامین میں محترم خالد بشیر صاحب کی ادبی و فنی صلاحیتوں کا بہترین احاطہ کیا گیا ہے۔ ان چھے مضامین کے بعد، دو مضامین، بہ عنوان مختصر تعارف اور اپنی باتیں، محترم خالد بشیر صاحب نے لکھے ہیں۔ ان دونوں مضامین میں آپ نے اپنا مختصر تعارف اور اپنے ذاتی احساسات پیش کیے ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصے میں محترم خالد بشیر صاحب کے کل 106 افسانچے پیش کئے گئے ہیں۔ پہلا افسانچہ بٹوارہ ہے اور آخری افسانچہ آکسیجن!۔۔۔۔ ہر افسانچہ اپنے اندر ایک عمیق گہرائی لیے ہوئے ہے۔ ہر افسانچے کو تفصیلی انداز میں کھولیں تو شان دار افسانے نمودار ہوں۔ ۔۔یعنی ہر ایک افسانچہ ایک مکمل اور شان دار افسانے کے برابر ہے ! ۔۔۔۔ میں یہاں کچھ افسانچوں کا خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ ایک افسانچہ ہے "احترام" ۔۔۔انتہائی اختصار لفظی کے ساتھ آپ نے اس افسانچے میں ایک ایسی بات کہہ دی ہے جو کہ ایک طویل بامقصد افسانے میں کہی جاسکتی ہے۔ اس افسانچہ میں آپ نے نہایت سادگی سے کہہ دیا ہے موجودہ دور کے مسلمانوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہی ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ لین دین کے معاملات میں عدل سے کام لینا چاہیے۔ اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں ہم اپنی من مانیوں کے لیے آزاد ہیں! ۔۔۔۔۔ ایک اور افسانچہ "تبدیلی" کی بات کرتے ہیں۔ اس افسانچے میں ایک نقاب والی خاتون کو ایک چپراسی آفس کے اندر داخل ہونے سے روک دیتا ہے کیونکہ اس کے آفیسر کا حکم تھا کہ کسی کو بھی چہرے پر نقاب لگائی ہوئی حالت میں اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔۔۔۔پھر کچھ وقت گزرا۔۔۔۔کورونا کی وبا نے زندگی کے تمام رنگ و ڈھنگ ہی تبدیل کردیے۔ اب وہی چپراسی اپنے اُسی آفیسر کے آفس میں کسی کو بھی بغیر نقاب (ماسک) کے داخل نہیں ہونے دیتا ہے۔ کتنا خوب صورت افسانچہ ہے کہ دنیا کی ایک بہت بڑی اور بہت گہری سچائی کو کس طرح سادگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اور کتنے افسانچوں کا ذکر کروں! ۔۔۔ہر ایک افسانچہ ایک سمندر کی طرح ہے ۔۔۔۔جس میں قاری ڈوبتا ہی چلاجاتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو ایک گوہر نایاب کے ساتھ !
محترم خالد بشیر تلگامی صاحب کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے افسانچوں کی دنیا میں اس خوب صورت مجموعہ کو پیش کرکے نہ صرف اس صنف کی بقا اور ترقی کی راہیں ہم وار کی ہیں بلکہ نئے افسانچہ نگاروں کے لیے ایک ایسی مشعل راہ تیار کردی ہے جس کی روشنی میں نہ جانے اب کتنے ہی مسافر اس خوب صورت راہ سے اپنی اپنی منزلوں کے نشان پائیں گے۔ بہت بہت مبارک باد!
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :گلشن ہاؤس از ڈاکٹر انیس رشید خان، امراؤتی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے