حوا کی بیٹیوں کی عزت تار تار، کون ہے ذمے دار؟

حوا کی بیٹیوں کی عزت تار تار، کون ہے ذمے دار؟

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
موبائل:09279996221
رب تعالیٰ! نے کائنات کو بہت خوب صورت اور حسین و جمیل بنایا ہے، پوری حسین و جمیل کائنات پر نظر ڈالیں تو خداوند قدوس کی عظمت کا احساس ہوتاہے. رب العالمین جو اپنے بندوں سے ایک ماں کے مقابلے میں ستر گنا سے بھی زیادہ محبت فر ماتاہے اُس نے عورت جیسی صنف نازک کو بہت عزت بخشی. آپ ﷺ نے نہ صرف عورت کو اس کے حقوق دلوائے بلکہ اس زمانے میں اس معاشرے میں اس کو وہ مقام بخشا جس کی وہ حق دار تھی۔ اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا؟ عورت کو جتنی عزت، رتبہ اور مقام اسلام میں حاصل ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں. جب کہ رسول اللہ ﷺ کی بے شمار احادیث میں بھی عورت کی عزت کا حکم ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟ اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں گے۔ اور جب آسمان کھینچ لیا جائے گا۔ اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی. (القرآن، سورہ، التکویر: 81آیت،8سے10) اہل عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے، ہندستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو زندہ جلا دیا جا تا تھا۔ عورت کو اسلام نے عزت بخشی. ماں کے روپ میں اس کے پیروں تلے جنت کی خو ش خبری سے نوازا۔ ”عورت“ جسے دین اسلام نے حقوق سے نوازا۔بہن، بیٹی، بیوی کے درجہ میں اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کا ذمہ مردوں کے ذمہ پر رکھا۔ لیکن افسوس آج انہی حوا کی بیٹیوں کی عزت کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔
حوا کی بیٹیوں کے ساتھ بُرا سلوک بُرے سماج کی دین: انسان بھی عجیب ہے، اپنے غلط فیصلوں اور رویوں کو فطرت کا ٹیگtag لگا تا ہے اور خود بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ فطرت کا ٹیگ لگا کر اگر مرد عورت کے ساتھ کچھ غلط کرتا ہے تو اسے عین فطرت سے تعبیر کیا جاتاہے، استغفراللہ و اتوب الیہ۔ اور اس”عین فطرت“ عمل سے مرد سڑکوں اور دفاتر و گھروں میں خواتین کو ہراساں کرتے ہیں. نہ صرف غریب اور نا خواندہ گھروں میں ہی خواتین پر تشدد کیا جا تا ہے بلکہ اعلا تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اِن واقعات کے پیچھے عورت کو کم تر، عزت سے محروم اور باندی سمجھنے کی سوچ کار فر ماہے۔ عورت کے ساتھ جو جنسی ہراسانی ہوتی ہے اُس سے عورت کے جسم کے ساتھ دل اور روح تک پورا زخمی ہوجاتاہے، راہ چلتی عورت پر آواز کسنا یا جان بوجھ کر ٹکراجانا ہی”ہراسمنٹ“ ہے، کسی بھی خاتون کی مجبوری دیکھ کر اس کی ناموس،عزت،عصمت سے کھلواڑ کرنا عزت کا سودا کرنا…. یہ سب "ہراسمنٹ ہی تو ہے". 
ہمارے ملک میں عورت کو دیوی دیوتاؤں کی طرح پوجا جاتا ہے، اس کے باوجود یہ بے قدری؟ عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ عورت اس ظلم کی شکار ہونے والی ثبوت کہاں سے لائے؟ گواہ کہاں ڈھونڈھے؟ اور پھر کورٹ کچہری میں متاثرہ عورت کی بے بسی دیکھتے رہنے کے قابل ہوتی ہے۔ عورتوں کی حفاظت کا دعوا کر نے والی تنظیموں، وکلا اور منتخب نمائندوں کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ اِ س طرح کی گندی ذلیل حرکتوں میں سخت گیر عناصر ذہن رکھنے والے نیتا حضرات کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ میں آتے رہتے ہیں اور ان کی گندی سوچ بھی جلتی آگ میں گھی، پٹرول ڈالنے کا کام کرتی ہے، ان کو کوئی قابل توجہ سزائیں دینے والا بھی نہیں، سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟۔ ”حال ہی میں اتر پردیش کے رام کولا میں بی جے پی مہیلا مورچہ کی رہنما سنیتا سنگھ گوڑ کو مسلم مخالف ایک فیس بک پوسٹ کو لے کر بڑا بوال ہوا تھا، اس کے بعد ان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کچھ دن پہلے اُنھوں نے فیس بک پر لکھا تھا کہ ہندو مردوں کومسلمانوں کے گھر میں گھسنا چاہیے اور ان کی عورتوں سے ریپ کر نا چاہیے۔ Mahila Morcha کیSunita Gowd نے لکھا تھا، اس کا ایک ہی حل ہے۔ 10 ہندو بھائی ایک ساتھ مل کر ان کی بہن اور ان کی ماں کے ساتھ سرعام سڑک پر ریپ کریں، پھر اس کو کاٹ کر کھمبے میں باندھ کر بیچ بازار ٹانگ دیں۔ (.. آگے لکھتے شرم آتی ہے) وغیرہ وغیرہ۔ للن ٹاپ کی رپورٹ کے مطابق؛ اس تبصرے کو فیس بک سے ہٹا لیا گیا ہے۔ NDTV کے رپورٹر نے تفصیلی رپورٹ دی ہے. حالانکہ فیس بک کے اسکرین پر شاٹ و سوشل میڈیا پر یہ وائرل ہوا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے بیانات سے عورتوں کی عزت اور تارتار ہورہی ہے۔
جنسی زیادتی کیا ہے، زنا بالجبرکرنا، جنسی طور پر ہراساں کرنا: جنسی زیادتی کو جنسی بد سلوکی یا جنسی تشدد بھی کہا جاتاہے۔ جنسی زیادتی کے متعدد معنیٰ ہوتے ہیں. بغیر مرضی کے کسی عورت کے بدن کو چھونا یا بوسہ بازی کر نا مجبور کر کے یا زبر دستی جنسی سر گر میوں کا ار تکاب کرنا جس میں تشدد اور تکلیف کا عنصر شامل ہو. جنسی زیادتی کے زیاد ہ تر واقعات کا ارتکاب مردوں کی طرف سے عورتوں اور بچوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی کے اکثر واقعات کی اطلاع پولیس کو نہیں دی جاتی. لوگ شرم محسوس کرتے ہیں اور اب تو جنسی زیادتی عام ہوگئی ہے۔ زینت اختر بلاگر، نئی دہلی D W,com, جرمنی کی رپورٹر کا کہنا ہے کہ”پانچ میں سے تقریباً ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے. پولیس کو اطلاع دینا ایک مشکل فیصلہ ہوتاہے. زیادہ تر شرم و حیا کی وجہ کر لوگ خا موش ہی رہتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام کی مجبوریاں اورشواہد اکھٹا کر نے کا طریقہ اتنا پیچیدہ ہے کہ بیان کرنے سے شرم آتی ہے. یہ بھی ایک وجہ ہے کہ حوا کی بیٹیوں کی عزت کو پیروں تلے روندا جا رہاہے“ (dw.com) ہمارے معاشرے میں روز سیکڑوں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ خانی، جنسی زیادتی کے واقعات ہورہے ہیں. ہم تو یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسا بھی کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن سچائی اور حقیقت حال یہی ہے کہ یہاں ہردن کہیں نہ کہیں حوا کی بیٹی اپنی عزت و ناموس اپنے وقار کو بچانے کے لیے اپنے اندر ہی اندر سسک سسک کر مر رہی ہے۔ اس کی پکار کوئی سننے والا نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسی خواتین کو برداشت ہی نہیں کرتا جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و تشدد کی روداد معاشرے کے سامنے لائے۔ اگر ایک عورت ہمت کرکے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی کے ازالے کے لیے قانون کا سہارا لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور انصاف کی متلاشی ہو تو اسے بے شر می کا طعنہ اور چپ رہنے کا درس دیا جا جاتا ہے، ایسی خواتین کو ہماری سوسائٹی قبول نہیں کرتی۔ یہ ایک مظلوم عورت کی توہین ہے. یہ بہ حیثیت اِنسان ایک عورت کی تذلیل ہے، حوا کی بیٹی کو غلیظ گالی دینے اور اس کے جسم و روح پر تیزاب پھینک دینے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی مرد کو پیسے دکھا کر غلام بن جانے یا اس کی اپنی بیٹی کا سودا کر لینے کی پیش کش کی جائے۔ کام کر نے والی خواتین،working women کو قدم قدم پر ایسے ذہنی اور روحانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سوال خواتین کی تنظیموں، وکلا اور منتخب نمائندوں کو دعوتِ فکر دیتاہے۔ عورت کو محض اپنی نا پاک خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنے والوں کو اتنا سوچنا چاہیے کہ مجبوری اُن کے گھر بھی دستک دے سکتی ہے، ان کی بہن، بیٹیوں کو بھی باہر نکلنا پڑ سکتا ہے اور اس وقت معاشرے کے جو بُرے حالات ہیں اُن سے ان کو بھی گزرنا پڑ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اِنسانیت کو شرم شار کر نے والی، دل دہلانے والی داستان: BBC Urdu.com,24sep- 2021 کے مطابق اور دی وائر وNDTV کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے شہر ممبئی میں پولیس کے مطابق ایک 15 سالہ لڑکی سے مبینہ طور پر رواں سال جنوری سے ستمبر تک 100 سے زیادہ لوگ لڑ کی سے اجتماعی ریپ کرتے رہے۔ (نعوذ بااللہ، استغفرا للہ) مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ پولیس حکام ایک 15 سالہ لڑ کی کے ریپ rape, عصمت دری، زنا بالجبر کے کیس پر تحقیقات کر رہے ہیں جسے قریب 9 ماہ تک گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ممبئی پولیس نے ریپ کے ان الزامات میں اب تک 28 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ سلسلہ رواں سال جنوری میں شروع ہوا تھا۔ مقامی اطلاعات کے مطابق اس لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اس کے بوائے فرینڈ نے اس کا ریپ کیا اور واقعے کی ویڈیو بنالی۔ اس لڑ کے اور اس کے دوستوں نے مبینہ طور پر اس ویڈیو کو استعمال کرتے ہوئے اس لڑکی کو بلیک میل کیا اور زبردستی اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے۔
اخبار دی ہندو  کے مطابق ایڈیشنل کمشنر پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے اس لڑ کی کو رواں سال جنوری سے ستمبر تک مختلف مقامات میں متعدد بار جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسسٹنٹ پولیس کمشنر کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم اس کیس میں تفتیش کر رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ گینگ ریپ ممبئی کے گرد و نواح کے دیہی علاقوں میں متعدبار کیا گیا۔ ان علاقوں میں بدلہ پور، دومبیولی، مرباد اور ربالے شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اکثر ملزمان 16سے32 کے طلبا ہیں۔پولیس اس بات کی بھی تحقیق کرر ہی ہے کہ جرم کی رپورٹ ہونے میں اس قدرتاخیر کیسے ہوئی۔ اس لڑ کی نے پہلی بار پولیس کو ان واقعات کی اطلاع بدھ کو دی۔ نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق لڑکی نے کل 33 حملہ آوروں کے نام درج کرائے ہیں اور بتایا ہے کہ وہ قریب تمام افراد کو جانتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عصمت دری، جنسی زیادتی بالغ افراد اور بچوں، عورتوں اور مردوں اور ہر پس منظر کے لو گوں کے ساتھ ہورہی ہے۔کیا کیا لکھا جائے. جنسی زیادتی طاقت کا ناجائز استعمال ہے جو موجودہ ہندستان کے ماحول میں چل رہا ہے. بڑے بڑے نیتا اورطاقت ور ایم ایل اے کھلے سانڈ کی طرح جہاں چاہیں منھ ماررہے ہیں. چند دنوں بعد انھیں ضمانت مل جاتی ہے. غریب بے چارہ سسکیاں ہی لیتا رہتا ہے۔ جب اونچی پہنچ کے لوگ ہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو اس معاشرے میں عورت اپنے گھر میں بھی کتنی محفوظ ہوگی؟ عورت ہر زمانے میں مظلوم چلی آرہی ہے. لوگ عورتوں کو اپنی عیش وعشرت کے لیے  کھلونا سمجھتے ہیں. لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورتوں پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت و پستی سے نکالا اور اس زندہ دفن کی جانے والی عورت کو بے پناہ حقوق دیے اور قو می و ملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔ لوگوں خصوصاً عورتوں کو گہرائی سے اسلام کا مطالعہ کر نا چاہیے۔ ہم سب کو عورتوں کی عزت و اکرام کر نا چاہیے اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کر نا چاہیے. اللہ سب کو اس کی توفیق بخشے آمین ثم آمین:۔09279996221, hhmhashim 786 @ gmail.com,

الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی 
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ 
اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، 
جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن ۰۲۰۱۳۸ , 
رابطہ: 09431332338 Mob.: 09386379632 (W
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : لڑکے، لڑ کیوں کا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنا شرمناک، ماں باپ شر مندہ، ذمہ دار کون؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے