سلطان العارفین سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ

سلطان العارفین سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ

حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی، جمشید پور

سید الاولیا سُلطان العارفین حضور سید احمد الکبیر الحسنی الموسوی الرفاعی کاعرس مقدس 22 جمادی الاول کو اُم عبیدۃ ( بصرہ) بغداد شریف میں منعقد ہوتا ہے، اس لیے حقیقت میں ناظرین کے استفادے کے لیے بطورِ برکت اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
مشائخ دہر اور اولیائے عصر پر آپ کی عظمت و فضیلت درجۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے۔ چنانچہ "تریاق المحبین نے لکھا ہے کہ شیخ محمد خطیب الحدادی کے روبرو جب حضرت سید احمد کبیر رفاعی اور دوسرے اولیاء اللہ کا ذکر آتا تو آپ حضرت شیخ رفاعی کے فضائل ومناقب میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے
لاتقس بارق النجوم بشمس ٭ بینہا والنجوم فرق عظیم
فاحذر ان یقال عینک عمیا ٭ واِلا فمکا او لئیم
یعنی ستاروں کی چمک دمک کا سورج سے کیا موازنہ!، سورج اور ستاروں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، لہذا اس سے بچو کہ تمھاری آنکھوں کو اَندھی کہا جائے۔
آپ کا حسب ونسب: آپ کا نام احمد بن علی یحی بن حازم بن علی بن رفاعی ہے. آپ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں. آپ کی کنیت ابو العاس اور لقب محی الدین ہے. جب کہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں. حضرت سیدنا علی بن یحیٰ علیہ الرحمہ کا نکاح حضرت سید منصور بطائحی رحمۃاللہ علیہ کی ہمشیرہ سے ہوا تھا جو کہ نہایت پرہیزگار خاتون تھیں، انہی کے بطن سے 15 / رجب المرجب 512 ھجری یکم نومبر 1118ء میں حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت سے پہلے ہی آپ کی ولادت کی بشارت دی جانے لگی تھی. چنانچہ حضور ابوالوفا محمد بن محمد کاکیس رحمۃاللہ علیہ کا گزر اُم عبیدہ گاؤں کے قریب سے ہوا تو کہا السلام علیکم یا احمد! مریدوں نے عرض کی ہم نے تو کسی احمد کو نہیں دیکھا، ارشاد فر مایا وہ اس وقت اپنی والدہ کے شکم مبارک میں جلوہ افروز ہیں، میری وفات کے بعد پیدا ہوں گے، ان کا نام احمد رفاعی ہے اور روئے زمین کا ہر عبادت گزار ان کے سامنے عاجزی سے پیش آئے گا۔ (طبقات الصوفیہ للمناوی ج: 4ص 191)۔

اولیاء کرام سیدھی راہ پر ہیں ان کی راہ پر چلو:
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَإِذاً لَّآتَیْْنَاہُم مِّن لَّدُنَّـا أَجْراً عَظِیْماً(67) وَلَہَدَیْْنَاہُمْ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً(68۔ترجمہ: اور ایسا ہوتا تو ہم ضرور انھیں اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب عطا فر ماتے۔ اور ہم انھیں ضرور سیدھے رستے کی ہدایت دیتے۔ (القرآن،سورہ نساء:4آیت67 سے68) اگر وہ ہر اُس حکم پر عمل کریں جو انھیں دیا جائے خواہ خود کو جان سے ماردینے کا ہو یا گھروں سے نکل جانے کا، بہر صورت یہ ان کے لیے بہتر ہوتا اورا یمان پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہوتا اور اس پر ہم انھیں عظیم اجر و ثواب عطا فرماتے اور انھیں صراط مستقیم کے اعلا درجے کی ہدایت فرماتے۔ یعنی رب تعالیٰ کا ہر حکم ماننے سے رب کی ہدایت ملتی ہے جیسے
آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَـئِکَ رَفِیْقاً(69) ۔ ترجمہ: اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں. اس آیت میں صِدِّیقین کا لفظ آیا ہے۔ صدیقین انبیا علیھم الصلاۃُ والسلام کے سچے متَّبعین کو کہتے ہیں جو اخلاص کے ساتھ اُن کی راہ قائم رہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں اس کے معنی اور اس کے درجات بیان کرتے ہیں. چنانچہ امام غزالی رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں: ”صدق 6 معانی میں استعمال ہوتا ہے: (1) گفتگو میں صدق۔ (2) نیت و ارادہ میں صدق۔(3) عزَم میں صدق۔ (4) عزَم کو پورا کر نے میں صدق۔ (5) عمل میں صدق۔ (6) دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان معانی کے اعتبار سے صادقین کے بہت سے درجات ہیں اور جس شخص میں کسی خاص چیز میں صدق پایا جائے تو وہ اسی چیز کی نسبت سے صادق کہلائے گا۔ انبیائے کرام، صدیقین، شہدا، صالحین، ان سب کی اطاعت و فرماں برداری ہی سیدھی راہ ہے اور یہی لوگ بہترین ساتھی ہیں۔
آپ کی تصنیفات: توحید و تصوف، پند و نصائح اور فقہ و تفسیر کے موضوع پر مشتمل جن مفید و گراں قدر کتابوں کو شیخ احمد کبیر سے منسوب کیا جاتاہے، اُن میں چند یہ ہیں، مثلاً برہان موید، حکم رفاعیہ، احزاب رفاعیہ، عقائد رفاعیہ، مجالس احمدیہ، تفسیر سورۃ القدر، شرح تنبیہ، ست، رحیق الکوثر، الوصایا، وغیرہ وغیرہ۔

اللہ کی مخلوق سے آپ کی محبت:
شیخ احمد کبیر علیہ الرحمہ بہت نرم دل تھے اور لوگوں سے بہت محبت فرماتے۔ آپ کی نرم دلی کا یہ حال تھا کی انسان تو انسان چرند و پرند سے بھی محبت فر ماتے اور اُن کے آرام کا خیال فر ماتے تھے۔ اور اُس کے آرام کا ہر ممکن خیال فر ماتے تھے۔ طبقات امام شعرانی میں ہے کہ جو شخص بھی ملتا اُسے پہلے سلام کرتے، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی دیکھتے تو فر ماتے کہ تمھاری صبح اچھی ہو۔ اس تعلق سے دریافت کیا جاتا تو فر ماتے کہ میں اپنے نفس کو اچھے کاموں کا عادی بناتا ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اُن کے جسم پر مچھر بیٹھ جاتا تو اُسے نہ اُڑاتے نہ کسی کو اُڑانے دیتے اور فر ماتے کی اُسے خون پینے دو، جتنا کہ اللہ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ جب دھوپ میں چل رہے ہوتے اور ٹڈی اُن کے کپڑے پر بیٹھ جاتی تو اُس وقت تک سایہ دار جگہ پر ٹھہرے رہتے جب تک ٹڈی سایہ میں بیٹھ نہ جاتی وغیرہ وغیرہ. اللہ ہم سب کو آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین.
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، جمشیدپور(جھارکھنڈ)
09279996221hhmhashim786@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: امام اور مؤذن کی دل آ زاری، بدترین گناہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے