اردو کی معروف افسانہ نگار: انجم بہار شمسی

اردو کی معروف افسانہ نگار: انجم بہار شمسی

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل، تالاب ملا ارم
رام پور ٢٤٤٩٠١ یو.پی،انڈیا
موبائل نمبر 91 9520576079

سرزمین رام پور میں مختلف علوم و فنون میں ادیبوں اور شاعروں نے اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں اور اپنے کارناموں سے نہ صرف رام پور کا نام روشن کیا ہے بلکہ بیش بہا کتابیں لکھ کر ادب کے ذخیرہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ علم و ادب کا یہ سلسلہ قیام رام پور سے لے کر آج تک اسی شدومد اور جوش وجذبہ کے ساتھ جاری ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ ان ادبی کارناموں میں خواتین قلم کاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ تحقیق، تنقید، شاعری، ناول نگاری اور افسانہ نگاری میں متعدد خواتین نے اہم رول ادا کیا ہے۔رام پور میں ناول نگاری اور افسانہ نگاری کا عمل آج بھی جاری ہے۔ ان میں ایک ایسا ہی اہم نام ہے انجم بہار شمسی!
وہ تین دہائی سے بھی زیادہ عرصہ سے اس فن میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ افسانہ زندگی کے دکھ درد، رنج و الم اور کرب آمیزی کے ایسے اظہار کا نام ہے جو قاری کے دل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ انجم بہار شمسی کے افسانے عورت کے اس دکھ کو بیان کرتے ہیں جس کی کوئی زبان نہیں ہوتی اور جسے ایک عورت ہی بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے۔ پھر جب زبان بھی ایسی شائستہ، شستہ، مہذب، کرداروں کے مزاج اور ان کی سمجھ کے عین مطابق ہو تو ایسے افسانہ کا اثر قاری کے دل پر ہونا ایک لازمی سی بات ہے۔ ہندوپاک کے متعدد اہم ادبی، نیم ادبی، سماجی اور خاص کر خواتین کے لیے شائع ہونے والے رسالوں میں ان کے بہت سے افسانے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے کئی ناول قسط وار شائع ہو کر کتابی شکل میں بھی چھپ چکے ہیں لیکن ان کے افسانوں کا مجموعہ پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا افسانوی مجموعہ ہے جس کا ہر افسانہ متاثر کن اور خوب صورت ہے۔
انجم بہار کا افسانہ ’شمع حرم‘ مغرب پرستی میں زندگی گزارنے والی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے اس کا باس ایک نئے اور پاکیزہ انداز میں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا ہے۔یہاں پر یہی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ایک قلم کار اپنی تحریر سے معاشرہ میں اچھے پہلو کس طرح تلاش کر سکتا ہے۔ ان کا افسانہ ’اونچی ذات‘ بھی ایک معاشرتی افسانہ ہے اور ذات برادری و رنگ ونسل سے دور ہٹ کر شادی بیاہ کے مقدس رشتے میں بندھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کسی کی مدد اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ ایثار کی خاطر اپنی دولت و عزت کی بھی پروا نہ کی جائے۔
خاندانی کروفر، جھوٹی انا پرستی، شان وشوکت اور اس کے مضر اثرات کو بھی وہ اپنے افسانوں میں اجاگر کرتی ہیں۔ انجم بہار اپنے افسانوں میں زبان نہایت شائستہ استعمال کرتی ہیں۔ کہانی کے درمیان میں، وہ ایسے پر مغز اور حقیقت پر مبنی، زندگی سے جڑے ہوئے جملے استعمال کرتی ہیں جو دل کو چھوتے اور پلکوں کو پر نم کرتے ہیں۔ گھریلو اور خاندانی مسائل ان کے افسانوں کے خاص موضوعات ہیں۔ یہ موضوعات مختلف عنوانوں، طریقوں کرداروں اور اسلوب کے ساتھ ان کے افسانوں میں موجود ہیں کہ زندگی کا یہ تحرک اسی ایثار، اسی محبت اور تقدس کا آئینہ دار ہے!
افسانہ کی تنقید لکھنے والے کئی ادیبوں نے افسانہ میں اختصار کے ساتھ اپنی پوری بات کہہ دینے یا جذبات و خیالات کی ترسیل کو کم الفاظ میں محدود رکھنے کو افسانہ کا حسن قرار دیا ہے. یعنی کم الفاظ میں مکمل بات بلکہ بڑی بات کہنا افسانہ کی ایک نمایاں خوبی اور اس کی بنیادی صفت ہوتی ہے اور انجم بہار شمسی اس میں کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔ ’دھوپ دھوپ سایہ‘ بھی ان کا ایک دل کش افسانہ ہے۔ انسان اپنی خود غرضیاں چھوڑ دے تو وہ بڑے بڑے کام کر سکتا ہے۔ایثار، قربانی، محبت، نا آسودگی، جذباتی سوچ، انا پرستی، خاندانی وقار، جھوٹی شان وشوکت وغیرہ سب کچھ اس کہانی کے پہلو اور حصہ ہیں۔ عام سے واقعات ہماری سماجی زندگی کو کس طرح متاثر کرتے اور زندگی کو کیسے اجیرن کر دیتے ہیں، یہ پہلو اور جذبات بھی اس کہانی کی بنیاد ہیں۔
عورت جو ایثار و محبت اور وفاداری و قربانی کی آئینہ دار ہے، یہاں بھی جیت اسی کی محبت اور اسی کے ایثار کی ہوتی ہے۔ بے غرضی کے آگے سارے جذبے ہیچ ہو جاتے ہیں۔ خود غرضی جہاں نفرتوں، حقارتوں اور مفاد پرستیوں کو جنم دیتی ہے وہیں بے غرض آدمی کو انسان اور انسان کو ایک خاص شخصیت بنا دیتی ہے۔اس کہانی کا اسلوب خوب صورت ہے جو پلاٹ میں کسی جگہ جھول یا کمی نہیں آنے دیتا۔
انجم بہار شمسی کے افسانے جہاں عورت کے دکھ اور کرب کی غمازی کرتے ہیں وہیں سماجی زندگی کے مسائل کی نمائندگی اور نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ ہماری سماجی زندگی کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں زندگی میں سب سے زیادہ دکھ اور غم ان سے ملتے ہیں، جنھیں ہم سب سے زیادہ چاہتے، عزیز رکھتے اور ان کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔ انجم بہار کے تقریباً سبھی افسانے اعلا طبقے کے افراد اور کرداروں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس اعلا اور دولت مند طبقے کی خاندانی کش مکش اور آپسی چپقلش کو اجاگر کرتے ہیں۔ انا پرستی، جھوٹی شان و شوکت، ریا کاری کی عزت و ناموس جہاں سماجی رابطوں کو ختم کرتی ہے، وہیں بہت سی بے قصور زندگیوں سے کھلواڑ بھی کرتی ہے۔ انجم بہار کا افسانہ ’سپیدے کا پیڑ‘ ایک ایسی ہی انا پرستی اور محبت کی دھیمی آنچ میں سلگتی کہانی ہے۔ کہانی دل و دماغ کو جھنجھوڑتی ہے اور یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ فتح صرف محبت کی ہوتی ہے کہ سچی محبت ہی حقیقت میں فاتح عالم ہے۔
انجم بہار چونکہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور گھریلو زندگی کے ساتھ سرکاری نوکری کے باعث سماجی زندگی بھی گزارتی ہیں۔ اس لیے ان کے افسانوں میں بیش تر وہ مسائل بھی سامنے آتے ہیں جن کا راست تعلق خواتین سے ہوتا ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ ان کی کرداری عورت حیا دار، عفت مآب، عصمت و ناموس کی حامل، باردار و باوفا، خوش اخلاق اور پیکر الفت و محبت ہے کہ یہ فطری خواص اس کی سرشت اور اس کے خمیر کا حصہ ہیں۔ عورت ان کے افسانوں کا خاص موضوع ہے۔اس لیے ان کی بیش تر کہانیاں مختلف پلاٹوں اور اسلوب و واقعات کے ساتھ عورت کے ہی اردگرد گھومتی ہیں۔
اگرچہ ان کے افسانوں میں مزاح کا پہلو نظر نہیں آتا لیکن ان میں طنز کی کاٹ ضرور موجود ہے اور یہ بھی اکثر افسانوں میں فنی اور تکنیکی ضرورت کے تحت ہی استعمال کی گئی ہے۔ افسانہ ’ہرا سوٹ‘ محبت کے تکلیف دہ اور سرور آگیں، ملے جلے جذبوں کے تانے بانے سے گندھی یک طرفہ محبت کی ایک دل چسپ کہانی ہے جس کا انجام اگرچہ روایتی لیکن پر کشش اور توقع کے بالکل برخلاف ہے اور یہی اس افسانہ بلکہ ہر افسانہ کا حسن ہو سکتا ہے کہ قاری کو کلائمکس ایسا چونکا دینے والا پڑھنے کو ملے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔ یوں بھی کوئی افسانہ اچھے کلائمکس کی وجہ سے ہی کامیاب ہوتا ہے۔
ہمارا معیار زندگی کتنا بھی پست یا بلند ہو جائے، ہماری زندگی کسی بھی نہج پر پہنچ جائے لیکن ادب اور خاص کر افسانوی ادب اور اس میں بھی خواتین کی نگارشات میں سے محبت کا عنصر اور محبت کا موضوع ختم نہیں ہو سکتا۔ انجم بہار کا افسانہ ’کانچ کا دل‘ محبت میں اپنی چاہت کو پانے کی ایک انوکھی کہانی ہے۔
انجم بہار کے، اس مجموعے میں شامل بیش تر افسانے ریڈیو کے لیے لکھے گئے ہیں. اس لیے ان میں اختصار اور وقت، دونوں کی پابندی ہے اور اس پابندی نے افسانوں کے پلاٹ کو چست، زبان و بیان کو مختصر اور وحدت تاثر کو مربوط کر دیا ہے۔ کسی مجموعہ پر اظہار خیال کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قلم کار ہر افسانہ پر اپنی رائے دے لیکن اس پر ایسی بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی کہ وہ ہر افسانہ کے بارے میں کیوں نہ لکھے! جب کہ افسانے دل چسپ بھی ہوں اور ان کوپڑھنے میں لطف بھی آئے لیکن اس کے پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ قلم کار اپنے خیالات و نظریات کی ترسیل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے حوالہ بہ طور اسے کسی افسانہ کو ہی پیش کرنا ہوتا ہے۔
’متاع حیات‘ انجم بہار کا، مدرس ڈے کے تعلق سے ایک حقیقت سے قریب افسانہ ہے۔ آپسی میل محبت اور رشتوں میں خلوص و اعتماد اور بھروسہ ہو تو ہمارے لیے ہر دن مدرس ڈے، فادرس ڈے یا مہیلا دیوس ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس کا انجام ہمیں کہانی ’متاع حیات‘ پڑھ کر معلوم ہو سکتا ہے۔ شہرت و ناموری بھی اللہ تعالیٰ کی دیگر نعمتوں کی طرح ایک بہترین عطیہ اور دولت ہے لیکن اس کو امانت کی طرح رکھنا اور اس کا صحیح استعمال کرنا ہی اس نعمت کا سچا شکریہ ہو سکتا ہے۔ قلم کار کا کام معاشرہ کو ایسی ہی پاکیزہ سوچ و فکر دینا ہوتا ہے، اس پر عمل کروانے کی اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ کہانی کسی واقعہ یا کسی بات سے متاثر ہو کر چند لمحوں میں ہی تخلیق کیے جانے کا عمل ہوتا ہے اور یہی کسی قلم کار کی فنی چابک دستی اور پلاٹ کے ذریعہ لفظوں کا پیکر عطا کرنا اس کی خوبی ہے اور انجم بہار کے یہاں یہ خوبی بیش تر افسانوں میں پائی جاتی ہے۔ کوئی ایک کہانی جسے انجم بہار کی آپ بیتی کہا جا سکتا ہے، وہ بھی اس مجموعہ میں شامل ہے۔ اس میں انھوں نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مختصر انداز میں پیش کر دیا ہے اور اس میں کسی جگہ بھی کچھ بڑھا چڑھا کر نہیں لکھا ہے. البتہ اسلوب نشتر کی انی کی طرح دل کو چھیدتا ہے۔قلم کار کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔
وہ دنیا کے مشاہدے، کتابوں کے مطالعے اور کبھی خود کے تخیل سے ایسی کہانیاں تخلیق کرتاہے جن کے واقعات سے نہ تو وہ تجرباتی دور سے گزرتا ہے اور نہ ہی اس کے وہم و گمان میں ہی ہوتا ہے کہ یہی واقعات و سانحات مستقبل میں اس کی حرماں نصیبی اور اس کی زندگی کا حصہ بھی بن سکتے ہیں۔ ایسے حالات و واقعات سے دوچار بلکہ ان میں گرفتار ہونا کسی قلم کار کے لیے المیہ سے کم نہیں ہوتا۔ کبھی اپنے اور کبھی دوسروں کے لیے ٹوٹنے بکھرنے کا عمل ہی شاید افسانہ نگاری کا دوسرا نام ہے۔
ہندستان کی سیاست میں آزادی کے بعد سے ریزرویشن کا مسئلہ الیکشن میں ایک اہم مدعا اور موضوع بنتا رہا ہے۔ نیتاؤں نے اس سیاست پر اپنی روٹیاں بھی سینکی ہیں اور گھڑیالی آنسو بھی بہائے ہیں لیکن اس کا حل اب تک کوئی نہیں نکل سکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کو لوگوں کے مالی حالات سے نہ جوڑ کر ذات برادری اور طبقات میں منتقل یا اس سے منسلک کر دیا گیا ہے جس سے کچھ ذاتوں کے وارے نیارے ہوئے ہیں تو کچھ کو اس کا رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ چونکہ قلم کار اپنی تیسری آنکھ سے سماج کی ہر حرکت اور کارکردگی پر نظر رکھتا ہے اس لیے انجم بہار نے بھی اس موقع اور موضوع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے اور اس پر ایک خوب صورت افسانہ ’کرچیاں‘ لکھ کر قارئین کو چونکا دیا ہے۔
انجم بہار کے کئی افسانے اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ کئی دیگر خواتین قلم کاروں کی طرح ان کے افسانوں کے موضوعات صرف گھر کی چہار دیواری اور شادی بیاہ، پیار محبت، نفرت و حقارت، خاندانی جھگڑے قضیے، ذات برادری کی رقابت و رنجش، جہیز اور اس سے جڑے واقعات و سانحات تک محدود نہیں ہیں۔ ذہن کشادہ، قلب وسیع، نظر گہری، مشاہدہ تیز، مطالعہ عمیق، تجربہ صحیح، زبان اور اسلوب پر دسترس، موضوعات سے اخذ نتائج کی صلاحیت، کہانی کے فن سے واقفیت، ذخیرۂ الفاظ وافر، سماج کا درد اور ان جیسی دیگر خصوصیات کسی قلم کار کو حاصل ہوں تو افسانہ اس کی مٹھی میں ہوتا ہے اور انجم بہار ایسی بہت سی خصوصیات اپنے قلم اور اپنے فن میں رکھتی ہیں۔
افسانہ نگار اگر اپنے فن اور قلم کو تازیانہ بہ طور یا پاکیزہ مقاصد کے لیے استعمال کرے تو اس کا فن، اصلاح معاشرہ میں کافی حد تک ممد و معاون ہو سکتا ہے۔افسانہ اگر کاغذی پھول کی طرح بے رنگت یا بغیر خوشبو کے ہو تو وہ اپنا کوئی تاثر قاری پر نہیں چھوڑ سکتا۔ میرے نزدیک اگر کہانی میں جذبات نگاری نہ ہو، دل کو چھو لینے اور متاثر کرنے والے جملے اور مکالمے نہ ہوں، زندگی کے درد، کرب و الم یا مسائل اور مصائب کی عکاسی اور نمائندگی نہ ہو اور حقیقت سے جڑے واقعات کی ترسیل نہ کی جائے تو ایسا افسانہ، قاری و قلم کار دونوں کے وقت کے زیاں کا موجب ہوتا ہے اور یہ اپنی کوئی تاثیر و حیثیت نہیں رکھتا۔
افسانہ محض کسی ایک واقعہ یا متعدد واقعات کو ترتیب سے جوڑ دینے کا نام نہیں، اسے تو بے ربط اور زندگی سے عاری بے روح اخباری رپورٹنگ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کہانی کا بہترین، غیر متوقع کلائمکس اور مربوط وحدت تاثر ہی دراصل کسی افسانہ کے، اچھا یا برا ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ انجم بہار کے افسانوں میں جگہ جگہ جذباتی اور زندگی کی حقیقتوں کی عکاسی کرتے جملے، ان کے افسانوں کے حسن کو دوبالا اور دو چند کرتے ہیں۔
ہر معروف قلم کار کی اپنی فنی خوبیاں اور خصوصیات ہوتی ہیں اور کسی دوسرے قلم کار سے اس کے فن کا موازنہ کرنا درست نہیں لیکن پھر بھی یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ انجم بہار ماحول اور واقعات کی منظر کشی، کرشن چندر کی طرح بے حد خوب صورتی سے کرتی ہیں لیکن میرے نزدیک ان دونوں فنکاروں میں فرق یہ ہے کہ کرشن چندر کا بیانیہ اور اس کا دورانیہ بہت طول طویل ہوتا ہے جب کہ انجم بہار اس معاملہ میں انتہائی اختصار سے کام لیتی ہیں اور یہ فنی خوبی جہاں افسانہ کا حسن ہے وہیں آج کی وقتی ضرورت بھی۔ دوسرے یہ کہ کرشن چندر کے بیش تر افسانے طویل ہیں اور وہ اس دور میں لکھے گئے جب زندگی آج کی طرح بہت زیادہ مصروف نہیں تھی۔
جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں لکھ چکے ہیں، انجم بہار کے افسانے یوں تو ہندوپاک کے متعدد رسائل میں شائع ہوئے ہیں لیکن بہ لحاظ تعداد دیکھا جائے تو ماہنامہ بتول رام پور میں، ان کے افسانوں کی اشاعت زیادہ ہوئی ہے۔ چونکہ یہ رسالہ خواتین کا ہے اور شروع سے ہی اسلامی، اصلاحی، معاشرتی اور صالح ادب پیش کرتا رہا ہے، اس لیے انجم بہار کے افسانے بھی وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کے تناظر میں ایک پرخلوص مقصد کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ان کے افسانوں کے موضوعات، پلاٹ، ماحول، کردار اور اسلوب، بھلے ہی الگ الگ ہوں لیکن ان کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے۔
افسانہ ’رونمائی‘ بھی ان کے ایسے ہی جذبوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ مغرب زدہ ایک بے باک سی لڑکی کیوں اور کیسے پھولوں سے لچکتی شاخ میں تبدیل ہو گئی، یہ اس افسانہ کا مرکزی خیال ہے۔ اس دل کش افسانہ کو پڑھ کر یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ پاکیزہ اسلامی تعلیم صرف لڑکیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ لڑکوں کے لیے بھی اسی طرح ضروری اور لازمی ہے کیونکہ زندگی کی گاڑی دو پہیوں پر ہی چلتی ہے اور تعطل و خرابی وہیں ہوتی ہے جہاں اس کے برعکس تاثر دیا جائے۔
یقیں محکم ہو تو بڑی سے بڑی آزمائش بھی کامیابی کی شکل میں قدم چومتی ہے۔ خاندانی انا پرستی اور بے جا شان و شوکت رشتوں کو ہی نہیں بلکہ دلوں کو بھی توڑتی ہے۔ انجم بہار کے کئی افسانے حویلیوں، کوٹھیوں، بنگلوں، اعلیٰ تعلیم، خاندانی روایات، روایتی عظمت و وقار کے پس پردہ چھپی عیاریوں، مکاریوں، چالاکیوں اور اس تعفن زدہ ماحول میں جیتے لوگوں کی ناکامیوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ افسانہ ’ہیرے کا سفر‘ زندگی کے طویل دورانیے کی عکاسی کرتا طنز آمیز افسانہ ہے۔ زیادہ بڑی بات یہ نہیں کہ عورت کی جیت ہوتی ہے یا مرد کی، صحیح فیصلہ یہ ہے کہ حق کی جیت ہو۔
آج انسان کے بنیادی حقوق، آئینی حقوق، سماجی حقوق اور خواتین کے حقوق کی بات بڑی شدومد سے کی جاتی ہے لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ بنیادی چیز یہی ہے کہ اس پر عمل ہو۔ جہاں تک عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ سارے حقوق صرف خواتین کے لیے ہی مختص کیے گئے ہیں۔ ظلم اور نا انصافی کی بات ہوتی ہے تو اس میں بھی مورد الزام صرف مرد ہی ٹھہرتے ہیں۔ یہ سوچ و فکر ناقص اور سراسر غلط ہے۔ انیس بیس تو کوئی بھی ذمہ دار ہو سکتا ہے لیکن سارے جرائم اور کبائر میں مرد کو ہی ملزم قرار دینا مناسب نہیں کیونکہ ایک جہیز کو ہی لیں تو ایسے کتنے ہی کیس آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں کہ مرد یا اس کے خاندان والوں کو بے جا اور جھوٹے مقدموں میں پھنسایا گیا۔ بہرحال کچھ بھی ہو ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے سے بہتر یہ ہے کہ سب مل کر ایک اچھے اور بہتر معاشرہ کی تشکیل کریں۔
’بھابھی بیگم‘ کہانی بھی ایک بڑی حویلی کے باسیوں اور اعلا طبقے کے افراد سے متعلق ہے۔ دولت کی خود غرضیاں یہاں بھی نمایاں ہیں۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ انجم بہار کی زیادہ تر کہانیاں دولت مند طبقے کے کرداروں اور ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ کسی پلاننگ کے تحت ہو یا ان کا کوئی ذاتی احساس ہو کہ سماج کی سب سے زیادہ خرابیاں دولت مند طبقے اور حویلی، کوٹھیوں اور محلوں میں ہی ہیں۔ مجھے ان کا کوئی افسانہ نچلے طبقے کے کرداروں اور افراد سے متعلق نہیں ملا۔ جس میں زندگی کا دکھ ہو، روتی بلکتی زندگی ہو، روٹی کے لیے تڑپتے نفوس ہوں، بنیادی سہولیات سے محروم لڑکیاں ہوں، بچہ مزدوری کے مسائل ہوں، ٹوٹے ہوئے گھر، نونی کھائی دیواریں، ٹپکتی کھپریل، ہاتھ میں پیالہ لیے گندے، غلیظ لیکن معصوم بچے ہوں، اپنے جہیز کے لیے بیڑیاں بٹتی اور کارچوب کی سوئیوں سے اپنی انگلیاں چھیدتی، غربت کے باعث دل کو فگار اور ارمانوں کو لہولہان کرتی لڑکیاں ہوں، اولاد کے سکھ کو ترستی عورتیں اور ناکارہ اولادوں کے اعمال کو جھیلتی مائیں ہوں۔
ان کے علاوہ دیگر وہ مسائل بھی ہوں جن سے آج خواتین دوچار ہیں۔ تحفظ کے لیے سسکتی دوشیزائیں ہوں، تعلیم کے مسائل، بے روزگاری کے مسائل، دہشت گردی اور عدم اعتماد کے وہ مسائل جن سے آج ہمارا معاشرہ نبرد آزما ہے۔ کچھ دیگر موضوعات جیسے قومی یک جہتی، فرقہ پرستی، مذہبی جنون اور ملک و ملت و قوم کی شیرازہ بندی سے متعلق ہوں، ان پر بھی خامہ فرسائی کی ضمیری نظر سے نہ گزرے ہوں۔ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ خواتین قلم کار اگر قلم اٹھائیں تو ان کا موضوع صرف عورتیں ہوں اور ان کے کرداروں اور پلاٹ کا محور صرف خواتین تک محدود ہو جب کہ زندگی کے بہت سے مسائل مشترکہ ہیں اور خواتین و مرد، دونوں ان سے دوچار، متاثر اور پریشان ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں پڑھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کہانی حویلی سے شروع ہو کر حویلی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مٹی کے گھروندے، کچے کیچڑ بھرے آنگن اور زندگی کی بنیادی آسائشوں اور آرائشوں سے کہانیاں بہت دور ہیں لیکن یہ بھی ایک انداز ہے کیونکہ ہر قلم کار کی سوچ و فکر الگ اور اس کا ماحول جدا ہوتا ہے۔
بہرحال ان کے افسانوں میں رنگارنگی اور نیرنگی ہے، زندگی اور اس کی چمک دمک ہے، رونق ہے تو رونقوں کے اسباب بھی ہیں لیکن چبھتے ہوئے تیکھے جملے ان کے ہر افسانہ کا حسن بڑھاتے بلکہ اسے دوبالا کرتے ہیں۔ ان کا افسانہ ’ذات کا سفر‘ تیز روشنیوں کے اندھیرے کی کہانی ہے۔ مٹھاس بہت بڑھ جائے تو کڑواہٹ کا احساس ہوتا ہے۔ دولت کی فراوانی ہو تو انسانی قدروں، روحانی جذبوں، نزدیکی رشتوں اور بہت سے اپنوں میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ انسانی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی لیکن اس کا انجام اکثر و بیش تر غلط فیصلوں اور غیر متوقع نتیجوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ جھوٹی انا پرستی معیار زندگی کو دوسروں کی نظر میں بھلے ہی قابل قدر بنا دے لیکن ایسا انسان خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔
افسانہ ’ہے خبر گرم ان کے آنے کی‘ ان کے سارے افسانوں میں بالکل الگ ہی انداز تحریر اور اسلوب کے تحت لکھا گیا افسانہ ہے۔ مغربی تہذیب، اس کے ناپسندیدہ اثرات اور سماجی رویوں کی نفی کرتا ان کا یہ افسانہ پلاٹ اور موضوع کے لحاظ سے بھی ان کا سب سے منفرد اور جداگانہ افسانہ ہے۔ عام گھریلو بول چال اور لب و لہجہ اس افسانہ میں نمایاں بلکہ اس پر حاوی ہے۔ وہ چیزیں جو ہمارے لیے غیر ضروری اور فضولیات میں شامل ہیں، ان کو ہم نے اہمیت دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔افسانہ کا عنوان دل چسپ بھی ہے اور معنی خیز بھی کیونکہ جس کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ دراصل وہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے جسے دیکھ کر سب لوگ حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔
انجم بہار کا ادبی سفر کافی طویل ہے۔ انھوں نے ناول، افسانے، مضامین، مقالات، انشائیے، تبصرے، انٹرویو اور ادب کی دیگر اصناف کے تحت خوب لکھا ہے اور ان کی ساری تخلیقات شائع بھی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود ادب میں ان کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وہ مستحق ہیں۔ اس کے بہت سے اسباب اور اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ وہ چاہتیں تو اس حصار سے باہر نکل سکتی تھیں جس نے ان کی صلاحیتوں اور شہرت و ناموری کو محدود و مسدود کر دیا۔ اس میں ان کی تساہلی یا مجبوری کے ساتھ کچھ لوگوں کا بھی ہاتھ رہا۔ ممکن ہے یہ ان کے لیے بہتر ہی رہا ہو کیونکہ قلم کار کی زندگی سیدھے سچے راستوں پر نہیں بلکہ کانٹوں بھری راہوں پر چلتی ہے۔
میں نے اس مجموعہ میں شامل ان کے ہر افسانہ کو سطر سطر بہ غور پڑھا ہے اور تب اس پر اپنے [خیالات] رقم کیے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر افسانہ کی پردہ داری کی ہے اور کسی افسانہ کے بھی پلاٹ، موضوع یا کلائمکس اور کرداروں کے بارے میں نہیں بتایا ہے کیونکہ یہ سب کچھ لکھنے سے کہانی کا حسن مجروح ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے قاری اس کہانی کو کیوں پڑھے گا جس کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی بتا دیا گیا ہو۔ امید ہے انجم بہار کا ادبی سفر اسی لگن اور شوق و جستجو کے ساتھ جاری رہے گا اور قبول عام کی سند حاصل کرتا رہے گا۔ 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے