‘وقت کے ساتھ` : رومان اور عصری حسیت کے سنگم میں ایک گمنام جزیرے کی دریافت

‘وقت کے ساتھ` : رومان اور عصری حسیت کے سنگم میں ایک گمنام جزیرے کی دریافت

احسان قاسمی 

مبین اختر امنگ کو بہت بہت مبارک باد. 
مبین اختر امنگ کے شعری مسودہ کی اشاعت کےلئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، دہلی کی جانب سے امسال مالی معاونت کا اعلان کیا گیا ہے۔
ان کے شعری مجموعہ ‘ وقت کے ساتھ` کا مسودہ بہ صورت پی ڈی ایف مجھے حاصل ہوا تو میں نے اس پر اپنے تاثرات کا اظہار ایک مضمون کی شکل میں کیا ہے۔ لیکن ابھی اس کی اشاعت میں کچھ تاخیر ہے۔ اس درمیان مجموعے میں ممکن ہے کچھ تبدیلیاں بھی واقع ہوں۔
میں کوئی ناقد ہوں نہ مبصر، ان کی شاعری کے تعلق سے جو باتیں میرے ذہن میں آئیں، میں نے بطور قاری لکھ دی ہیں۔
ان شاء اللہ یہ شعری مجموعہ نئے سال کے سفر میں آپ کے ساتھ ہوگا۔
مضمون یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ تمام احباب ان کی حوصلہ افزائی فرمائیں اور انھیں مبارکباد پیش کریں۔
٭٭٭
‘وقت کے ساتھ` : رومان اور عصری حسیت کے سنگم میں ایک گمنام جزیرے کی دریافت 

مبین اختر امنگ صوبہ بہار کے شمالی مشرقی سرحدی ضلع کشن گنج کے ایک دور افتادہ گاؤں ‘ بیگنا` سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماضی میں بیگنا ایک بڑی زمین داری تھی۔ اس کے ایک مالک و حصہ دار مبین اختر امنگ کے والد ماجد معین الدین احمد بیگناوی مرحوم بھی تھے۔ معین الدین احمد بیگناوی مرحوم عبدالمنان ابن امین جھومکاوی کے تعاون و اشتراک سے کشن گنج سے ایک ماہانہ ادبی رسالہ ‘ نہار` شائع کیا کرتے تھے جو تقریباً دو برسوں تک جاری رہا۔ وہ رسالہ ‘ نہار` کے نائب مدیر ہونے کے علاوہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ نہار کے جو شمارے فی الحال دستیاب ہیں ان میں سے 1938ء کے ایک شمارے میں ان کے دو افسانوں کی اشاعت ہوئی تھی۔
بیگنا گاؤں نے کئ شاعر بھی دیے ہیں جن میں مولانا غلام محمد یحیی، ظہیر انور، مولانا اسحق عادل بیگناوی، مظہر امام، مبین اختر امنگ اور ڈاکٹر خالد مبشر کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
جناب امنگ نے تلمذ مولانا غلام محمد یحیی مرحوم اور مولانا اسحق عادل بیگناوی سے حاصل کیا۔ گویا کہ شعر و ادب کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور بچپن سے ہی بزرگوں کی صحبت، محبت اور نظرِ عنایت حاصل رہی۔
امنگ صاحب پیشے سے معلم ہیں لہذا پڑھنے لکھنے کا ماحول بھی انھیں بآسانی دستیاب ہے۔
مبین اختر امنگ اردو زبان میں حمد و نعت، نظمیں، غزلیں، گیت اور ماہیے تخلیق کرنے کے علاوہ مقامی سورجاپوری بولی میں بھی طویل عرصہ سے گیت اور نظمیں وغیرہ لکھتے اور مختلف مقامی محفلوں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی آواز میں سوز و گداز، لوچ اور چاشنی ہے۔ لہذا مقامی مشاعروں میں انھیں کافی مقبولیت حاصل ہوتی رہی ہے، خاص طور پر سورجاپوری گیتوں اور نظموں کے حوالے سے۔
‘ وقت کے ساتھ` کے مطالعے کے دوران پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ مبین اختر امنگ بنیادی طور پر ایک رومان پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک رومان انگیز فضا کی بنت ہے جس میں عشق کی تڑپ ہے، حسن اور جوانی کے شوخ رنگ اور بھینی بھینی مسحورکن خوشبو ہے، فراق کا کرب اور وصال کی سرخوشی ہے، محبوب کی بےنیازی، عشوہ طرازی اور بےوفائی ہے، عشق کا جنون اور بےقراری ہے، کبھی یاس و حسرت اور افسردگی تو کبھی جوش و امنگ کے چھینٹے ہیں۔۔۔ گویا قدیم کلاسیکل شاعری کی حسین روایات کی پیروی و پاس داری ہے۔
ایک میں ہوں کہ وفا پر ہے اعتبار امنگ
ایک وہ ہے کہ جفاؤں پہ شرمسار نہیں
مرا غم زدوں میں شمار ہے مجھے آپ کس لیے مل گئے
مرا دل غموں کا مزار ہے مجھے آپ کس لیے مل گئے
ملے جب نظر سے نظر کہیں سرِ راہ عہدِ شباب میں
رہے بس میں ہوش و حواس نہ لگے دل ہی کارِ ثواب میں
یوں تو تدبیر ہم نے کی لیکن
عشق کا روگ لا دوا نکلا
حسن و عشق کی جلوہ نمائی امنگ کی شاعری کا بنیادی عنصر ہونے کے باوجود ان کے اندر عصر حاضر کے سفاک حقائق کا ادراک بہ درجہ اتم موجود نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امنگ کی شاعری قدیم اور جدید روایات کے سنگم پر کھڑی نظر آتی ہے۔ امنگ کا لہجہ دھیما اور پراثر ہے۔ اکثر بڑی بات بھی نہایت معمولی انداز میں کہہ جاتے ہیں۔
بس یہی سن رہا ہوں برسوں سے
زندگی امتحان ہے بھائی
صرف تم ہی کہوگے حالِ دل
میری بھی داستان ہے بھائی
ٹوٹ کر میں جسے چاہتا عمر بھر
دور تک ایسا کوئی بھی چہرہ نہیں
یہیں سے حق و باطل کے سبھی رستے نکلتے ہیں
مجھے یہ دیکھنا ہے میرا دل کس پر مچلتا ہے
دل بھی جھکے، اعضائے بدن اور نظر بھی
سر رکھنا زمیں پر کوئی سجدہ تو نہیں ہے
کچھ نہیں کہنے کو تھا پھر بھی کہا سب ٹھیک ہے
شدتِ غم، تشنگی، کرب و بلا سب ٹھیک ہے
ملکی حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتے ہیں اور سیاسی بازی گری، مذہبی تعصب، غیر رواداری، استحصال و منافرت سے پیدا شدہ حالات کی عکاسی اپنے اشعار میں جا بہ جا کرتے نظر آتے ہیں۔
ان سیاسی درندوں سے بڑھ کر امنگ
ملک میں کوئی وحشی درندہ نہیں
اک دورِ پرفتن ہے یہ میں نے کہا نہ تھا
خطرے میں انجمن ہے یہ میں نے کہا نہ تھا
منصفوں نے ہی مجھے جب حاشیے پر رکھ دیا
اب یہ ظالم دے مجھے جو بھی سزا سب ٹھیک ہے
عصر حاضر میں پوری دنیا خوف و ہراس کا شکار نظر آتی ہے۔ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو ہڑپ جانے کے درپے ہے۔ سیاسی، مذہبی، معاشی اور ذہنی غلامی کی نادیدہ آہنی زنجیروں میں رفتہ رفتہ ہر انسان کو جکڑا جا رہا ہے۔ انسان ہی انسان کے لیے خوف کا استعارہ بن چکا ہے۔
خوف و دہشت کی تصویر بن کر یہاں
آدمی ہے کھڑا آدمی کے لیے
ایک انجان خوف کے ڈر سے
ہم نکلتے نہیں ہیں اب گھر سے
جدھر بھی دیکھیے بس اک دھواں ہے
غبار آلود ساری کہکشاں ہے
شاعر حیران ہو کر خود سے سوال کرتا ہے۔
کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے قتل و غارت جب
امنگ پھر سرحدوں پہ خون کا دریا یہ کیسا ہے ؟
لیکن یہاں تو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی غلام حکومتیں انسانی آزادی سلب کرنے کے درپے ہیں۔
کوئی شکاری گھات لگائے بیٹھا ہوگا راہوں پر
شاخ پہ اک آزاد پرندہ سہما سا کیوں لگتا ہے
امنگ کے دل میں اس سفاک نظام سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ بھی ہے، جذبہ اور امنگ بھی۔ لہذا وہ زمینی خداؤں کو چیلینج کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
کہو زمانے کے دیوتا سے کہ ظلم ڈھائے نہ اور ہم پر
ابھی رگوں میں ابلتا خوں ہے ابھی جوانی گئ کہاں ہے؟
ترے آگے سر اپنا کیوں جھکاؤں
تو کیا کوئی مرا اللہ میاں ہے ؟
تو بھی ہے ایک آدمی سراپا ایک آدمی
تو کب سے بن گیا خدا، جو کہہ دیا تو کہہ دیا
حکومتیں عوام کے دلوں کے درمیان پھوٹ ڈال کر اپنی آمریت کو استحکام بخشتی ہیں۔
وہ چاہتے ہیں الگ رہیں ہم کبھی بھی باہم نہیں ملیں ہم
وہ جانتے ہیں کہ ایکجہتی ہی فتح کی جڑ ہے اور جاں ہے
اس کے باوجود ہمارے درمیان ہی ایسے افراد بھی موجود ہیں جو بہ آسانی ان کے جھانسے میں آ جایا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی نہ کسی طرح کے لالچ میں مبتلا ہو کر ظالموں کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جایا کرتے ہیں۔
؂ جس سے امید نہ تھی وہ بھی نہ جانے کیوں کر
زر ، زمیں ، زن کے لیے سر کو جھکا دیتا ہے
اس صورت حال میں پورے معاشرے کا یہ فرض بنتا ہے کہ ایسے تخریب کار اور شرپسند عناصر پر لگام لگانے کی قواعد تیز کی جائے۔
تم بھی جل جاؤگے شعلوں کے بھڑک جانے سے
اس کو روکو ، وہ شراروں کو ہوا دیتا ہے
منافق دوست سے بہتر کھلا دشمن ہوتا ہے۔
دشمن سہی وہ خیر سے تجھ سا تو نہیں ہے
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا تو نہیں ہے
ان سب کے باوجود شاعر ایسے لوگوں کی اصلاح کے بعد انھیں معاف کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے کیونکہ راہ سے بھٹکے ہوئے لوگ بھی ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہیں۔
بجائے اُس کی خطاؤں کو ہم یہ دیکھیں امنگ
وہ اپنے جرم پر خود شرمسار ہے کہ نہیں
لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دینا احسن طریقہ ہے۔ اس سے معاشرے میں آپسی محبت و بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوتا ہے، ورنہ… 
آتشِ نفرت جلا ڈالے گی ہر شاخِ چمن
دو دلوں کے درمیاں جب فاصلہ ہو جائے گا
اس پرفتن اور مشکل دور میں جب اتحاد و اتفاق کی سخت ضرورت تھی ملت کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔ اس المیہ کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم سے کب، کیسے اور کہاں چوک ہوئی ؟؟ اس بربادی کے آغاز سے قبل کوئی اشارہ ملا تو ہوگا، خطرے کی گھنٹی بجی تو ہوگی۔
ہم سے ہی ہوگئ چوک شاید امنگ
وقت آیا تو تھا کچھ اشارے لیے
وقت کے ساتھ دو نسلوں کے درمیان کی دوری لگاتار بڑھتی جا رہی ہے جو ہمارے معاشرے کےلیے باعثِ تشویش ہے۔
ٹوٹ کر ایسے بکھرتے جا رہے ہیں آج ہم
جیسے رشتہ ہی نہ ہو برگ و شجر کےدرمیاں
آج ملت کی حالت زار یہ ہے کہ
ہر طرف اک عجب حشر برپا ہے کیوں
غم میں ڈوبا ہوا چہرہ چہرہ ہے کیوں
معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسانی ذہنیت کا عکاس ہوتا ہے۔ شاعر اس معاشرے کو آئینہ دکھانا چاہتا ہے. 
ہوں مثل آئینہ سو آئینے کو
میں آئینہ دکھانا چاہتا ہوں
لیکن معاشرے کو آئینہ دکھانا آسان ہے کیا؟ اس عمل میں سقراط کی طرح زہر کا پیالہ بھی ہونٹوں سے لگانا پڑ سکتا ہے۔ موجودہ دور تو اور زیادہ خطرناک ہے۔ آئینہ دکھانے والوں کو جان، مال، عزت، آبرو ہر شے کے زیاں کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ لاحق ہے۔ تو کیا خوف و دہشت کے مارے مجرمانہ خموشی اختیار کر لی جائے؟
شاعر کا خیال اس کے برعکس ہے۔
گو بلائیں ٹالتی ہے خامشی
پر ثوابِ حق بیانی اور ہے
شاعر فقیر ہے، صوفی منش ہے ۔۔۔۔ وہ تو بس معاشرے کا بھلا چاہتا ہے، ملک و قوم کی ترقی چاہتا ہے، ساری دنیا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا خواہاں ہے۔
ایک ہی آواز ہر سو بارہا دیتے رہے
ہم فقیرِ وقت ہیں سب کو دعا دیتے رہے
امنگ کی شاعری میں محض خوبیاں ہی خوبیاں بھری ہوں ایسا قطعاً نہیں ہے۔ یہ پوری کائنات مثبت اور منفی کے میل سے بنی ہے۔ امنگ نہ تو اہلِ زبان ہیں اور نہ میر و غالب۔ ان کی سب سے بڑی حصولیابی یہ ہے کہ وہ دہلی، لکھنؤ، دکن یا عظیم آباد جیسے کسی بھی دبستانِ ادب سے دور بہت دور واقع ایک ایسے گاؤں میں بیٹھ کر اردو زبان میں شاعری کر رہے ہیں جہاں تک موسمِ برسات میں پہنچتے پہنچتے بڑے سے بڑا شاعر اپنی ساری شاعری بھول بیٹھے۔ اس کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مبین اختر امنگ کو مزید مطالعہ اور عصر حاضر کی شاعری کے ٹرینڈ سے واقفیت حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ اس سے انھیں الفاظ کے صحیح انتخاب، گہرائی اور تہہ داریت سے واقفیت اور نئ معنویت سے آشنائی حاصل ہوگی اور وہ اپنے پیغام کو بہتر ڈھنگ سے پیش کر سکیں گے۔
اسی امید پہ کالا کیا ہے میں نے کاغذ کو
مرا لکھا ہوا شاید کسی کے کام آجائے
***
احسان قاسمی کو مزید یہاں پڑھیں: وجدان کتاب میلہ اور کُل اتر دیناج پور مشاعرہ کا انعقاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے