آہ! ڈاکٹر کلیم عاجز! ایسا شاعر کون ہے! ایسی غزل گائے گا کون؟

آہ! ڈاکٹر کلیم عاجز! ایسا شاعر کون ہے! ایسی غزل گائے گا کون؟

 مظفر نازنین، کولکاتا

ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ ١٤/ فروری، ٢٠١٥ء کو وطن عزیز ہندستان کے مایۂ ناز، باعث افتخار، آسمانِ شاعری کا درخشاں ستارہ، پدم شری ایوارڈ یافتہ شاعر جناب ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ موصوف کی پیدائش ١٩٢٠میں تلہاڑا (بہار شریف) ضلع نالندہ میں ہوئی تھی۔ موصوف ساری زندگی اردو کی خدمت کرتے رہے۔ شعر و سخن کی شمع عندلیب شعلۂ مرگ کی لپیٹ میں آگئی۔ لو تھرتھرائی اور خاموش ہوگئی۔ خفیف سا دھواں اٹھا اور فضا میں تحلیل ہوگیا۔ لیکن اس کی مہک آج بھی ہمارے ادبی چمن زاروں کو حسن و رنگ و بو فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہے۔
ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب اردو کے ایک مایہ ناز ادیب اور شاعر تھے Urdu Advisory Committee (حکومتِ بہار) کے چئیرمین اور ١٩٨٩ء میں حکومتِ ہند کی جانب سے پدم شری ایوارڈ یافتہ بھی ہوئے۔ موصوف کی پیدائش ضلع نالندہ کے ایک گاؤں تلہاڑا میں ہوئی۔ جو بدھ کی قدیم عبادت گاہ (Buddhist Monesty) کے لیے مشہور ہے۔ انھوں نے پٹنہ یونی ورسٹی سے گریجویشن ١٩٥٦ء اور ١٩٦٥ء میں پٹنہ یونی ورسٹی سے ہی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ”بہار میں اردو ادب کا ارتقا“ ان کے مقالے کا عنوان تھا۔ اردو لینگویج فیکلٹی کی حیثیت سے پٹنہ یونی ورسٹی سے جڑے رہے۔ اور پھر شعبہ اردو کے ریڈر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ١٧/سال کی عمر سے شعر کہنے لگے اور ١٩٤٩ء سے مشاعرے میں  شرکت کرنے لگے۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ١٩٧٦ء میں ”وگیان بھون“ دہلی سے شائع ہوا۔ اس وقت جناب فخر الدین علی احمد ہندستان کے صدر تھے۔ اس کے بعد ”جب فصلِ بہاراں آئی تھی“، ”وہ جو شاعری کا سبب ہوا“ اور ”جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی“ ان کے شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ انھوں نے Dallesاور US کے بھی مشاعرے میں شرکت کی۔
ان کی مشہور غزل کے چند اشعار قارئین کی فن شناس نظروں کی نذر کرتی ہوں ؎
اس ناز سے اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانۂ گل ”قیدی زنجیر“ ہیں اور تم
کیا ٹھاٹھ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آیا ہے تو چھلکائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن میرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمھیں بل کھائے چلو ہو
وہ شوخ ستم گر تو ستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ  اپنی غزل گائے چلو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
دن ایک ستم اک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آکے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمھیں کیا بات کرو ہو
ایک اور خوب صورت غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں؎
جب بھی تری نظروں نے شہ دل کو ذرا دی ہے
کہہ دی ہے غزل ہم نے اور کہہ کے سنا دی ہے
اے صنفِ غزل تیری توقیر بڑھادی ہے
تو اور جواں ہوگی جا میں نے دعا دی ہے
ہر سمت ڈھنڈورا ہے ہر سو یہ منادی ہے
عاجزؔ کو خوشی مت دو وہ درد کا عادی ہے
تا عمر جگر تھامے رونے کی سزا دی ہے
واللہ! زمانے نے کیا دادِ وفا دی ہے
زخموں کو کسی نے بھی مرہم نہ دوا دی ہے
ہر کنڈی ہلائی ہے ہر در پہ صدا دی ہے
دل جلنے کا افسانہ پوچھو گے تو کہہ دوں گا
انگارہ رکھا کس نے اور کس نے ہوا دی ہے
دیوانِ غزل عاجزؔ ایوان چراغاں ہے
اک شعر نہیں لکھا اک شمع جلادی ہے
شاعری احساس کی ترجمانی ہے۔ جذبات کی عکاسی ہے۔ شاعر اور خصوصاً بہترین اور حق پرست شاعر وہ ہے جو اپنے عہد کا بہترین ترجمان ہوتا ہے۔ جو بذاتِ خود ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کی خوب صورت غزل کے اشعار سے ظاہر ہے ؎
غزل میں سسکیاں دل کی سنا دینا ہی آتا ہے
ہمیں رونا ہی آتا ہے رلادینا ہی آتا ہے
وفا کیا ہے وفا کرکے دکھا دینا ہی آتا ہے
جہاں سے آئے چوٹ جیسی آئے جس قدر آئے
تڑپ لینا تڑپ کر مسکرا دینا ہی آتا ہے
تمھیں جو بیوفائی آتی ہے ہم کو نہیں آتی
ہمیں تو شرم سے گردن جھکا دینا ہی آتا ہے
زبان شاعر کی اپنے وقت کا آئینہ ہوتی ہے
اسے تو سب کھرا کھوٹا دکھا دینا ہی آتا ہے
ایک اور خوب صورت غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں؎
پیار کے زخموں کا گلدستہ بنائے گا کون
ایسا شاعر کون ہے ایسی غزل گائے گا کون
درد کا قصہ سنانے والا اب کوئی نہیں
اک ہم ہیں ہم نہیں آئیں گے تو آئے گا کون
ایسے عالم میں کہ سارے چاند تارے بجھ گئے
کہ چراغ زخم دل سے نور پھیلائے گا کون
سب نظر آئیں گے جس کو ہم نظر آئے نہیں
ہم نظر آئے جسے اس کو نظر آئے گا کون
جو غزل چھیڑی کہ کانٹے بھی شگفتہ ہوگئے
اس طرح فصلِ خزاں میں پھول برسائے گا کون
وقت کی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھائے گا کون
صاحب میخانہ و جام و خمار و مینا ہے تو
تو نہ اترائے گا تو اے ساقی اترائے گا کون
ہم نہیں ہوں گے لطفِ رقص مستانہ کہاں
پینے والے ہیں یہاں پی لیں گے چھلکائے گا کون
وہ غزل سن کر میری منھ پھیر کر کہنے لگے
یہ تو دیوانہ ہے کمبخت  اس کو سمجھائے گا کون
ڈاکٹر کلیم عاجزؔ ایک نابغۂ روزگار ہستی تھی۔ شاید اب وطنِ عزیز ہندستان میں دوسرا کلیم عاجزؔ پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو خوب تقویت بخشی ہے۔ عالمی مشاعرہ ٢٠١٠ء علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی الومنی ایسوشیش بحرین میں کہی گئی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں. 
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں
جانتا تھا کہ ستم گر ہے مگر کیا کیجیے
دل لگانے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں
جیسا بے درد ہے وہ پھر بھی ہے جتنا محبوب
ایسا کوئی نہ ہوا اور کوئی ہوگا بھی نہیں
وہی ہوگا جو ہوا ہے جو ہوا کرتا ہے
میں نے اس پیار کا انجام تو سوچا بھی نہیں
ہائے کیا دل ہے کہ لینے کے لیے جاتا ہے
اس سے پیمانۂ وفا جس پہ بھروسا بھی نہیں
بارہا گفتگو ہوتی رہی لیکن میرا نام
اس نے پوچھا بھی نہیں میں نے بتایا بھی نہیں
تحفہ زخموں کا مجھے بھیج دیا کرتا ہے
مجھ سے ناراض ہے لیکن مجھے بھولا بھی نہیں
دوستی اس سے نبھ جائے بہت مشکل ہے
میرا تو وعدہ ہے اس کا تو ارادہ بھی نہیں
میرے اشعار وہ سن سن کے مزے لیتا رہا
میں اسے سے ہوں مخاطب وہ یہ سمجھا بھی نہیں
میرے وہ دوست مجھے داد و سخن کیا دیں گے
جن کے دل کا کوئی حصہ ذرا ٹوٹا بھی نہیں
مجھ کو بننا پڑا شاعر کہ میں اپنا غم دل
ضبط بھی کر نہ سکا اور پھوٹ کے رویا بھی نہیں
شاعری جیسی ہو عاجز کی بھلی ہو کہ بری
آدمی اچھا ہے لیکن بہت اچھا بھی نہیں
ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن گراں قدر ادبی سرمائے کی بدولت رہتی اردو دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ ایسی انمول شخصیتیں برسوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ”اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔“ آج بھی اردو شاعری کی دنیا ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کے بغیر ویران نظر آتی ہے کہ وہ ایک اعلا پایے کے شاعر تھے۔ وہ وسیع المطالعہ تھے۔ شریعت کے پابند اور طریقت کے قائل تھے۔ ان کے خوب صورت کلام، دل کش آواز، قدیم روایتی استعارات اور سوز و گداز ہم اردو والوں کے لیے سرمہ نگاہ ہیں۔ اور یہی خوبیاں ہیں جو انھیں منفرد خصوصیات کا حامل بناتی ہیں۔ ان کے فکر و فن کا زاویہ بہت وسیع تھا۔ انھیں ”ثانیِ میر“ بھی کہتے ہیں۔ آج یہ چمن ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کے بغیر سونی سی ہے۔ ’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘۔
پیار کے زخموں کا گلدستہ بنا لائے گا کون
ایسا شاعر کون ہے ایسی غزل گائے گا کون
آغازِ آفرینش سے لے کر اب تک بہت آئے بہت گئے لیکن چند نابغۂ روزگار شخصیتوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کا شمار بھی ایسی ہی نابغۂ روزگار شخصیتوں میں ہے۔ اور انہی کے لیے یہ شعر صادق آتا ہے ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
Mobile – 9088470916
Email – muzaffar.niznin93@gmail.com
مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش یہاں پڑھیں :روئی ہے عندلیبِ چمن پھوٹ پھوٹ کے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے