میں سرحد پر مارا جاؤں گا

میں سرحد پر مارا جاؤں گا

ثناء اللہ تاثیر

(ارون دھتی راۓ کے نام جن کی وجہ سے میری محبت کفن اوڑھنے سے گریزاں ہے)

میں تم سے جب ملنے آؤں گا
تو ایک نا معلوم ڈر کے زیر اثر
گھر کی در و دیوار کو اداسی بھری نگاہوں سے
آخری بار دیکھوں گا
میرے ساتھ کٸ خوف بھی زاد سفر میں ہوں گے
میرے ہاتھوں میں گنگا جمنی تہذیب پر
لکھی ہوئی اک کتاب ہوگی
پھولوں کا ایک گلدستہ ہوگا
میری جیب میں دو تین قلم ہوں گے
میں اگر صحیح سلامت گھر واپس آیا
تو ان قلم سے محبت کی کہانی لکھوں گا
میں جب واہگہ بارڈر پر ٹرین سے اتروں گا
اور تمھارے ملک میں قدم رکھوں گا
تو سپاہیوں کی مشکوک نظریں
اور ان کی بندوقیں میرا تعاقب کریں گی
میرے ہاتھوں میں کتاب پر ان سب کی
نگاہیں ہوں گی
کچھ دیر بعد وہ وردی میں ملبوس سپاہی
وہاں کی پولیس وہاں کی خفیہ ایجنسی کے لوگ
ایک دائرے کی شکل میں مجھے گھیر لیں گے
مجھ پر چیخیں گے مجھ سے سوال کریں گے
فضول اور بے مقصد باتیں کریں گے
میرے ہاتھ سے کتاب لے کر اسے پھینک دیں گے
پھولوں کا گلدستہ پیروں سے مسل دیں گے
ہو سکتا ہے میرے سامان میں سے
ان کو قائد اعظم کی تصویر بھی ملے
میری جیب سے قلم لے کر توڑیں گے
اور میں ان سب محبت شکن لمحات کو
محض اس پر فریب امید پر گزاروں گا کہ
میں تم سے مل ہی لوں گا
پھر تم سے ڈھیر ساری باتیں ہوں گی
تمھارے کمرے میں جاؤں گا
وہاں کی ساری چیزیں دیکھ لوں گا
تمھیں پھول دوں گا
تمھارے لیے کہانی سناؤں گا
تمھاری زلف سنواروں گا
تمھاری کتابوں پر تم سے دستخط لوں گا
اور آخر میں تم سے محبت کا اظہار کروں گا
اب سپاہیوں کا بڑھتا ہوا انسانیت سوز تشدد
میرا یہ گمان یقین میں بدل دے گا کہ
میں سرحد پر مارا جاؤں گا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے