آہ – کمال خان! (1960-2022)

آہ – کمال خان! (1960-2022)

مسعود بیگ تشنہ

کمال خان ایک سچے، کھرے اور انتہائی مہذب اور سماج کو دِشا دکھانے والے این ڈی ٹی وی چینل کے سینیر صحافی تھے. ایسے صحافی خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں. ان کا اچانک اس طرح دنیا سے رخصت ہو جانا این ڈی ٹی وی چینل کا نقصان ہی نہیں، سچی قومی ہندی/ ہندستانی صحافت کا بڑا بھاری نقصان بھی ہے. دوسرا کمال خان پیدا ہونا مشکل ہے. تقریباً دو تین دہائی یعنی فروری 1995 سے وہ این ڈی ٹی وی ہندی چینل سے جڑے تھے. الیکٹرانک میڈیا میں آنے سے پہلے وہ پرنٹ میڈیا میں نوبھارت ٹائمز اور جاگرن سے جڑے ہوئے تھے. انھوں نے پچیس تیس سال میں ایودھیا کی جو رپورٹنگ کی ہے، انھیں جمع کر کے بے شک کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں. ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا. وہ ایک دانشور صحافی کی طرح تھے. انھیں چوپائیاں از بر تھیں اور وہ موقع بہ موقع اس کا استعمال کرتے تھے. یوپی اور اپنے لکھنؤ کے سیاسی منظر نامے کو اپنی نم اور پھٹی آنکھوں سے انھوں نے بدلتے دیکھا اور لوگوں تک اسے جس کا تس پہنچایا. سنا گیا ہے کہ لکھنؤ میں مکھیہ منتری کے ایک پروگرام کو کَوَر کرنے سے انھیں روک دیا گیا تھا. آج 14 جنوری 2022 کو لکھنؤ میں اپنی رہائش گاہ میں اچانک آئے ہارٹ اٹیک سے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے جب کہ اچھی فٹنیس کے لیے وہ جانے جاتے تھے. وہ لکھنوی اور گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے. شاعری کی زبان میں اور شرافت کے لہجے میں اور بعض اوقات اس طرح دل برداشتہ ہوکر رپورٹنگ کرتے تھے کہ سننے دیکھنے والے کا دل بھر آتا تھا. جیسے ایک بار رپورٹنگ کرتے وقت ان کا بھرے دل سے کہنا کہ آج لکھنؤ شرمندہ ہو گیا. نئی صحافت کے جو سچی صحافت کو زندہ رکھنے اور دیکھنے کی امید جگاتی تھی کمال خان ایک زندہ مثال تھے، وہ ایک مثال تھے وہ ایک مثال رہیں گے. وہ کمال تھے وہ کمال رہیں گے. افسوس! ہندستان میں پھلتی پھولتی پیلی صحافت سے لوہا لیتا کھرا، سچا، شریف اور مہذب صحافی رخصت ہوا. زندہ باد کمال خان! الوداع!

آہ- کمال خان!
وہ صحافی بڑے کمال کا تھا
صاف ستھرا بڑے جمال کا تھا
این ڈی ٹی وی کا وہ باکمال کمال
وہ انوکھا وہ بے مثال کمال
وہ دکھاتا تھا جَس کے تس منظر
وہ تو کچھ بھی نہیں چھپاتا تھا
اس سے چھپتا نہیں تھا پس منظر 
پیش منظر بھی وہ دکھاتا تھا
گنگا جمنی مزاج کا ہندی
سننے والوں کو خوب بھاتا تھا
وہ تھا چِنتک، مطالعہ والا
ٹھہرے لہجے میں گُن گُناتا تھا
ٹھہرے لہجے میں بات کرتا تھا
وہ شریفانہ پیش آتا تھا
دودھ کا دودھ پانی کا پانی
سچ کو ہر رنگ میں دکھاتا تھا
وہ خبر کی خبر بھی رکھتا تھا
آگے پیچھے نظر بھی رکھتا تھا
زرد پھیلی ہوئی صحافت ہے
گنگا جمنا کا پانی گندہ ہے
ایسے ماحول میں بھی "تشنہ" جی
آج ہے سوگوار لکھنؤ بھی
سوگوار ہند میں ہوئے لاکھوں
لکھنؤ شہر میں بھی صدمہ ہے 
(14 جنوری 2022، اِندور، انڈیا)
مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں :تسطیر بر شعر راحت اندوری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے