ابراہیم اشک کے سانحۂ ارتحال پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ میں تعزیتی نشست

ابراہیم اشک کے سانحۂ ارتحال پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ میں تعزیتی نشست

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
ابراہیم اشک

(معروف شاعر اور نغمہ نگار ابراہیم اشک کے سانحہء ارتحال پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی میں تعزیتی نشست)
جموئی 19 جنوری. گزشتہ 16 جنوری کو کورونا مرض میں مبتلا معروف شاعر اور نغمہ نگار ابراہیم اشک کے انتقال پر ملال پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ کے دفتر فضل احمد خان منزل میں بہ صدارت محمد ارشاد عالم خان ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے ابراہیم اشک کی حیات و خدمات کا جائزہ پیش کیا. انھوں نے مرحوم کے مذکورہ بالا شعر سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ شعر ان کی خود آگاہی کا محور ہے. شاعر اپنی اہمیت و افادیت سے باخبر تھا، اسے معلوم تھا کہ اس کی رحلت سے ادبی دنیا میں جو ایک خلا پیدا ہوگا اسے پر نہیں کیا جا سکے گا. اس عظیم شاعر کی پیدائش 20 جولائی 1951ء کو بڑنگرن ضلع اجین مدھیہ پردیش میں ہوئی تھی. ابراہیم اشک کا اصل نام ابراہیم خان غور اور تخلص اشک تھا. ان کی ابتدائی تعلیم اجین میں ہوئی. 1973ء میں انھوں نے اندور یونی ورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، جب کہ بعد میں انھوں نے اسی یونی ورسٹی سے ہندی ادب میں ایم اے کیا. تعلیمی فراغت کے بعد اشک نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا، اور کئی اخبار و رسائل سے وابستہ ہو گئے، جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں.
روزنامہ اندور سماچار، شمع اور ششما رسالے، سریتا ہندی ماہنامہ، وغیرہ. اشک نے اردو زبان و ادب کو بھی اپنی عمدہ تخلیقات سے مالا مال کیا. وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور ناقد بھی تھے. ان کی ادبی تخلیقات میں
الہام ( شعری مجموعہ) 1991
آگاہی(شعری مجموعہ)1996
کربلا(مراثی) 1998
انداز بیاں کچھ اور (غالب کا تنقیدی جائزہ) 2001
تنقیدی شعور (بے دل، حافظ، اقبال اور فراق گورکھ پوری پر کام) 2004
اشک کا اختراعی ذہن ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی فکر میں رہتا تھا. نظم، غزل، مرثیہ، دوہا، ماہیہ، کے ساتھ ساتھ انھوں نے شاعری میں بے شمار نئے تجربے بھی کئے، جو آج نسل نو کے لیے قابل تحریک و تقلید ہیں. اشک نے فلموں میں بھی اپنی قسمت آزمائی اور کامیاب و کامران رہے. انھوں نے کہو نہ پیار ہے، کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے اور دھند فلم کے لیے کامیاب نغمے لکھے، جو آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں. اشک کی شعری و ادبی خدمات کے اعتراف میں اتر پردیش اردو اکادمی نے انھیں انعام سے نوازا تھا. اس کے علاوہ آل انڈیا بینرز ایوارڈ، مہاراشٹر ہندی پترکار سنگھ ایوارڈ، اجین جبلن کلب کا ساہتیہ سمان ایوارڈ سے بھی انھیں سرفراز کیا گیا تھا. ایسی مجموعی صفات کا حامل شاعر، نغمہ نگار 16 جنوری 2022ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا. ان کے انتقال پر تعزیت کرنے والوں میں، بزم کے صدر محمد ارشاد عالم خان، خازن پروفیسر رضوان عالم خان، محمد فخر الدین خان، معروف صحافی غلام سرور، ڈاکٹر شاہد انور، محمد شاداب رضی خان، محمد صابر خان، محمد عتیق الله خان وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں.
بزمِ تعمیر ادب جموئی میں یاد کیے گئے تلوک چند محروم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے