اس کے جلووں کی گھٹائیں ارے توبہ توبہ

اس کے جلووں کی گھٹائیں ارے توبہ توبہ

افضل الہ آبادی

اس کے جلووں کی گھٹائیں ارے توبہ توبہ
اس پہ قاتل یہ ادائیں ارے توبہ توبہ

دل کی بنیاد ہلائیں ارے توبہ توبہ
زلزلہ خیز نگاہیں ارے توبہ توبہ

آسماں سے ہو مخاطب تو ابھر آتی ہیں
کہکشاں ساز گھٹائیں ارے توبہ توبہ

جام و پیمانہ صراحی کو پسینہ آئے
میکدہ ساز وہ آنکھیں ارے توبہ توبہ

کہکشاں چاند ستاروں میں بھریں رنگ و جمال
اس کے جلووں کی شعاعیں ارے توبہ توبہ

سرخ یاقوت ہو یا ہو وہ عقیق یمنی
لب جاناں تری باتیں ارے توبہ توبہ

دیکھ کر گردشِ ایام ٹھہر جاتی ہے
اس کی بکھری ہوئی زلفیں ارے توبہ توبہ

دل کو بسمل بھی کریں اور مسیحائی بھی
اس کی دز دیدہ نگاہیں ارے توبہ توبہ

اس کے جلووں کے تبسم کی قبائیں مانگیں
کہکشاں ساز یہ راتیں ارے توبہ توبہ

اپنی شہرت کے لیے بادصبا بھی مانگے
اس کے دامن کی ہوائیں ارے توبہ توبہ

شاخ گل اس کی نزاکت کو نہیں پا سکتی
اس کی یہ مرمریں بانہیں ارے توبہ توبہ

سن کے دریا کی روانی بھی ٹھہر جاتی ہے
اس کی انگڑائی کی باتیں ارے توبہ توبہ

تیغ قاتل کو بھی بخشے ہے روانی افضل
اس کی خنجر سی وہ آنکھیں ارے توبہ توبہ

افضل الہ آبادی کی یہ غزل بھی ملاحظہ فرمائیں :جلوۂ یار ان آنکھوں میں بسا رکھا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے