رفعت میں مقاصد کو ہم دوش ثریا کر

رفعت میں مقاصد کو ہم دوش ثریا کر

تاثرات اور افسانوں پر گفتگو
(بہ طور جج  مقابلہ افسانہ نگاری نقشِ خامہ 2021) 

ڈاکٹر فریدہ تبسم، گلبرگہ، کرناٹک ،انڈیا

رفعت میں مقاصد کو ہم دوش ثریا کر
خود داریِ ساحل دے آزادیِ دریا دے
بے لوث محبت ہو بے باک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر دل صورت مینا دے

کسی بھی کام میں بے لوث محبت و محنت ہو تو وہ ایک دن ہم دوش ثریا بن جاتا ہے.
کسی بھی متمدن ملک اور قوم کے معیار کے تعین، اس کی نیک نامی اور شہرت میں زبان کا رول ان معنوں میں ناقابل فراموش ہے کہ زبان انسانوں کے ذریعۂ اظہار کا وسیلہ ہے بلکہ یہ انسانوں کو مہذب [بناتی] اور شعور بخشتی ہے اور بصارت کو بصیرت عطا کرتی ہے. اتنا ہی نہیں ملک میں امن و امان کی بحالی اور باہمی اتحاد اور اتفاق کو پروان چڑھانے میں اور رواداری کو فروغ دینے میں زبان غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے انسان اپنا فکر و خیال لفظی پیکر میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔
تمام علوم و فنون کا سرچشمہ انسانی فکر ہی ہے. اس لیے کسی بھی انسان کی بصیرت و بصارت کی افادیت و اہمیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی فکری روش کیسی ہے. اگر کسی انسان کی فکر تعمیری اور صالح ہے تو اس کا نتیجۂ فکر بھی نہ صرف ملک و معاشرہ بلکہ کائنات کے لیے منفعت بخش ہوگا۔
ادب آغاز سے ہی انسان کے لیے فلاح و بہبود، مسرت و بصیرت اور قدرے روحانی تسکین کا ذریعہ رہا ہے۔ قدرت و کائنات کی خوب صورتی اور بد صورتی کا دار و مدار بڑی حد تک ہمارے حسن نظر پر منحصر ہے۔
ہمارے اندر شر و خیر دراصل اپنے فکر و خیال، زاویہ نگاہ اور عمل پر منحصر ہے. ہم مختلف چیزوں سے مختلف اثر قبول کرتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کہاں سے کیا لیتے ہیں اور کیا چھوڑ دیتے ہیں، یہ ہماری تربیت اور اخلاق، مذہب و صحبت، علم و عمل پر مدار کرتا ہے۔
ادب ہی کے توسط سے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں پیدا ہوتا ہے. انسان کے سینے میں جہاں درد پیدا ہوتا ہے یہی درد کا رشتہ تخلیق کار قاری سے جوڑتا ہے۔ در حقیقت تخلیق کار اس درد کے بطون میں اتر کر وہ احساس چرا لاتا ہے جس سے قاری محظوظ بھی ہوتا ہے اور متاثر بھی ہوتا ہے۔ انسانی زندگی سے جو مسائل جڑے ہوئے ہیں ان کی عکاسی کرتا ہے.
جہاں سیاسی و سماجی سطح پر اس پر غور نہیں کیا جاتا وہاں ایک حساس فن کار اپنے فن کے کمال کے ساتھ ادبی و ثقافتی سطح پر اس کی تفہیم کرتا ہے۔ انسانی ہم دردی کے تحت ان مسائل پر نہ صرف غور کرتا ہے بلکہ اس معاشرہ کی بیداری کا فریضہ بھی انجام دیتا رہتا ہے.
ایسی بے شمار مثالیں اردو فکشن میں ملتی ہیں اور بالخصوص افسانے اس کا عملی نمونہ ہیں. اس نے اپنے پیغام سے قوموں میں اتحاد پیدا کیا، رواداری کا سبق سکھایا، امن و محبت کے جذبے کو عام کیا، انسان اور انسانیت کی بقا کو فروغ دیا۔ اور غور و فکر کی دعوت دی ہے.
دراصل اردو زبان محبت و خلوص کی زبان دلوں کو جوڑنے کی زبان ہے۔ ادب سے قاری کو جوڑے رکھنا کمال ہنر ہے. یہی وجہ ہے کہ ادب سے دل چسپی رکھنے والے فورم گروپز ادب کے فروغ میں مستعدی سے جٹ جاتے ہیں.
اس ضمن میں "خرمن ادب" کے منتظمین قابل داد و تحسین ہیں کہ یہاں کچھ نہ کچھ ادبی ہلچل ہوتی ہی رہتی ہے. اس بار خرمن ادب میں افسانوی ایونٹ رکھا گیا. اس بزم نے گذشتہ ماہ اردو افسانوں کے متفرق رنگ کے پھولوں سے نہ صرف اس بزم کے گلدستہ کو سجائے رکھا بلکہ تر و تازہ رکھا۔ اور معطر رکھا۔ سر پرست اعلا محترم المقام سر ارشد عبد الحمید صاحب کا کمال محبت اور منتظمین کی انتھک محنت نے اس افسانہ ایونٹ کے قارئین کو نہ صرف معیاری افسانوں کے گنج ہائے گراں مایہ سے لبریز رکھا بلکہ مختلف النوع افسانوں سے محظوظ کرایا. افسانوی ادب کے قارئین کو ذہنی آسودگی و مسرت عطا کی. وہیں مبصرین کو بصیرت و بصارت سے نئے تجربات، نئی سمت و رفتار پر گامزن کیا۔دونوں قابل مبارک باد ہیں۔
مختلف النوع خیالات، نظریات جذبات و احساسات ان افسانوں کے توسط سے ہم سب تک پہنچے۔ مقابلہ میں شامل سبھی افسانہ نگاروں کو ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں، خلوص کے ساتھ.
اس ایونٹ کے چند افسانے ٹاپ ٹین بہت عمدہ رہے. بہترین کاوش پر داد و تحسین اور باقی افسانوں میں چند افسانے [کہ جن میں] وہی روایتی موضوعات کو دہرایا گیا۔ کوئی نئی بات نہیں اور بیش تر افسانے افسانویت سے خارج پائے گئے۔ بس ایک واقعہ یا روداد یا کوئی کہانی بیان کی گئی ہے، چند تخیل کو تخلیق میں تحلیل کرنے سے قاصر رہے۔ کسی افسانہ میں علامت پورے طور پر علامت نہ بن سکی۔
اردو افسانوں کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے.
"افسانہ" ایک ایسا فریم ہے جس کے دائرہ میں انسانی زندگی کے ایک واقعہ کی تصویر کشی بصیرت و مسرت سے معنی خیز بنائی جاتی ہے۔ جیسے قصہ خوانی کا آرٹ سیدھا سادہ کسی واقعہ کو ادبی و تخلیقی فن کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ وہ سادہ بیانیہ زمرہ میں آتا ہے۔ عموما کہانی کس نوعیت میں لکھی جارہی ہے۔ فرضی یا حقیقی واقعات کو فن میں تحلیل کر ادبی روپ دیا جائے تو اسے بیانیہ Narrativ کہتے ہیں۔ کبھی افسانہ میں روایتی طرز اظہار ہوتا ہے تو کبھی۔۔۔
داستانی اساطیری ،
تمثیلی، استعاراتی،
خطوطی، ڈائری تیکنیک،
سوانحی، آپ بیتی،
مکالماتی تیکنیک،
ڈرامائی تیکنیک،
ماضی بازگشت، ناسٹلجیائی،
تجریدی تیکنیک یا علامتی پیرایہ میں لکھا جاتا رہا ہے۔ یہ افسانہ کس طرز کا ہے پتا لگانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ presentation طرز ادا، پیش کش، فن و تیکنیک، اسلوب کس قسم کا ہے اورافسانہ کی تعمیر و تشکیل میں موضوع اہمیت کا حامل ہوتا ہے.
تخلیق کار اپنا ادعا دراصل Diction یعنی طرز بیان کی ترسیل میں سیدھی سادی زبان کا استعمال کرتا ہے. اسے سادہ بیانیہ اسلوب کہا جاتا ہے۔
کبھی علامتی اسلوب تو کبھی تجریدی اسلوب میں افسانے لکھے گئے ہیں.
بیانیہ بھی کبھی یہ صیغۂ غائب Third person، تو کبھی صیغۂ متکلم First person میں لکھا جاتا ہے۔ ان سارے نکات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
"افسانہ میں فنی تجزیہ"۔۔۔ یعنی موضوع، قصہ، کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمہ، وحدت تاثر، اور انجام وغیرہ اسے "ہئیت" یا اجزائے ترکیبی کہا گیا۔ یہ پورے طور پر منظم شکل میں موجود ہوں تو افسانہ جان دار ہوتا ہے. خیر یہ مختصر باتیں توجہ طلب ہیں.
قابل مبارک باد ہیں وہ مبصرین جو نے اپنا قیمتی وقت دے کر محبت و محنت سے تبصرہ لکھتے رہے۔ چند تبصرے واقعی بہت عمدہ تھے اور چند برائے نام۔ دراصل تبصرہ نگاری اور تنقید کے لیے بھی چند اہم نکات کا جاننا سمجھنا ضروری ہوتا ہے. وگرنہ یہ تنقید تنقیص میں تبدیل ہوجاتی ہے. بے جا تعریف کا آج کل ٹرینڈ بن گیا ہے۔ تعریف یا تو مروت میں کی جاتی ہے یا پھر افسانہ سمجھ نہ آئے تو۔۔۔
مگر سنجیدہ مبصر اور نقاد اس افسانہ میں چھپے گوشوں کو مختلف جہات سے پرکھتا ہے. اس میں فنی اعتبار سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسلوب، زبان و بیان، زمان و مکان، تجسس و تسلسل، افسانویت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا یا نہیں ہے. اور پلاٹ کو مربوط طریقہ سے واقعات کی تشکیل کی گئی یا اختصار کے وصف کو واقعہ کی مناسبت سے طویل یا مختصر کیا گیا ہے۔
تخلیق کار "موضوع" کو اجاگر کرنے کے لیے کسی ایک نکتہ پر نگاہ مرکوز کر اپنے تجربات بیان کرتا ہے۔ اور "نقاد" اس نکتہ کو اپنے ذہن میں مقید کرلیتا ہے۔ اور اسے لے کر وہ پوری کہانی کی تشخیص کرتا ہے۔ آیا یہ موضوع کو کہیں راستہ ہی میں نہ چھوڑ دیا ہو۔
"کردار" کی ادائیگی قصہ میں ستون کا کام انجام دیتی ہے۔ انسان کے حرکات و سکنات، خیال و فکر، اس کے مثبت یا منفی عمل کے ذریعے زندگی کے کس رخ کو پیش کرنا چاہتے ہیں ان کرداروں کے ذریعے جو منعکس کیا جاتا ہے، اس کی نفسیات تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کرداروں کو پلاٹ سے زیادہ اہم تصور کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"واقعات کی کثرت کے مقابلہ میں کردار کی نفسیاتی اور ظاہری تصویروں میں تنوع کو اہمیت اسی لیے دی ہے کہ انسانی توجہ کو برانگیختہ کرنے کے لیے کردار جتنا کارآمد ہے واقعہ اتنا کار آمد نہیں ہے۔"
{افسانہ کی حمایت میں ۔۔۔ص 107}
مکالمہ کے ذریعہ کہانی کی ترتیب کو آگے کیسے بڑھایا گیا ہے۔ مکالمہ جان دار ہیں کہ بے جان۔۔
"منظرنگاری" میں کہانی کے ماحول میں "گرد و پیش کے عناصر سے فضا" کیسے تعمیر کی گئی ہے۔ مثلا ماحول کو اداس یا ڈراونی بتایا گیا ہے یا خوش حالی کا یا پھر رومانی فضا تشکیل دی گئی ہے۔ نقاد یہ پتا لگاتا ہے کہ اس فضا کی گہرائی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نظر مرکوز کرکے ایک ایک جز کیسے پیش کیا گیا ہے. اس جزئیات تک نقاد کو رسائی حاصل کرنا لازمی ہے۔
اس جزئیات سے تصویر کشی کا جو منظر پیش کیا جاتا ہے اس منظر نگاری کی تہہ تک تنقید نگار کی پہنچ ہونا ضروری ہے.
"پلاٹ " میں  واقعات کی تر تیب میں تسلسل و تجسس کو برقرار رکھا گیا یا نہیں۔ واقعات کی تفصیل و جزئیات کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ کہانی پن اجاگر کیا کہ نہیں۔ ایک فسوں خیز اثر پیدا ہوا۔ جس سے افسانوی کیفیت کا رنگ گہرا ہے کہ نہیں۔۔۔؟؟
تخلیق میں تاثر پیدا کیا تو وحدت تاثر یعنی کہانی متاثر کن ہے کہ بکھری ہوئی۔ موضوع سے ہٹ کر نہ بیان کی گئی ہے. وحدت تاثر یعنی موضوع کی ترسیل میں تسلسل کے ساتھ ایک مرکز ایک نکتہ ایک تھیم پر فوکس کیا۔ گویا جز میں کل سمایا ہوا ہے۔۔؟؟
اس کہانی کا کلائمکس خاتمہ کسی ایک نکتہ کا انکشاف جو قاری یا نقاد کو فرط حیرت میں ڈالتا ہے کہ یا کوئی پیغام پیش کرتاہے۔ اس کا اثر قاری پر تادیر قائم رہتا ہے کہ نہیں.
افسانہ دراصل مندرجہ بالا انہی باتوں پر اپنی نظر مذکور کرتا ہے۔ اور تبصرہ نگار اس متن میں سے چھپے راز عیاں کرتا ہے۔
دراصل اچھا تخلیق کار کسی ایک خیال اور نظریہ یا دائرہ کا پابند نہیں ہوتا۔ مختلف نظریات سے بھی استفادہ کرتا رہتا ہے. خیال میں جدت پیدا ہوجائے تو ماضی کی باتوں کو رد کر نیا نکتہ بھی پیش کرتا ہے۔ تغیر و تبدل ہی جدت کی طرف لے جاتی ہے۔ نئی فکر کی طرف راغب کرتی ہے.
نئے تخلیق کار افسانہ نگار کے افسانوں کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوا کہ دراصل ہمارے ہاں "مطالعہ" کی کمی ہے. دور حاضر انٹر نیٹ کی تیز رفتار زندگی میں مطالعہ اولڈ فیشن تصور کیا جاتا ہے. بس ہر نیا لکھنے والا جلد مشہور ہونا چاہتا ہے۔ معیار کے بجائے فیس بک فین کے مقدار میں دل چسپی رکھتا ہے۔ محنت سے دور کوئی مقصد اپنی تکمیلیت کو نہیں پہنچتا۔
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
نئے تخلیق کار حضرات کے لیے ایک درس ایک واقعہ پیش کیا جارہا.
فرانس کے نامور افسانہ نگار موپساں نے جب افسانہ نگاری کی شروعات کی تو کسی شناسا کی مدد سے وہ اس دور کے سب سے بڑے ناول اور افسانہ نگار فلوبئیر سے ملا۔ فلوبئیر اپنے گھر کے لیونگ روم میں آتش دان کے پاس ایزی چئیر پر بیٹھا تھا۔ اس نے موپساں سے افسانہ سنانے کو کہا، موپساں نے اپنا افسانہ سنایا۔ فلوبئیر نے افسانہ سن کر موپساں سے افسانہ لیا اوراسے آتش دان میں ڈال دیا. اس کے بعد موپساں سے کہا ‘کل دوسرا افسانہ لکھ کر لانا`۔ دوسرے دن موپساں پھر ایک افسانہ لے کر گیا ‘فلوبئیر نے سنا اور پھر اس کے ہاتھ سے لے کر آتش دان میں جلا دیا۔ غرض تیس دن تک فلوبئیر موپساں سے روز ایک افسانہ سنتا اور اسے آتش دان میں ڈال دیتا۔ ایک مہینہ بعد اس نے موپساں سے کہا کہ ‘میرے گھر آتے وقت گلی کے کونے پر ایک بھکارن بیٹھی تم نے دیکھی ہوگی، کل اس پر افسانہ لکھ کر لانا` دوسرے دن موپساں اس بھکارن پر افسانہ لکھ کر لے گیا، فلوبئیر نے اسے سنا اور اسے لے کر اپنے نوٹ کے ساتھ فرانس کے سب سے بڑے پرچہ میں شائع ہونے کے لیے بھیج دیا۔ افسانہ شائع ہوتے ہی موپساں کی دھوم مچ گئی اور وہ بڑا تخلیق کار بن گیا۔
جب فلوبئیر بیمار ہوا اور اس کا آخری وقت تھا تو موپساں اس سے ملنے گیا۔ فلوبئیر اسی جگہ آتش دان کے پاس ایزی چئیر پر لیٹا تھا۔ موپساں بات کرتے وقت چوری چوری آتش دان کو دیکھ رہا تھا۔ فلوبئیر نے غور کر لیا اور پوچھا ‘موپساں تم گھڑی گھڑی آتش دان میں کیا دیکھ رہے ہو` موپساں نے کہا ‘اس آتش دان میں فرانس کی نہ جانے کتنی بڑی بڑی تخلیقات جل کر راکھ ہو گئیں۔` فلوبئیر اٹھ کر بیٹھ گیا اور غصہ سے بولا ‘موپساں تم بھول رہے ہو کہ اگر یہ آتش دان نہیں ہوتا تو آج موپساں تم فرانس کے اتنے بڑے تخلیق کار نہیں ہوتے`.
قلم کاروں کو اور بالخصوص نئے قلم کاروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ تو اپنی ہر تخلیق کو شاہ کار ہی سمجھتے ہیں اور پھر جب اس پر تنقید ‘تجزیہ` یا تبصرہ ہوتا ہے تو نہ صرف وہ ناراض ہو جاتے ہیں بلکہ ان اشخاص کو برا بھلا بھی کہنے لگتے ہیں. جب کہ تنقید، تجزیہ یا تبصرہ کرنے والوں کا مقصد ان کی برائی نہیں بلکہ ان کی خامیوں کی نشان دہی کرنا ہے اور ان کی تحریر کو نکھارنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی آئندہ تحریر کو اور بہتر کریں۔ قلم کار کو جتنی جھنجلاہٹ، غصہ اور نفرت ہوگی اس کی اگلی تحریر اتنی ہی نکھر جاۓ گی۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
خرمن ادب کے منتظمین کے بےحد سپاس گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں بہ طور جج مدعو کرکے عزت افزائی فرمائی اور اپنے تاثرات بیان کرنے موقع عنایت فرمایا.

ڈاکٹر فریدہ تبسم کی گذشتہ نگارش یہاں پڑھیں:کتاب : دریافت اور بازیافت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے