لڑکے، لڑ کیوں کا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنا شرمناک، ماں باپ شر مندہ، ذمہ دار کون؟

لڑکے، لڑ کیوں کا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنا شرمناک، ماں باپ شر مندہ، ذمہ دار کون؟

حافط محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی، جمشید پور
موبائل : 09386379632

اِنسان کی بہت ساری فطری ضروریات ہیں، اہم ضروریات میں روٹی کپڑا اور مکان ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد کھانے پینے کے ساتھ سب سے اہم ضرورت جنسی خواہش کو پوری کرنا رہتا ہے۔ جس طرح کھائے پیے بغیر آدمی نہیں رہ سکتا اسی طرح جنسی ضرورت پوری کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسول رحمت ﷺ نے فر مایا: ’’اے نوجوانوں! تم میں جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والاہے اور جس میں نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو وہ روزہ رکھے کہ روزہ قاطع شہوت ہے۔ یعنی شہوت نفسانی خواہش، عموماًخواہشِ جماع کوتوڑنے والاہے)۔ صحیح بخاری،کتاب النکاح حدیث: 5066۔ج:3، ص: 422)۔ اسی لیے اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے، اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح "شادی" محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری ضروریات و جذبات کی تسکین، آسودگی کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں اُن میں نکاح بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اسلام اِنسان کو اپنی فطری natural ضرورت کو جائز اور مہذب طریقے کے ساتھ پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جہاں چاہو جانوروں کی طرح منھ نہ مارو۔ شادی کے بغیر جنسی تعلق، physical relation قائم کرنا حرام وگناہ ہے، گناہ ہے، گناہ ہے۔ اسلام نے نکاح کو نسلِ انسانی کی بقا و تحفظ کے لیے ضروری بتایاہے۔ اور نکاح کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔
لڑکا، لڑکی کا اپنی مرضی سے شادی کرنا اِنتہائی بے شر می ہے: شریعت مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لیے تسکینِ شہوت (sex) کے لیے نکاح کا حلال راستہ بتایا! اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو نہ صرف حلال قرار دیا بلکہ ثواب بھی بتایا۔ جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چونکہ تسکین شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کا اعلان کرنے کا حکم دیا کہ مسجد میں نکاح کرو، کی ترغیب بھی دی ہے۔ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن، رشتہ ازدواج سے جڑنے والے افراد پر کسی کو تہمت لگانے کا موقع نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے جو نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔
رسول کریم ﷺ کا فر مان عالی شان ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فر مایا: ’’اس نکاح کا اعلان کرو(یعنی نکاح) اعلانیہ کرو اور اس پر دف بجایا کرو‘‘۔(سنن تر مذی حدیث:1089)۔
والدین اور معاشرے سے چھپ کر شادی کرنا معیوب ہے:
اپنی پسند کی شادی کرنا، والدین اور معاشرے سے چھپ کر شادی کرنا، خاندان و گھر والے جس شادی سے راضی نہ ہوں معاشرتی شرم و حیا کا باعث ہے اور نکاح کے مقصد کے بھی خلاف ہے. رسول گرامی کے فرمان کے بھی خلاف ہے کہ نکاح کا اعلان کرو مسجد میں نکاح کرو۔ چھپ چھپا کر شادی بے شرمی اور اپنی عزت کو نیلام کرنا، ماں، باپ کی عزت کو گروی رکھنا، معاشرے کی سب سے گھنائونی بُرائی ہے۔ خصوصاً لڑکی کی جانب سے ایسا قدم اُٹھانا فطری حیا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے؛ اس لیے شریعت نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ بالغہ لڑکی کفو میں اپنے والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے، شرعاً اس کی اجازت تو ہے۔ البتہ بہتر نہیں، اس میں دنیا و دین وآخرت کی تباہی ہے۔ ’’کفو‘‘ کا برابر ہونا، ذات میں برابر ہونا، ہم خاندان ہونا، ہم رتبہ ہونا، نسب کے لحاظ سے برابر ہونا، وغیرہ وغیرہ کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا مسلمان ہو، دیانت اورنسب و مال و پیشہ اور تعلیم میں لڑکی کا ہم پلہ ہو۔ اس سے کم نہ ہو، نیز کفائت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے وغیرہ۔ ( نوٹ: زیادہ معلومات کے لیے فقہ کی کتابیں، قانونِ شریعت،بہارِ شریعت ودیگر کتب فقہ کا مطا لعہ فر مائیں)۔ بالغہ لڑ کی اگر باضابطہ ہم کفو میں گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیتی ہے تو نکاح صحیح اور درست ہوجاتاہے؛ تاہم بالغہ لڑ کی کے ماں، باپ کی مرضی کے خلاف بھاگ کر نکاح، کورٹ میرج کر لینا انتہائی نا مناسب ہے اور ماں، باپ کی بے عزتی کرنا کرانا انتہائی نا مناسب کام ہے، اس میں بہت سی قباحتیں ہیں. چونکہ بھاگنے سے پہلے بالعموم ابتدا میں غلط تعلقات پیدا ہوتے ہیں؛ حرام کاریاں ہوتی ہیں، نکاح سے پہلے ہی جنسی تعلقات، physical relation قائم ہوتے ہیں. جوانی کے جوش و محبت میں غلط کام میں کوئی شرم وحیا باقی نہیں رہتی۔ اسی لیے اگر خاندان کے دیگر افراد ناراض ہوتے ہیں،تو ان کا ناراض ہونا بجا ہوتا ہے؛ لیکن جب اس لڑکی نے نکاح کرلیا اور اپنے سابقہ ناجائز تعلقات سے توبہ کر لیا تو اب خاندان و دیگر افراد کو بھی تعلقات استوار کر لینا بہتر ہے۔ قطع تعلق کی اسی حد تک اجازت ہے جب تک انسان گناہ پر برقرار رہے۔
پسند کی شادی بعد میں پچھتا وا: عموماً پسند کی شادی میں جوانی کا جوش اور وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجۃً ایسی شادیاں نا کام ہوجاتی ہیں اور آگے چل کر” طلاق" کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندان والوں اور تجر بہ کار والدین اور بزرگ حضرات کے صلاح و مشورے کے بعد طے کیے ہوئے رشتے زیادہ پائیدار ثابت ہوتے ہیں۔ فریقین دولہا، دُلہن کے اوپر دونوں جانب سے دباؤ قائم رہتا ہے، نرم، گرم،ان بن ہونے پر دونوں طرف کے گارجین کی مداخلت سے سمجھا بجھاکر معاملہ رٖفع دفع ہو جاتا ہے، شریعت اسلامیہ نے یہی تعلیم دی ہے اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کار ہے۔ والدین کی کرائی گئی شادیاں دیر پاہوتی ہیں. وقت گزر تے زوجین میں محبت پروان چڑھتی رہتی ہے۔ بچوں، لڑکیوں، لڑکوں کو چاہیے کہ وہ شادی جیسے اہم رِشتے کو کرنے جیسے بوجھ کو خود سے اُٹھانے کے بجائے اپنے بڑوں پر اعتماد کریں، ان کی رضا مندی کے بغیر کوئی قدم نہ اُٹھائیں۔
ناجائز شہوانیت سے اجتناب کے فوائد:
ہر مسلمان خاص کر مسلم بچے،بچیاں اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کریں. اپنے ماں، باپ کو شر مندگی سے بچائیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: اور بد کاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اوربہت بُری راہ ہے۔ ( القر آن، سورہ بنی اسرائیل 17:آیت 32 ( کنز الایمان) اس آیت میں زنا جیسے گناہ کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے’’زنا‘‘ اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بد ترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ وفساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز ایک خوفناک شکل میں پوری دنیا میں عذابِ الٰہی کی صورت میں پھیلتا جا رہا ہے۔ حضور کی حدیث پاک ہے: اعلا ترین ثواب یہ ہے کہ باوجود قدرت کے، خوفِ خدا کے باعث زنا نہ کرے۔ خاص طور سے اس وقت شہوت بھی پائی جا رہی ہو اور زنا سے باز رہے تو یہ صدیقین کا درجہ ہے۔ آگے حضور ﷺ نے فر مایا: جو عاشق ہوا اور پار سا رہا اور عشق کو چھپایا پھر مر گیا وہ شہید ہے۔ (اسلام امن عالم باب 4ص165)۔ حجۃالاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں ’’شرم گاہ کی شہوت  تمام انسانی شہوات پر غالب ہے. اس کے نتائج ایسے بھیانک ہیں جن کے بیان سے شرم آتی ہے اور اِظہار سے خوف لگتا ہے۔ آپ نے تصریح فر مائی کہ زنا اور نظرِ بد سے بچنے والوں میں کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں. 1- اپنی عاجزی کے سبب2 – کسی خوف کے باعث 3- عزت و حشمت کے خیال سے4- حیا شرم کی بنیاد پر اور ان تمام وجوہ سے بچنے والے کو کوئی خاص ثواب نہیں ملے گا، بلکہ اِن میں ایک حظ نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے، ہاں اِن مواضع میں بھی ایک فائدہ بہر حال ہے کہ آدمی گناہ سے محفوظ رہتا ہے۔ چاہے جس سبب سے ہو۔ آپ یہ بھی لکھتے ہیں. شہوت اِنسانی عقل کی سب سے نا فر مان چیز ’’زنا‘‘ ہے یعنی غصہ سے بھی زیادہ وغیرہ وغیرہ۔( اسلام امن عالم باب4 ص 165)۔
ماں، باپ کی ذمہ داریاں:
بچیوں اور لڑکوں پر بھی کڑی نظر رکھیں. عمر ہونے پر جلد شادی کریں۔ جہیز اور زیادہ پڑھانے کی لالچ میں شادی میں دیر بالکل نہ کریں، بے حیائی بے شر می کی محفلوں میں قطعی شریک نہ ہونے دیں، آج کے جوحالات ہیں اِن میں ماں باپ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں اور تاخیر سے شادی کرنا بھی ایک اہم سبب ہے۔ اللہ ہمیں سمجھ عطا فر مائے آمین ثم آمین۔رابطہ-
09386379632,hhmhashim786@gmail.com
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر وایا کپالی مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: سلطان العارفین سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے