ڈاکٹر توصیف تبسم : قادرالکلام شاعر اور ممتاز اسکالر

ڈاکٹر توصیف تبسم : قادرالکلام شاعر اور ممتاز اسکالر

اظہاریہ اور انتخابِ کلام: ظفر معین بلے جعفری

ڈاکٹر توصیف تبسم منجھے ہوئے قادرالکلام  شاعر، کہنہ مشق ادیب، ممتاز اسکالر اور معروف دانشور ہیں. نظم اور غزل دونوں مقبول اصنافِ سُخن میں انھوں نے طبع آزمائی کی اور شاہکار ادب تخلیق کیا ہے. ان  کا شمار  معتبر ناقدین اور ادبا  میں کیا جاتا ہے۔ دنیائے  اردو ادب میں  ان کا تذکرہ تعظیم و تکریم کے ساتھ  کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر توصیف تبسم  بلاشبہ اردو ادب کا اثاثہ ہیں  اور ان کا کلام  ہمارا گراں قدر سرمایہ۔”ہتھیلی پر لکھی نظمیں" ڈاکٹر توصیف تبسم کی شاہکار نظموں کا مجموعہ ہے۔ اور یہاں ان کے شعری مجموعے ” کوئی اور ستارہ" کا تذکرہ نہ کرنا یقیناً کوتاہی ہوگی. 

ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے حلقۂ احباب بلکہ مقربین خاص میں سے ہیں اور اس توسط سے ہم اپنا شمار ان خوش نصیبوں میں کرتے ہیں کہ جو مسلسل ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کی دعاٶں سے براہ راست فیض یاب ہوتے ہیں۔ ہمارا ان سے فون پر مسلسل رابطہ رہتا ہے اور وہ ہمیشہ ہمیں اپنی انمول دعاؤں سے نوازتے ہیں اور اپنی ادبی زندگی کے رفیق قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور ان کی ادبی و ثقافتی خدمات کو شان دار الفاظ اور انداز میں خراج پیش کرتے ہیں۔ ان کی حسین یادوں اور باتوں میں ہمارے بابا سائیں سید فخرالدین بلے کا انتہائی احترام کے ساتھ تذکرہ سن کر ہمیں ہمیشہ یاد آتا ہے کہ ہمارے والد تو خود ڈاکٹر توصیف تبسم کا بے حد احترام فرماتے تھے اور ہمیشہ توصیف بھائی صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے اور ان کی تخلیقات کا بھر پور تجزیہ فرمایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر توصیف تبسم کے فن اور شخصیت کے حوالے سے نوید صادق صاحب نے کارواں کا خصوصی شمارہ مرتب کیا ۔
ہمیں یاد نہیں کہ ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب سے دوران گفتگو انھوں نے آنس معین کے شعری تیور کے حوالے سے بات نہ کی ہو.

ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کا اصل نام محمد احمد توصیف، جب کہ تخلص توصیف ہے۔ 3؍ اگست 1928 کو بدایوں کے ایک قصبہ سہسوان میں پیدا ہوئے۔تقسیم ہند کے بعد راول پنڈی آگئے۔ گورڈن کالج، راول پنڈی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ ’’منیر شکوہ آبادی‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نظم بھی کہتے ہیں مگر غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ 1952 سے باقاعدہ مقتدر ادبی رسائل میں آپ کا کلام چھپ رہا ہے۔ ان کی شناخت ایک مبصر کی حیثیت سے بھی ہے۔’’کوئی اور ستارہ‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ چھپ گیا ہے جس پر علامہ اقبال ہجرہ ایوارڈ ملا۔ ’’مثنویات دہلی کا تہذیبی و معاشرتی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ چکے ہیں.

آج کل کراچی کے علاوہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جاڑے نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب اسلام آباد میں جاڑے کے نمونیا میں مبتلا ہیں۔ دعا فرمائیے پروردگار عالم انھیں صحت و سلامتی عطا فرمائے آمین.
آخر میں پیش خدمت ہے جناب ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کی چند شاہ کار غزلیں اور ایک نظم.

(1) غزل: توصیف تبسم

دل کی بات نہ مانی ہوتی عشق کیا کیوں پیری میں
اپنی مرضی بھی شامل ہے اپنی بے توقیری میں

درد اٹھا تو ریزہ دل کا گوشۂ لب پر آن جما
خوش ہیں کوئی نقش تو ابھرا بارے بے تصویری میں

قید میں گل جو یاد آیا تو پھول سا دامن چاک کیا
اور لہو پھر روئے گویا بھولے نہیں اسیری میں

جانے والے چلے گئے پر لمحہ لمحہ ان کی یاد
دکھ میلے میں انگلی تھامے ساتھ چلی دل گیری میں

طوق گلے کا پاؤں کی بیڑی آہن گر نے کاٹ دیے
اپنے آپ سے باہر نکلے زور کہاں زنجیری میں

شکر ہے جتنی عمر گزاری نان و نمک کی فکر نہ تھی
ہاتھ کا تکیہ خاک کا بستر حاصل رہے فقیری میں

(2) غزل: توصیف تبسم

سنو کوی توصیف تبسم اس دکھ سے کیا پاؤ گے
سپنے لکھتے لکھتے آخر خود سپنا ہو جاؤ گے

جلتی آنکھوں جوالا پھوٹے خوشبو گھل کر رنگ بنے
دکھ کے لاکھوں چہرے ہیں کس کس سے آنکھ ملاؤگے

ہر کھڑکی میں پھول کھلے ہیں پیلے پیلے چہروں کے
کیسی سرسوں پھولی ہے کیا ایسے میں گھر جاؤ گے

اتنے رنگوں میں کیوں تم کو ایک رنگ من بھایا ہے
بھید یہ اپنے جی کا کیسے اوروں کو سمجھاؤ گے

اب تو سحر ہونے کو آئی اب تو گھر کو لوٹ چلو
چاند کے پیچھے پیچھے جتنا بھاگو گے گہناؤ گے

دل کی بازی ہار کے روئے ہو تو یہ بھی سن رکھو
اور ابھی تم پیار کرو گے اور ابھی پچھتاؤگے

(3) غزل : توصیف تبسم

مرتے مرتے روشنی کا خواب تو پورا ہوا
بہہ گیا سارا لہو تن کا تو دن آدھا ہوا

راستوں پر پیڑ جب دیکھے تو آنسو آ گئے
ہر شجر سایہ تھا تیری یاد سے ملتا ہوا

صبح سے پہلے بدن کی دھوپ میں نیند آ گئی
اور کتنا جاگتا میں رات کا جاگا ہوا

شہر دل میں اس طرح ہر غم نے پہچانا مجھے
جیسے میرا نام تھا دیوار پر لکھا ہوا

زیست کے پر شور ساحل پر گئے لمحوں کی یاد
جس طرح سایہ ہو سطح آب پر ٹھہرا ہوا

غم ہوئے وہ آشنا چہروں کے آئینے کہاں
شہر ہے سارے کا سارا دھند میں لپٹا ہوا

وصل کے بادل ذرا تھم حسن قامت دیکھ لوں
پیاس کا صحرا تو ہے تا‌ چشم تر پھیلا ہوا

مجھ کو آشوب حکایت جان لینے کی ہوس
اور یہ تیرا بدن اک داستاں کہتا ہوا

غم جو ملتا ہے تو اے توصیفؔ سینے سے لگاؤ
کس نے لوٹایا ہے یوں مہمان گھر آیا ہوا

(4) غزل : توصیف تبسم

تھا پس مژگان‌ تر اک حشر برپا اور بھی
میں اگر یہ جانتا شاید تو روتا اور بھی

پاؤں کی زنجیر گرداب بلا ہوتی اگر
ڈوبتے تو سطح پر اک نقش بنتا اور بھی

آندھیوں نے کر دیے سارے شجر بے برگ و بار
ورنہ جب پتے کھڑکتے دل لرزتا اور بھی

روزن در سے ہوا کی سسکیاں سنتے رہو
یہ نہ دیکھو ہے کوئی یاں آبلہ پا اور بھی

ہر طرف آواز کے ٹوٹے ہوئے گرداب ہیں
روشنی کم ہے مگر چلتا ہے دریا اور بھی

صرف تو ہوتا تو تیرا وصل کچھ مشکل نہ تھا
کیا کریں تیرے سوا کچھ ہم نے چاہا اور بھی

آرزو شب کی مسافت ہے تو تنہا کاٹیے
دن کے محشر میں تو ہو جائیں گے تنہا اور بھی

(5) غزل : توصیف تبسم

اس پار جہان رفتگاں ہے
اک درد کی رات درمیاں ہے

آنکھیں ہیں کہ رہ گزار سیلاب
اور دل ہے کہ ڈوبتا مکاں ہے

اچھا ہے کہ صرف عشق کیجے
یہ عمر تو یوں بھی رائیگاں ہے

کس یاد کی چاندنی ہے دل میں
اک لہر سی خون میں رواں ہے

یاد آیا وہاں گرے تھے آنسو
اب سبزہ و گل جہاں جہاں ہے

ہر لحظہ بدل رہی ہے دنیا
اے حسن ثبات تو کہاں ہے

دکھ جھیلو تو جی کڑا ہی رکھنا
دل ہے تو حساب دوستاں ہے

( نظم) پتوں پہ لکھا نوحہ: توصیف تبسم

اگر خاک پر خیمۂ گل لگے
تو اسے یاد کرنا
اگر شب کے پچھلے پہر ایک روشن ستارہ شان سفر ہو
تو خود اپنے ہونے کا احساس جاگے
زمیں آنکھ کھولے
تو پھر وہ کہانی سنے
جس کو سنتے ہوئے پچھلی شب اس کو نیند آ گئی تھی
دھوئیں اور کائی کا ہم رنگ موسم
پرانے لبادے اتارے
ہرے خواب پہنے
تو یہ درد کی خستگی ہم نشینی کی لذت سے سرشار ہو
گھنے جنگلوں سے اگر کوئی جھونکا
گزرتے ہوئے جھولیاں بھر کے پتے لٹائے
اگر کشور خواب پر کوئی شب خون مارے
اسے یاد کرنا
اسے یاد رکھنا
***
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :احمد ندیم قاسمی: ادب کے قافلہ سالار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے