کتاب : دریافت اور بازیافت

کتاب : دریافت اور بازیافت

(اردو فکشن پر تحریریں)

مصنف : دائم محمد انصاری
تبصرہ نگار: ڈاکٹر فریدہ تبسم، گلبرگہ، کرناٹک، انڈیا

میرے ساتھیو میرے ہمدمو!
یہ بجا کہ تیز خرام ہوں
میرے ساتھ ساتھ چلے چلو
میں نئ سحر کا پیام ہوں
(مجیب خیرآبادی)
عنوان: "دریافت اور بازیافت"
دراصل نامعلوم سے معلوم کی کھوج ہے اور معلوم سے نامعلوم کی آگاہی ہے۔
جب عنوان ہی متحیرکن ہو جو قاری کے تجسس میں اضافہ کرے اور قاری کو مطالعہ کے لیے مہمیز کرے۔پھر قاری مطالعہ کے بعد ان انکشافات کی جدت سے حیرت و استعجاب میں پڑ جائے اور اس کے ذہن و قلب پر دستک ہو اورتخیل کے در وا ہوں، وہ ان تخلیقات کی تہہ سے نکلنے والے گہر کو پرکھنے لگے، اس کے معیار کو جانچنے کی کوشش کرے تو یقینا وہ تخلیق قابل تعریف اور قابل غور و فکر ہے۔ قابل مبارک باد ہے.
دراصل مصنف نے فکشن کی اس دریافت میں غوطہ زن ہوکر وہ خزینہ نکالنے کی سعی کی ہے جس کی چمک سے حیرتوں کو دعوت دیتا ہے اور دور ماضی کی بازگشت میں کھوئی ہوئی تہذیب و ثقافت تک پہنچ کر ان عظیم اثاثوں کی بازیافت کی ہے جو زبان اردو کے لیے نہایت ضروری اور اہم ہیں۔ دراصل ہم پورے طور پر اپنے اصل کلاسیکی ادب سے نا بلد ہیں۔افسوس کا محل ہے کہ فکشن اور انتقادیات میں مغرپ کی کورانہ تقلید ہی کو ہم جدید ادب سمجھنے لگے ہیں۔ اس شعر کے مصداق :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپیدار ہوگا
ہمارا بھی اپنا اثاثہ ہے. ہم بھی مقام ادب میں عقل و دانش رکھتے ہیں. کتاب "دریافت اور بازیافت" میں من جملہ 14 مضامین ہیں. ان مضامین کا عمومی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دائم صاحب نے اپنی تنقیدی بصیرت سے اپنی انفرادیت کو منوانے کی زبردست کوشش کی ہے. ان کے مضامین میں داستان اردو کی شاہکار داستان "طلسم ہوش ربا" کی تلخیص بھی ہے، عمر عیار کی زنبیل میں مکاری کی حکمت بھی ہے اور حکومت کو مات دینے کی ترکیب بھی ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد جی تو کرتا ہے کہ ایسی حکومتوں کو جو جابر و ظالم ہے جام جمشید کے ذریعے ان کے کرتوت سے آگہی حاصل کر انھیں غائب کرکے عمر عیار کی زنبیل میں ڈال دیں۔ جب درست موقع ملے ان کے کارناموں کے ساتھ ان کا انجام بھی ہو بالکل اس داستان کے واقعہ کی طرح۔
یہاں بات طلسم ہوش ربا کی ہے جو نہایت دل چسپ، طویل، پر تجسس ہے، جہاں کے کردار اور طلسماتی آلات تلمیح اور ضرب المثل کے بطور مستعل ہیں. دراصل اس داستانی طلسمی جال میں اردو کے حسن و جمال کا کمال چھپا ہے۔ اس کے مطالعہ سے حقیقتا بہت کم لوگ مستفید ہیں۔ طلبا اور ریسرچ اسکالرس کو ہمارے قدیم ورثہ داستانوں کی طرف مراجعت کرنا ہوگا کہ ہمارے کلاسیکی ادب کے خزینہ میں کیا کچھ چھپا ہے، اس کی معلومات ضروری ہے. اسی طرف دائم صاحب متوجہ کرتے ہوئے اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی کی داستان امیر حمزہ کی چھیالیس جلدوں کا حوالہ دیتے ہوئے داستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، اقتباسات کے حوالے دیتے ہوئے نئے انکشاف کے ساتھ اپنی انفرادیت کو یوں رقم طراز ہیں:
"مذکورہ بالا منظر ( اور طلسم ہوش ربا کی اس مذکورہ جلد۔۔جلد دوم میں ) ہمیں اس بات سے متعارف کراتا ہے کہ جہاں طلسم میں جنسی تفریق صفر کے برابر ہے یہاں عورتیں مردوں سے زیادہ قوی اور جری واقع ہوتی ہے ہزارہا ساحلوں کا لشکر ایک عورت کے اشارے کا منتظر رہتا ہے انیسویں صدی میں جب کہ ہمارے ہندوستانی سماج میں (بالخصوص مسلم سماج) میں آزادی نسواں کا تصور کالے کوسوں دور تھا ہمارے داستان گو آزادئ نسواں کے نہ صرف آمین نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات انہیں مردوں سے بھی زیادہ بااختیار بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے نیز مردوں میں بھی یی وصف عنقا نظر آتا ہے کہ ایک عورت کی تابعداری میں انہیں کسی بھی قسم کی کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے وہ نہ صرف اس کے احکامات پر تندہی سے عمل کرتے ہیں بلکہ اس کے فیصلےسے راضی برضا رہتے ہیں"
ایک اور اقتباس پر غور کریں تو یہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے:
"۔۔۔۔ ہم نے داستانوں کو صندوق میں مقفل کر اس کی کنجی کسی جوہڑ میں پھینک دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قفل توڑ کر انھیں باہر نکالا جائے۔مجھے یقین ہے کہ داستانوں کا احیا اردو زبان و ادب کو وہی نفع ہوگا، جو چودھویں صدی کے یورپ کو یونانی اور دیگر کلاسیکی ادب کی بازیافت پر نشاة ثانیہ کی صورت میں حاصل ہوا”
اس کتاب کا اگلا مضمون "طلسمی حقیقت نگاری اور پریم چند"
کسی بھی تھیوری کے مطالعہ کے بعد ان کے نقوش کی تلاش ادب میں کرکے اس کی بازیافت میں وہ حقائق کو سامنے لانا کمال ہوتا ہے جس کی کوشش واضح طور پر یہاں نظر آتی ہے.
اس مضمون میں "طلسمی حقیقت نگاری" کی اصطلاح اس کے مفہوم کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"ہم یہ دیکھتے ہیں کہ طلسمی حقیقت نگاری کی اصطلاح جو ابتدا میں مصوری کے سلسلے میں مستعمل ہوئی یورپ اور لاطینی امریکہ کے کہانی کاروں میں مقبول ہو گئی اور کچھ ہی عرصے میں طلسمی حقیقت نگاری بیانیہ کا ایک اہم حصہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے جس میں ہمیں واقعہ کے بیانیہ میں حقیقت اور طلسم کا ادغام محسوس ہوتا ہے اور ہم کہانی کو نہ صرف داخلی سطح پر محسوس کرتے ہیں بلکہ بیان کنندہ فہرست کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے بھی لگتے ہیں. "
اس میں ہمارے استعجاب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ۔۔۔
یہاں دائم صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ
"یہ ہماری نظروں سے اب تک پوشیدہ رہی کہ پریم چند کا ایک افسانہ بعنوان "پسنہاری کا کنواں" اردو فکشن میں طلسمی حقیقت نگاری کا سب سے پہلا اور کامل نمونہ ہے".
اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیے بہترین دلیل پریم چند کے اس افسانہ سے اقتباسات پیش کرکے دی ہے
"۔۔۔ سات سالہ بچی کا اپنے کام (کنواں کھودنا) کے تئیں جنون دیکھ کر گاؤں والے بھی نرم پڑ جاتے ہیں اور اپنی حرکت سے باز آجاتے ہیں بقول پریم چند
” گاؤں کے لوگ عام طور پر عقیدت مند ہوتے ہیں لڑکی کے اس روحانی لگاؤ نے آخر ان میں بھی لگاؤ پیدا کیا کنواں کھودنے لگا".
اس کتاب کا اگلا مضمون "غلام عباس کا ہمسائے: معصومیت سے تجربے تک کا سفر"
اس مضمون میں بہت سادگی سے کہانی قاری تک پہنچانے کی سعی کی ہے. اس کہانی کے معصوم دو کردار کو نمایاں کرکے افسانے کے خدوخال بیان کیے گئے ہیں. دراصل یہاں تنقیدی بصیرت ماند پڑتی نظر آتی ہے
جب کہ یہاں اس مضمون سے یہ بات متشرح ہوجاتی ہے کہ 9 سالہ لڑکے اور 7 سالہ لڑکی کی نفسیاتی کش مکش [اور] ذہنی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جو مخصوص بچوں میں پائی جاتی ہے۔ جو عمر سے پہلے بلوغیت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔ یا پھر عصر حاضر کے بچے۔ اس افسانہ کے مطالعہ سے ترنم ریاض کا افسانہ "آدھے چاند کا عکس" کی یاد تازہ ہوگئی۔
یہاں یہ معصوم بھی ڈیلیا کا پھول توڑ کر پھلواری کے سرے پر بنے لکڑی کے بنچ پر انتظار کرتا ہے بار امید اور پورا دن انتظار میں گزرتا ہے.
اس افسانہ کا اقتباس :
"صبح ہو رہی تھی اور اس کے سفید بے داغ دامن میں امیدوں کے خوب صورت گل بوٹے بنے ہوئے تھے اکبر بنچ پر بیٹھا وادی کے نظارے کو دیکھتا رہا اور بیری کے انتظار میں اس نے ڈیلیا کے پھول کی ایک ایک پتیاں نوچ لیں اور اس کے ڈنٹھل کو ہوا میں اڑا دیا اسی اثنا میں بارش شروع ہوجاتی ہے اور گھر کے اندر سے بلاوا آجاتا ہے. "
ایک اور معنی خیز افسانہ پر "تقسیم ہند، تعمیر پاکستان اور قدرت اللہ شہاب کا "یاخدا”پر بہترین مضمون لکھا ہے کہ قدرت اللہ شہاب کے تخیل تک رسائی حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ کے درون متن تقسیم ہند کے المیہ کو ڈسکورس کرتا یہ افسانہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس مضمون میں افسانہ نگار کے اسلوب اور موضوع کی اہمیت بتائی گئی ہے اور تقسیم ہند کے تلخئ ایام میں غبار قلب کو حیطہ فہم و ادراک میں لایا ہے.
دائم محمد انصاری نے اس افسانہ کی مکمل فضا اور اس ہجر کی کیفیت کو یوں محسوس کیا ہے کہ:
"اگر ہم افسانے کو تکنیک اور فن کے غیر ضروری تقاضوں کے آتشی چشمہ کے بغیر دیکھنا چاہیں تو دیکھنے والے کے لیے یہ سمجھنا دشوار نہیں ہوگا کہ شہاب کا "یا خدا" تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا اردو کے افسانوی ادب کا بہترین نمونہ ہے. اگر اردو میں کوئی دوسرا افسانہ نگار تقسیم ہند پر نا بھی لکھتا تب بھی یہ ایک افسانہ سانحہ تقسیم ہند پر لکھی جانے والی تحریروں میں اردو ادب کی نمائندگی کرنے کے لیے تنہا کافی تھا. "
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"قدرت اللہ شہاب کا افسانہ "یا خدا" ایک اردو افسانہ ہے. یہ چیخوف، مو پاساں، ٹالسٹائی کے اثرات کے زیر اثر نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اپنے معاصرین کی دل بستگی یا بطور فیشن لکھا گیا. ابتدا تا انتہا افسانہ پہ جو ایک ہول طاری ہے وہ قاری کا اپنا مقدر ہے اس سے فرار کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ اس افسانے کو کبھی نہ پڑھا جائے لیکن اگر کوئی کمزور دل کا [ہے] اس افسانہ کی پہلی قرات اس کے رونگھٹے کھڑے کرے گی، دوسری قرات اس کے ضمیر کو کپکپا کے رکھ دے گی، تیسری قرات ہمیں واپس ایک عام انسان بنا دے گی جس سے اس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ دنیا میں سب چلتا رہتا ہے اس پر اتنا بھی کیا واویلا کرنا۔۔۔"
ایک اور مضمون اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ادب کے سنگ ریزوں میں ضوفشانی بکھیرنے والے تخلیق کار کی تخلیقات کو ایک منفرد زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے، یہی ایک نقاد اور اسکالرس کی بہترین ہونے کی دلیل ہے.
یہ مضمون "کہانیوں کی بے ترتیبی، واقعات کا ربط اور نیر مسعود کی افسانہ نگاری"
اس مضمون میں نیر مسعود کی افسانہ نگار ی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے درون افسانہ موضوعاتی سطح پر کردار نگاری کے دائرے میں ترتیب اور ترجیح کا انکشاف کیا ہے. یعنی ان کے افسانوں کے کردار کا رول ایک افسانہ میں ختم ہوکر دوسرے افسانہ میں جنم لیتا ہے یا کوئی اور کردار بن کر سامنے آتا ہے.
اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نیر مسعود کے افسانے بڑے کینوس کے افسانے ہیں اور بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ ترتیب دیے گئے ہیں جن میں مخصوص کرداروں کو ترجیح دیتے ہوئے مسلسل رول دوسرے افسانوں میں تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں.
” ‘سیمیا، کے افسانوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی قرات کا آغاز ‘مسکن` سے کرنا ہوگا۔ ‘مسکن` اس مجموعے کا آخری اور سب سے اہم افسانہ ہے کیونکہ ہمیں اس افسانے میں تین اہم کرداروں سے متعارف کرایا جاتا ہے جو آگے چل کر کئی کہانیوں کے راوی اور کردار کی شکل میں ہمارے سامنے دوسری کہانیوں کو جنم دیتے نظر آتے ہیں. "
ایک اور مضمون "ذات کی دریافت، ماضی کی بازیافت اور نیر مسعود کے افسانے"
نیر مسعود کے افسانوی متن کے حسیاتی تجربات میں ماضی کی بازیافت کا سفر پوشیدہ ہے، تلاش گمشدہ میں سرگرداں رہتے ہیں اور قاری کو اپنے اسلاف اور اپنی تہذیب و ثقافت کی یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں. یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"نیر مسعود کے افسانے ہمیں نہ صرف وقت سے نگاہیں ملانے کا ہنر سکھاتے ہیں بلکہ دبے لہجے میں اس بات کو ماننے پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ کئی معنوں میں آئندہ زمانے سے بہتر ہوتا ہے. ان کی کہانیاں جہاں ہمیں  گزری ہوئی تہذیب، زندگی، وضع داری اور زبان کا ماتم دار معلوم ہوتی ہیں وہیں ہمارے قلب کو یہ طمانیت بھی فراہم کرتی ہیں کہ کم از کم ان کے افسانوں کی زرخیز زمین میں یاد ماضی کی بارش کے چند قطرے یوں جذب ہو کر رہ گئے کہ آگے چل کر ان سے بھولی بسری یادوں کے شگفتہ پھول کھلتے ہیں اور نہ صرف قاری بلکہ افسانے کے راوی اور کردار تک کو مسرور کرتے ہیں. "
اگلا مضمون بڑا دل چسپ ہے کہ عنوان سے پہلے تو ہم کنفیوز ہوگئے کہ آیا یہ افسانہ وہی تو نہیں یا کسی اور کا ہے۔۔آدھا مضمون پڑھنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ ہاں یہ تو ہمارے اردو کے بڑے نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب کا ہی افسانہ ہے جنھوں نے ادبی تنقید میں ایک عمر بسر کی ہے. 
اس مضمون کا عنوان "رخش عشق کے سوار- افسانہ سوار"
اس مضمون میں سب سے اچھی بات اور سچی بات فاروقی صاحب کا اقتباس ہے جس کے ہر لفظ میں ایک تڑپ ایک احساس کی گہری لہر ہے جو دور حاضر کی تہذیبی اقدار کا زوال اور اس کی حفاظت کے بارے میں نصیحت ہے. ملاحظہ فرمائیں کیوں کہ یہی اصل بازیافت ہے. 
مضمون کا آغاز ہی اس اقتباس سے ہے:
"مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہماری پرانی ادبی تہذیب ہمارے حافظے اور علم سے تقریبا غائب ہو چکی ہے. اگر یہ وقت کی سطح کے نیچے اتر کر ڈوب گئی تو ہمارا نقصان عظیم ہوگا اور اس کی بازیافت تو خیر ممکن ہی نہ ہو گی. جن تہذیبوں کا ماضی نہیں ان کا مستقبل بھی نہیں. اردو ادب و تہذیب کو فراموش کر دینے، اسے پایہ اعتبار سے ساقط تصور کرنے یا ساقط قرار دلوانے کی کوشش ملک میں جگہ جگہ ہو رہی ہے (اور ان کوششوں میں ہمارے بھی بعض سربر آوردہ حلقے شریک ہیں) ان کو دیکھتے ہوئے یہ اور بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے تاریخی حافظے کو زندہ رکھیں اور اپنی ادبی تہذیب کو جان دار، قائم رہنے والی اور آج بھی بامعنی حقیقت کے طور پر پیش کریں( دیباچہ سوار اور دوسرے افسانے)
دائم محمد انصاری آگے افسانہ کے تعلق سے لکھتے ہیں
"افسانہ ‘سوار` کہنے کو قدیم دہلی کی معاشرتی زندگی کا مرقع ہے لیکن شہر دہلی کو یہاں بطور جزدان استعمال کیا گیا ہے جس میں واردات عشق کی مقدس داستان کو ملفوف کیا جاسکے. "
اگلے مضمون سید محمد اشرف کی ناولٹ "تلاش رنگ رائیگاں" دراصل وہ رنگ نہیں جما سکا جو انفرادی حیثیت حاصل کرے۔ اس ناولٹ کا سرسری جائزہ اور اس کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے کہ اس افسانہ کا مرکزی کردار ارشد کی ضد ہے کہ صرف اور صرف اسے ہی مکمل طور پر بھر پور توجہ دی جائے. اس کی اس خواہش کا پہلا شکار اس کی ماں ہی ہوتی ہے جو ممتا کا سارا جذبہ نثار کرنے کے باوجود اس بچہ میں یہ اعتماد پیدا کرنے میں ناکام ہے۔

صدیق عالم کا ایک افسانہ "چونٹیاں"۔۔۔۔اس افسانہ کی کہانی منظر نگاری اور اس موضوع سے انحراف اور اس افسانہ کے ملبے میں اٹھنے والے سوالات کی بحث عمدگی سے کی گئی ہے. 
ان کا یہ اقتباس صدیق عالم  کے افسانوں کا "کل جز" پیش کرتا ہے. 
"۔۔۔۔عالم انسانیت کے گناہوں کا بوجھ اپنے سر لیے مصلوب ہونے کا یارا صرف یسوع کو تھا. کچھ ایسی ہی نوعیت ہم عصر اردو فکشن میں صدیق عالم کی بھی ہے۔ ان کے افسانے بھی اپنے کاندھوں پر صلیب لیے ہوئے ہمارے کردہ گناہوں کی برہنہ تصویر پیش کرتے ہیں. "
زوال لکھنو کی تعزیتی مجلس کا رقعہ-دکھیارے ۔۔۔انیس اشفاق کا ناولٹ
"۔ انیس اشفاق کے اس ناولٹ میں "لکھنؤ" بذات خود ایک شکستہ اور خاموش کردار کی صورت ہمارے سامنے وارد ہوتا ہے جس کی جلد جگہ جگہ سے اکھڑ گئی ہے اور خون رس رہا ہے. وہ قریب مرگ ہے لیکن اس کی تیمار داری کے لیے کوئی موجود نہیں. "
ایک اور افسانہ پر بحث کرتے ہوئے بہت عمدہ طریقے سے اس متن کی توضیح کرتے ہیں. 
نعیمہ ضیاء الدین کا افسانہ مہجور انسانی سماج کے ایک مخصوص طبقے کی زندگی کا عکاس ہے. یہ طبقہ تو اپنی شہریت، مذہبی و لسانی شناخت سے پرے ایک ایسا وجود رکھتا ہے جس کی روداد بیان ہر زبان میں لگ بھگ ایک جیسی ہی لکھی جاتی رہی ہے. یہ انسانوں کی وہ جماعت ہے جس کی پیشانی پر لوح ازل سے تنہائی لکھ دی گئی ہے. جس کا کرب اس کے سینے میں ہر لمحہ سسکا ری بھرتا محسوس کیا جا سکتا ہے. "
خالد جاوید صاحب کا ناول "ایک خنجر پانی میں" اس ناول کے موضوع اور اس کی کہانی سے دائم صاحب مطمئن نہیں. اس کہانی میں موت کی صورت حال جو قابل قبول واقعات پر منحصر نہیں اس پر بے لاگ گفتگو کی گئی ہے. لکھتے ہیں کہ جہاں موت کا جگہ جگہ وارد ہونا غیر فطری اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے. 
"موت جس کے سبب نہ صرف ناول کی کہانی اور اس کے بیانیہ کو ٹھیس پہنچی بلکہ عجلت میں کرداروں کے ساتھ بھی منصفی نہیں کی گئی. "
آخری اور اہم بات جو اکثر و بیش تر ہمارے معاشرہ میں دیکھی گئی، ان پر طوائف جانکی بائی کی عرضی کے ذریعے معاشرہ کو انتباہ کیا گیا ہے:
"سماج میں نظر آنے والی اخلاقی برائیاں نہ تو راتوں رات پروان چڑھتی ہیں اور نہ ہی ان کا سد باب فورا ممکن ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ تہذیب کا نام لیوا ہمارا سماج اس بات کو بھول جاتا ہے اور جبر و تشدد کی راہ کے ذریعے ہر ممکن طریقے سے صرف انہی برائیوں کو دفع کرنے کے در پے ہوتا ہے جو اس کے وقتی اغراض و مقاصد کو پورا کرتی ہوں ور نہ ہماری اپنی آنکھوں تلے بے شمار برائیاں جراثیم کی طرح پھیلتی نظر آتی ہیں لیکن ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تا وقت یہ کہ وہ انفرادی طور پر ہم پر اثر انداز نہ ہوں."
اس کتاب کے مضامین کی اگر بات کی جائے توادب کی مکدر فضا سے در کنار رہ کر کمیت کے بجائے معیار کو اہم جانا۔ مضامین کے عناوین بہت طویل اور ادق ہیں. نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ مضامین میں فکشن ادب کے فن اور تیکنیک اور اسلوب سے زیادہ اس کے موضوع کی وضاحت کو اہمیت دی گئی ہے. لیکن جہاں کہیں فن اور اسلوب اور نئے انکشاف پر گفتگو کی گئی ہے پورے دعوے اور دلیل کے ساتھ کی گئی ہے. اس کتاب کی فضیلتِ حسنِ صفات جدید نکات کا انکشاف اور کچھ منفرد کرنے کی جستجو ہے جو قابل داد و تحسین. اسی وجہ سے اردو داں طبقہ اس کتاب کا مطالعہ کرنا ضروری سمجھے گا اور یہ کتاب قابل مطالعہ اور ادب میں اہم اضافہ ہے۔ یقینا اہل ادب اس کی پذیرائی کریں گے۔ ہم اس کتاب پر مصنف کو مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم ۔۔😊

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے