بزم اظہار انٹرنیشنل کا ماہانہ طرحی مشاعرہ منعقد

بزم اظہار انٹرنیشنل کا ماہانہ طرحی مشاعرہ منعقد

بے اعتنائی برتنا نہیں ہے ٹھیک ذرا
وبا کا آج بھی خوف و ہراس باقی ہے

پٹنہ(پریس ریلیز): بزم اظہار انٹرنیشنل کا ٥٩ واں ماہانہ طرحی مشاعرہ گذشتہ شب منعقد کیا گیا، جس کی صدارت کہنہ مشق، بزرگ اور استاد فن جناب مرغوب اثر فاطمی نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض طنز و مزاح کے نمائندہ شاعر چونچ گیاوی نے انجام دیے. اس طرحی مشاعرہ کے لیے تین مصارع دیے گئے تھے
(۱)عشق کی آنکھو سے ٹپکا ہوا آنسو تو نہیں
(۲)فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
(۳) وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
جن شعرا نے اپنے کلام سے نوازا ان کے نام مع نمونۂ کلام اس طرح ہیں: 
مرغوب اثر فاطمی:
ہے زباں بند، سلاسل ہیں بلکتے محکوم
مسند عدل پہ بیٹھا کوئی بدخو تو نہیں
نیاز نذر فاطمی:
یہی کہیں گے سب اہل بتاں کہ دنیا کا
نظام اتنا کٹھن ہے کہ اک خدا کم ہے
پروفیسر ناظم قادری:
ہے کس کی شہہ پہ یہ مجرمانہ سرگرمی
اماں کے شہر میں اب تک ہراس باقی ہے
حنیف اختر:
تمھارا ظرف بیاں تلخ و ترش میں بدلا
ہمارے عرض بیاں میں مٹھاس باقی ہے
شکیل سہسرامی:
بے اعتنائی برتنا نہیں ہے ٹھیک ذرا
وبا کا آج بھی خوف و ہراس باقی ہے
ڈاکٹر ممتاز منور:
جو مر مٹا تھا مری جھیل سی نگاہوں میں
بدل گیا ہے وہ اب ان میں جھانکتا کم ہے
م سرور پنڈولوی:
وہ اور ہوں گے جو منزل قریب چاہتے ہیں
میں جب سفر کروں لگتا ہے راستہ کم ہے
ڈاکٹر مقصود عالم رفعت:
مرے حریف مری خوبیوں سے واقف ہیں
یہ اور بات مرا ان سے سابقہ کم ہے
بشر رحیمی:
نہ جانے کیسی حکومت کا انتخاب ہوا
چہار سمت تو پستی ہے ارتقا کم ہے
نوشاد ناداں:
مرے رقیب کی مٹ جائے گی رقابت بھی
محبتوں سے لبالب گلاس باقی ہے
چونچ گیاوی:
کہا یہ ڈاکو نے ڈاکا نہیں ہوا پورا
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
کلیم اللہ کلیم:
حریف وقت نے کوشش تو کی گھٹانے کی
ہمارے رشتے میں پھر بھی مٹھاس باقی ہے
وارث اسلام پوری:
نہ کارگر ترے الفاظ ہوں گے زہریلے
مری زبان میں جب تک مٹھاس باقی ہے
اظہر رسول:
جو نفرتوں سے سدا دیکھتا ہے غیروں کو
تو حق بھی اس کو سکوں سے نوازتا کم ہے
قمر سمستی پوری:
نصاب عشق مکمل نہیں ہوا صاحب
ابھی بھی اس کا کوئی اقتباس باقی ہے
پردیسی کابری:
نگاہ مست ہی کافی ہے تشنگی کے لیے
میں پی چکا ہوں سمندر کو پیاس باقی ہے
سبطین پروانہ:
ادب سے پیش میں آؤں گا یاد یہ رکھنا
تمھارے واسطے دل میں سپاس باقی ہے
ڈاکٹر نصر عالم نصر:
بہت شریف ہے سر کو جھکائے رہتا ہے
کسی حسین کا گھر بار جھانکتا کم ہے
اصغر شمیم:
اجالا مانگ رہا ہے وہ گھپ اندھیرے میں
ہمارے گھر میں ہی اپنے لیے دیا کم ہے
اعجاز عادل:
جو آگ دل میں لگی ہے اسے بجھاؤں کیوں
یہ کم نہیں ہے دل خود شناس باقی ہے
سمیع احمد ثمر:
محبتوں کی نہ امید ان سے تو کرنا
وہ جن کے دل میں خلش کی کھٹاس باقی ہے
عبداللہ امامی:
چکھا کے بیوی نے پوچھا ہے اپنے شوہر سے
بتائیے تو نہاری کا ذائقہ کم ہے
اظہارالحق اظہر:
نشانیوں میں نشانی ہے یہ قیامت کی
عدالتوں میں تو قاتل کو اب سزا کم ہے
خواہ مخواہ دلالپوری:
نہ جانے کیسے لگا چپ کا گھاؤ سینے میں
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
بزم اظہار انٹرنیشنل کے زیر اہتمام شاعرات کا عالمی زوم مشاعرہ منعقد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے