گنگا کنارے_ یادوں کا سفر

گنگا کنارے_ یادوں کا سفر

تحریر: ڈاکٹر عذرا نقوی
انتخاب : ظفر معین بلے جعفری

گنگا کی لہروں پہ پھیلی لال شفق کی چنری
ٹیلے اوپر گاؤں اوڑھے دھندلی سوتی شام
سادھو برگد کے سائے میں، مسجد کرے تیمم
گھر دوارے کھلیان میں ڈولے ایک اذان ترنم
پیپل تلے، پرانے مندر میں، پوجا کے پھول
قبرستان میں کھڑے ہوئے ہیں بیری اور ببول

یہ میری ایک نظم کے چند مصرعے ہیں جن میں یوپی کے ضلع فرخ آباد میں، گنگا کنارے بسے ہوئے میرے ننھیالی گاؤں، داعی پور کی یادیں ایک بھولی بسری شام کی منظر میں ڈھل گئی ہیں۔ کہاں سے شروع کروں اس دیار کی بات جو بچپن میں ہمارے لیے ایک طلسمی سی جگہ تھی جہاں ہم چھٹیاں گذارنے جایا کرتے تھے۔ گنگا کنارے ایک ٹیلے پر ہمارا ننھیالی گھر تھا۔ باہر مردانہ مکان ایک طویل کمرے، اور اس کے سامنے کھپریل کی چھت والے برآمدے اور اس سے ملحق مسجد پر مشتمل تھا۔ برآمدے اور کمرے کی ایک کھڑکی گنگا کے رخ کھلتی تھی جہاں سے گنگا دن کے مختلف پہروں میں روپ بدل بدل کر اپنی چھب دکھلاتی تھی۔ مردانے گھر کے سامنے ایک اینٹوں کا چبوترہ گھنے نیم کے پیڑ کے نیچے سکون سے بسیرا کرتا تھا۔ کافی دور، ایک اور گھنے درخت کے نیچے بھینسوں اور بیلوں کا ٹھکانہ تھا۔ ڈیوڑھی پار کرکے زنانہ مکان تھا. کچھ کچا اور کچھ پکا تھا۔ گنگا کا نظارہ کرنے کے لیے عورتوں اور لڑکیوں کو چھت پر جانا ہوتا تھا جس کی اجازت کم ہی ملتی تھی۔ لیکن اکثر چاندنی راتوں میں گھر کی خواتین اور بچیاں گنگا میں جاکر پانی میں کھیلتیں، نہاتیں بھی تھیں۔ اس وقت گا ؤں کا کوئی مرد یا لڑکا وہاں پھٹکتا بھی نہ تھا، کیونکہ میاں کے گھر کی عورتیں جو آئی ہوئی ہوتیں۔ ہمارے نانا گاؤں میں میاں کے نام سے جانے جاتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب ہم اپنے گھر کے اونچے ٹیلے سے گنگا تک جانے کے لیے اترتے تھے تو پیپل کا ایک گھنا درخت ملتا تھا، جس کے نیچے ایک چھوٹا سا مندر تھا، مندر کیا تھا بس چند اینٹوں سے گھری لپی پتی زمین پر ایک مورتی تھی، جس پر ہمیشہ گیندے کے پھول موجود رہتے، شام کو دیا بھی جلتا تھا۔ مغرب کی اذان کی آواز، یہ جلتا دیا، اور گنگا پر پھیلی ہوئی شفق سب کچھ مل کر سحر آگیں سی سماں لگتا تھا جو آج تک میرے ذہن و دل پر نقش ہے۔
ہمارے خاندانی شجرے کے مطابق ہمارے نانا کے آبا و اجداد، ترمذ سے ہندستاں آئے تھے۔ وہ امام زین العابدین کے صاحب زادے حسین اصغر کی اولاد میں سے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے نانا کے مورث اعلا سید حسن بندگی سولھویں صدی میں ہندستان آئے تھے، فرخ آباد اور کان پور کے درمیان قنوج سے تھوڑی دور قیام کیا اور یہاں ایک خانقاہ تعمیر کی۔ آس پاس کے رہنے والوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا، اور ان کے علم سے فیض یاب ہونے لگے۔یہ خانقاہ آج بھی اجڑی ہوئی شکل میں داعی پور میں موجود ہے۔ بچپن میں داعی پور کا سفر اپنی جگہ ایک ایڈونچر ہوتا تھا۔ علی گڑھ سے کان پور جاتے تھے ٹرین سے، پھر چھوٹی لائن والی ریل میں بیٹھتے تھے، ارول مکن پور کے اسٹیشن پر اترتے تھے، جہاں ٹرین صرف ایک یا دو منٹ ٹہرتی تھی، وہاں سے اپنے گھر تک کاسفر بھی بہت دل چسپ ہوتا تھا۔ ہمارے ننہال کے خاندان کے ایک منتظم اعلا تھے جن کو ہم نذیر ماموں کہتے تھے، وہ بہلی یا بیل گاڑی میں رنگین چھپی ہوئی چادروں کے پردے بندھوا کر لاتے تھے، یہ چادریں جازم کہلاتی تھیں۔گاڑی میں کچھ موٹے موٹے گدے بھی بچھوا دیتے تھے تاکہ راستے کے ہچکولوں سے پریشانی نہ ہو۔ ہم لوگ پردے اٹھا اٹھا کر راستے بھر جھانکتے رہتے۔ اسٹیشن سے کچھ دور تو پکی سڑک تھی، پھر گاؤں جانے کے لیے کھیتوں کے درمیان سے گذرتا ہوا کچا، اوبڑ کھابڑ راستہ تھا۔ راستے میں جب پرانی خانقاہ نظر آتی تو گویا یہ اشارہ تھا کہ اب گھر قریب آگیا ہے۔ یہی ہمارے خاندان کے مورث اعلا سید حسن بندگی کی خانقاہ تھی۔ گاؤں کے اطراف کھیتوں میں کام کرتے ہوئے لوگ پیار سے نذیر ماموں سے کہتے ”اچھا بیٹیا اور بچے آئین ہیں، کاہے، مہمان نہیں آئے“ مہمان یعنی ہمارے ابا جان، مہمان یوپی کے گاؤوں میں داماد کو کہا جاتا ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ ایک بار نذیر ماموں ہمیں اسٹیشن لینے آئے تو سفید براق دھوتی اور ململ کا کرتا پہن کر آئے، پکے لالہ جی لگ رہے تھے۔ ہمیں بہت عجیب لگا، وہ گھر عموما کرتہ پاجامہ پہنتے تھے، خاص موقع پر شیروانی پہنتے، ہم سوچ میں پڑ گئے کہ یہ وہ ہی نذیر ماموں ہیں کیا کوئی اور ہے۔ ہمارے ان ماموں کی شخصیت بھی خوب تھی، گاؤں والوں کے ساتھ پوربیا بولتے، گھلے ملے رہتے، آتے جاتے کسی گاؤں کی کسی بھوجائی یا چاچی سے، بے ضرر سا مذاق کرتے، کسی کاہل لڑکے کو ڈانٹتے پھٹکارتے، گھر اور کھیتی باڑی کا کام سنبھالے رہتے۔ جب کوئی معزز شہری مہمان آتا تو نہایت گاڑھی اردو میں نستعلیق قسم کی گفتگو بھی کرتے تھے، محرم میں وہ اپنی پاٹ دار آواز میں مرثیہ پڑھتے۔ وہی ہم لوگوں کے لیے جھوا یعنی ٹوکری بھر بھرکر ککڑیاں، کھیرے، خربوزے لاتے، بڑے بڑے تربوز کندھے پر رکھ کر لاتے۔ ہاں یاد آیا، ہمارے گھر میں تربوز نہار منہ کھانے کا رواج تھا۔ ماموں ہی بچوں کو بھڑبھونجے کی دکان پر لے جاتے جہاں گرم ریت میں چنے اور مکئی کے دانے بھنواتے۔ گاؤں کی گلیوں کی سیر ہمارے بھائیوں کی قسمت میں زیادہ لکھی تھی۔ دس بارہ سال کی عمر میں لڑکیوں کو یوں گاؤں میں گھمانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ گاؤں میں ہمارے گھر کے اطراف چھپر کی چھت والے، گوبر اور چکنی مٹی سے لپے پتے چھوٹے چھوٹے گھر تھے، جن کے سامنے نیم یا بکائن کے درختوں کے نیچے گائے یا بھینس بندھی ہوتی تھی۔ چھپر سے ایک لالٹین لٹکی ہوتی تھی، جانے دیجیے ان یادوں کی گلیوں میں نکل گئی تو جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاؤں گی۔
ہمارے گنگا کنارے اس گاؤں میں مخلوط آبادی تھی، وہان مسلمان درزی، ہندو کوری یعنی کپڑا بننے والے، ہندو کاچھی یعنی سبزی اگانے والے رہتے تھے، ہمارے گھر سے کچھ دور، قبرستان کے بعد کچھ اور آبادی تھی جہاں مسلمان مالی اور بنجارے رہتے تھے۔ لیکن ہمارے گھر کی محرم کی مجالس میں سب شامل ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ داعی پور میں دیوالی پر رامیشور چچا کے گھر سے بید سے بنی رنگین ڈلیوں میں بھر کر، کھیلیں، بتاشے اور شکر کے بنے ہوئے کھلونے آتے تھے جو ہم بہت شوق سے کھاتے تھے۔ شکر کے یہ کھلونے، رتھ، اور مورتیوں وغیرہ کی شکل کے بنائے جاتے تھے۔ ہولی پر گاؤں والے ہولی ملنے آتے تھے، بزرگوں کے پاؤں میں تھوڑا سا گلال لگاتے تھے، گاؤں میں کہیں دور، بھنگ پی کر خوب ناچ گانا ہوتا تھا، ڈھول کی آوازیں آتی تھیں، لیکن ہم لوگوں کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔ محرم کی ساتویں تاریخ کو گاؤں کی ہندو خواتین، علم سے چھوا کر منت کا لال دھاگا اپنے بچوں کو پہناتی تھیں، شام کو نانے بابا جب مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر نکلتے تو اکثر کوئی نہ کوئی عورت اپنے کسی بیمار بچے کو لیے کھڑی ہوتی کہ میاں اس پر دم کردیں گے، تو وہ اچھا ہو جائے گا۔ یہ بھی کمال کی بات تھی کہ ہمارے نانا کے استری کلف والے کپڑے جو دھوبی کے گھر سے دھل کر آتے تھے، ان کو گنگا میں تین بار غوطہ دیے کر پاک کیا جاتا تھا۔
ہماری امی سیدہ فرحت بتاتی تھیں کہ تقسیم ہند کے وقت، فسادات کے دوران، دہلی سے ہماری خالائیں اور دیگر خواتین داعی پور بھیج دی گئی تھیں، گاؤں والوں نے پورا یقین دلایا کہ میاں کے گھر پر کوئی ٹیڑھی نظر بھی نہیں ڈال سکتا، اور یہ ہی ہوا۔ سب امن و امان رہا۔ گنگا کنارے ہمارے اس گاؤں میں کوئی برات آتی یا جاتی تھی تو دولہا، سج دھج کر میاں کے دروازے پر سلام کرنے آتا، نانے بابا اس کو دعا دیتے، سلامی کے روپے دیتے یہ روایت ہم نے اپنے بچپن تک دیکھی تھی۔ ایک بار کوئی بارات جارہی تھی، دولہا نئے زمانے کا تھا، اس سے کہا میں کیوں کسی کے دروازے سلام کرنے جاؤں، یہ سن کر ہمارے نانا بابا خود چل کر اس کے گھر گئے، اور اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔ سلامی کے روپے دیے، اس نے جھک کر پیر چھوئے۔ حالانکہ نانے بابا پیر چھوانے سے بہت گھبراتے تھے۔
ان یادوں میں ہر کردار اپنی جگہ بہت اہم ہے، ایک عہد کی تاریخ کے منظر نامے کی ایک اہم تصویر ہے لیکن ایک بہت منفرد، دل چسپ شخصیت تھی ہمارے بڑ ے بابا کی۔ بچپن کی یادوں کی طلسمی دنیا سے، باہر نکل کر اب سوچتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑے بابا، تو جیتے جی ہی ایک داستان کا کردار لگتے تھے۔ ان کی یادوں کے بہت سے مونتاژ ہیں جن کو جوڑ کر ایک تصویر بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ہم نے بڑے بابا کو اپنے بچپن میں ذرا کمر خمیدہ ہی دیکھا تھا۔ اس زمانے میں تصویریں کھنچوانے کا رواج تو زیادہ نہیں تھا، لیکن ان کی جوانی کی ایک دھندلی سی تصویر تھی جس میں وہ شان سے ایک کرسی پر شیروانی پہنے براجمان ہیں، پیچھے جازم کا پردہ تانا گیا ہے، جازم چھپی ہوئی رنگین چادر ہوتی تھی جو اس زمانے میں درمیانی طبقے کے خاندانوں میں فوٹو لیتے وقت، پیچھے بیک ڈارپ کا کام کرتی تھی. جب ہم نے، اپنے کالج کے زمانے میں خواجہ احمد عباس کی فلم "آسمان محل"  دیکھی جس میں پرتھوی راج کپور نے، ایک زوال پذیر نواب کا کردار نبھایا تھا، تو ہمیں اور ہمارے دیگر کزنز کو یہ لگا کہ جیسے بڑے بابا اپنی جوانی میں کچھ ایسے ہی رعب داب والے ہوں گے۔ اب بھی وہ بہت گرج دار آواز والے تو تھے ہی۔
مردانہ مکان کے برآمدے کے ایک سرے پر بڑے بابا کا تخت رہتا تھا۔ اس کے سامنے والی الماری میں ان کی کچھ کتابیں، کاغذات، وغیرہ۔ یہ تخت ان کی آماجگاہ تھا، صرف کھانے ناشتے کے وقت اندر زنانے میں جاتے تھے، ڈیوڑھی سے کھنکارتے ہوئے۔ گھر کی لڑکیاں بالیاں، سر  ڈھک لیتی تھیں۔ حالانکہ وہ بہت سخت گیر نہیں تھے لیکن رعب داب تو بزرگوں کا ہوتا ہی تھا۔ لیکن ہمارے رشتے کے ایک ماموں رضا مہدی، جو ہمارے ہم عمر ہی تھے اور بچپن کا ایک بڑا حصہ انھوں نے بڑے بابا کے ساتھ گذارا تھا، وہ تو گویا ان کے خاص دوست تھے۔
ہماری امی بتاتی تھیں کہ بڑے بابا ان کے تایا ہیں، ان کی شادی یوپی کے ایک تعلقدار خاندان میں ہوگئی تھی۔ ان کی بیوی اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھیں، صاحب جائداد تھیں، تو طے یہ ہوا تھا کہ وہ اپنی سسرال میں ہی رہیں گے۔ تعلقدار گھرانے کے طور طریق بڑے بابا کی آزاد اور سادہ طبیعت کو راس ہی نہیں آئے۔ مال و دولت کا انھیں لالچ نہیں تھا۔ خدا کاکرنا یہ ہوا کہ ان کی بیوی اپنے دوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد چل بسیں۔ بچوں کو نانی نے پالا پوسا، اور بڑے بابا، اپنے آبائی گاؤں داعی پور چلے آئے اور آخر وقت تک وہیں رہے۔
اسکول کالج کی شکل انھوں نے کبھی نہیں دیکھی، لیکن اردو فارسی پر پوری دست رس، اردو سے زیادہ فارسی شاعری کے دل داہ، اور فردوسی کے شاہنامے سے تو گویا انھیں عشق تھا۔ پورا زبانی یاد تھا، اور انھوں نے اس کا منظوم ترجمہ اردو میں بھی کیا تھا۔ اور کمال یہ ہے کہ جس بحر میں فردوسی نے لکھا تھا، اسی بحر میں منظوم ترجمہ تھا۔ ان کے عم زاد بھائی ڈاکٹر عابد حسین نے اسے مکتبہ جامعہ سے شائع بھی کروایا تھا۔ مگر افسوس کہ تقسیم ہند کے پُر آشوب دور میں جب قرول باغ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی عمارات اور لائبریری اور مکتبہ جامعہ کو فسادیوں نے نذر آتش کیا تو اور بہت سی بیش بہا کتابوں کے ساتھ یہ ترجمہ بھی جل کر خاک ہوگیا۔ لیکن بڑے بابا کے پاس اس کا قلمی نسخہ، خود ان کی بیش بہا خوش خطی میں موجود تھا۔ اس کے بعد ان کی زندگی کا ایک خاص مشغلہ یہ تھا کہ اس بوسیدہ مسودے میں ترمیمات اور تصحیح کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی چھوٹی سی قینچی سے سفید کاغذ کے، اس مسودے میں لکھے اشعار کے مصرعوں کے سائز کے پرزے کاٹ لیے تھے۔ جس پر وہ تصحیح شدہ مصرع، سرکنڈے کے قلم سے لکھ کر بہت صفائی سے چپکا دیتے تھے۔ وہ خود بھی شاعری کرتے تھے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو سعادت حاصل ہوتی تھی کہ وہ ان کا کلام سنیں۔ بڑے بابا کا تخلص، حشم تھا، جو ان کی شخصیت سے میل کھاتا تھا۔ اردو شاعری میں وہ میرؔ کے معتقد تھے۔ کہتے تھے کہ یہ کیا ہر وقت غالب غالب کا چرچا ہے، وہ کہتے کہ یہ دیکھو تمھارے غالب صاحب نے کیا کہا ہے۔”ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب، ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا“ لا حول ولا قوۃ کیا پیپنی بجائی ہے….. پا پایا۔ پھر وہ میر کے سہل ممتنع والے اشعار سناتے۔
جب ہم نے انھیں دیکھا اس وقت بڑے بابا گھر کی مجالس عزا میں خود تحت الفظ مرثیے نہیں پڑھتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی پڑھتے تھے، اور اکثر شدت گریہ سے مغلوب ہوجاتے تھے تو بڑے بابا خفا ہوجاتے، کیا عورتوں کی طرح رونا دھونا کر رہے ہو، میاں مردوں کی طرح پڑھو۔ ایک بار مجھے یاد ہے کہ ہمارے نوجوان رضا ماموں کو میر انیس کا مشہور مرثیہ، گھر کی ایک مجلس عزا میں پڑھنے کے لیے منبر پر بٹھایا گیا، یہ بھی تربیت کا ایک حصہ تھا۔ یہ بتاتی چلوں، کہ گھر کی اس مجلس میں گھر کے مرد، عورت اور بچے ہوتے تھے، اور باہر برآمدے میں گاؤں کی کچھ غیر مسلم عورتیں اور مرد بھی بیٹھ کر سنتے تھے۔ سات محرم کو یہ عورتیں اپنے بچوں کو منت کا دھاگا پہناتی تھیں. علم کے نیچے سے نکالتی تھیں۔ اس لیے نذیر ماموں، نجم آفندی کے تصنیف کردہ، اودھی زبان کے نوحے بھی پڑھتے تھے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی، رضا ماموں کے مرثیہ پڑھنے کی، انھوں نے پہلا ہی مصرع پڑھا۔ نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری، ان کی آواز ذرا کم زور سی تھی۔ وہیں فرش عزا پر بیٹھے بڑے بابا سے نہ رہا گیا۔ ”امے، میاں یہ کیا، عورتوں کے سے انداز میں پڑھ رہے ہو“، نقل اتارکر خود عورتوں کی سی آواز بنا کر مصرع پڑھا اور پھر گرجدار آواز میں پڑھ کر بتایا کہ یوں پڑھو۔
رضا ماموں کو اور اپنے ملازم کے چھوٹے بیٹے مودو کو، جسے وہ اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے، تحت الفظ مرثیہ پڑھنا یوں سکھاتے تھے، ”دیکھو! یہ مصرع ہے،” تسلیم کی، فرس پہ چڑھے، باگ لی، چلے“ وہ ہر ہر لفظ کی ادائیگی واضح طور کرتے، اس سے متعلق ہاتھوں کی حرکات سے بھی لفظ کی ترجمانی کرتے تھے، پوری اداکاری کے ساتھ۔ ان کے ملازم مودو کا ذکر آیا تو ایک دل چسپ قصہ یاد آگیا۔ مودو کو وہ فردوسی کا شاہنامہ بھی سنایا کرتے تھے اور یاد کروانا چاہتے تھے، اس بے چارے نے کچھ اشعار یاد بھی کرلیے تھے، ایک دن مودو، برآمدے کے کونے میں بیٹھا ان کے حقے کی چلم بھر رہا تھا، شاہنامے کابند پڑھنے لگا ”چو فردو بے تابد، بلند آفتاب۔ من و گرز و میدان و افراسیاب“ اور فورا ہی اپنی ترنگ میں گانے لگا. ”جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے، آجا مورے بالما تیر ا انتظار ہے“۔ اوہو! بڑے بابا کا غصہ دیکھنے قابل تھا۔ گالی گلوج وہ کبھی نہیں کرتے تھے۔ ”نامعقول! لاحول ولا قوۃ۔ جاہل مطلق، فردوسی کے شاہنامہ کے ساتھ یہ لچر گانے۔ واہیات۔“ واہیات ان کا تکیہ کلام تھا۔
یہ نہیں کہ بڑے بابا صرف شاہنامے اور شاعری میں ڈوبے رہتے تھے۔ نماز و روزے کے پابند تھے۔ بچوں سے بھی خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ رضا ماموں کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے پتنگ بناتے تھے۔ ان کے ساتھ اڑاتے تھے، اللہ میاں سے ان کا تعلق تو جیسے دوستانہ تھا۔ ایک بار جاڑے کی سہ پہر کو رضا ماموں کے ساتھ پتنگ اڑا رہے تھے۔ عصر کی نماز کا وقت تنگ تھا، کسی نے کہا میاں نماز کا وقت نکل جائے گا، مگر وہ پتنگ کے کسی داؤ پیچ میں الجھے تھے، نماز کی بھی فکر تھی، ڈھلتے سورج کی طرف دیکھ کر کہتے جاتے ” آج اللہ میاں کو بھی جلدی ہے، ذرا رک کے سورج ڈھل جاتا کو کوئی مضائقہ تھا“۔ایک بار بہت تیز ہوا چل رہی تھی، ان کی ٹوپی اڑی جارہی تھی، وہ نماز پڑھنے جا رہے تھے۔ بس روٹھ گئے اپنے اللہ میاں سے ” اچھا اب آپ ہوا ہی چلا لیں، ہم نہیں پڑھتے ابھی نماز۔ جیسی آپ کی مرضی“ ۔
وہ بہت سی باتوں میں اپنے وقت کے بزرگوں کے مقابلے میں بہت روایت شکن تھے، میری والدہ سیدہ فرحت کا بچپن ہی سے شاعری کی طرف رجحان تھا۔ ہماری امی کی دادی کو بہت پریشانی رہتی تھی کہ لڑکیوں کو شاعری وغیرہ سے کیا لینا دینا۔ لیکن بڑے بابا ہی تھے جنھوں نے  امی کی ہمت افزائی کی۔ امی بتاتی ہیں کہ ایک بار ذکر ہو رہا تھا کہ خاندان میں ابنارمل بچہ پیدا ہوا ہے۔ بڑے بابا بہت غصے سے بولے اور کرو خداندان میں آپسی رشتہ داریوں میں شادیاں، ایسے بچے تو کیا، بم کے گولے نہیں پیدا ہوں تو حیرت ہے۔“
گنگا کنارے بسے اس گاؤں سے اب رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔ اب ایک عرصہ ہوا وہاں جانا ہی نہیں ہوا، پورا خاندان ہی بکھر گیا، ہمارے گھر کے ایک پرانے ملازم کا بیٹا جس کو نانا بابا نے کچھ زمین دے دی تھی، اب بھی وہاں تربوز اگاتا ہے، وہ جب دہلی اپنے تربوز ٹرک میں لاد کر منڈی میں لاتا ہے تو، کم از کم اپنے موبائل سے فون ضرور کرلیتا ہے۔ گاؤں کا نقشہ یقینا بدل گیا ہوگا، لیکن ہمارے دلوں میں تو وہی گنگا کے کنارے بسا ہمارا طلسمی سا گاؤں ہے۔ ایسے یادوں کے نگر آپ کے دل میں بھی بسے ہوں شاید ۔ —***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ڈاکٹر توصیف تبسم : قادرالکلام شاعر اور ممتاز اسکالر از ظفر معین بلے جعفری 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے