وزیر اعظم

وزیر اعظم

(پنچ تنتر کی کہانی) 
ہندی کہانی: شیو کمار
اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل، تالاب ملا ارم
رام پور ٢٤٤٩٠١ یو.پی

بہت دنوں کی بات ہے۔ ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔اس نے جنگل میں اپنا وقت بہت اچھی طرح گزارا تھا لیکن اب وہ کچھ بوڑھا ہو گیا تھا اور اس سے دوڑا بھی نہ جاتا تھا۔ اس لیے اسے جانوروں کا شکار کرنے میں کافی پریشانی ہوتی تھی، حد یہ کہ کبھی کبھی تو اسے رات کو بھوکا ہی سونا پڑتا تھا۔ دن بہ دن بڑھاپے کے ساتھ اس کی کم زوری میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا۔ ایک دن اس نے سوچا کہ آخر زندگی کی گاڑی اس طرح کیسے چلے گی۔ اس لیے مجھے چاہیے کہ میں کوئی ایسی ترکیب کروں جس سے مجھے کوئی ایک جانور، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، روز کھانے کو مل جائے۔ کافی کچھ سوچنے اور غور کرنے کے بعد اس نے یہ تہیہ کیا کہ میں کسی جانور کو اپنا ساتھی اور مشیر بناؤں گا۔ اس سے دوستی کروں گا تاکہ وہ کسی حیلے بہانے سے کسی جانور کو میرے پاس لے آیا کرے اور میں آسانی سے اس کا شکار کر لیا کروں۔
اس نے ایک ایک کرکے ہر جانور کے بارے میں غور کیا، اس کی عادت خصلت کے بارے میں سوچا۔ اچانک اسے لومڑی کا نام یاد آیا جو ڈیل ڈول میں بھلے ہی چھوٹی تھی لیکن مکاری اور چالاکی میں اس کی کوئی مثال نہیں تھی۔ اس نے خیال کیا کہ میرے لیے اس سے مناسب کوئی جانور نہیں رہے گا۔ اسے ایک روز جیسے ہی موقع ملا اور لومڑی اس کی نظر کے سامنے سے گزری تو اس نے لومڑی کو بڑے پیار سے اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا: ”بہن لومڑی! یہ تو تمھیں معلوم ہے کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس محبت کی وجہ یہ ہے کہ تم جنگل کے سارے جانوروں میں سب سے زیادہ ہوشیار اور چالاک ہو۔ میں نے اب تک کسی کو بھی اپنا وزیر اعظم نہیں بنایا ہے جب کہ بادشاہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی کو اپنا وزیر اعظم بنائے تاکہ حکومت کا کام اچھی طرح چل سکے۔ لہٰذا اب تم میری مدد کرو۔“
لومڑی تو لومڑی ہوتی ہے۔ چالاک، مکار اور عیار! وہ بھلا شیر کی چکنی چپڑی باتوں میں کیوں آنے لگی؟ اس نے شیر کی باتیں سن کر ’ہاں ہوں‘ تو ضرور کی لیکن اس کی باتوں پر یقین نہیں کیا۔ اب ظاہر ہے لومڑی تو جنگل کے بادشاہ کی رعایا تھی اور اس کا حکم سر آنکھوں پر رکھنا تھا۔ اس لیے سر جھکا کر بڑی عاجزی سے بولی: ”بادشاہ سلامت! یہ تو آپ کی ذرہ نوازی اور مہربانی ہے کہ آپ نے مجھ جیسی کم زور اور حقیر مخلوق کو اس اعزاز سے نوازا۔ میں ہر طرح سے آپ کا حکم مانوں گی اور دل و جان سے آپ کی خدمت کروں گی۔“
یہ سن کر بوڑھا شیر بہت خوش ہوا۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے کہا: ”تم تو جانتی ہی ہو کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں اور یہ بات کسی بادشاہ کو زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنی غذا کے لیے جانوروں کے پیچھے بھاگتا پھرے۔ اس لیے مشیر کی حیثیت سے تمہارا سب سے پہلا اور سب سے بڑا کام یہ ہے کہ تم میرے کھانے پینے کا خیال رکھو اور میرے لیے روز ایک جانور لے کر آؤ۔ میں جانتا ہوں کہ اپنی چالاکی اور عیاری کے باعث صرف تم ہی اس کام کو آسانی سے کر سکتی ہو۔“
”سرکار! آپ کا حکم سر آنکھوں پر ہے۔ میں آپ کا ہر حکم مانوں گی۔“ اتنا کہہ کر لومڑی نے جنگل کی راہ لی کہ وہ شیر کے لیے کوئی چھوٹا موٹا جانور تلاش کر سکے۔ ابھی وہ تھوڑی دور ہی چلی تھی کہ اسے راستے میں ایک موٹا تازہ گدھا گھاس چرتا ہوا نظر آیا۔ وہ تیز ی سے گدھے کے پاس پہنچی اور بولی: ”تم اب تک کہاں چھپے ہوئے تھے؟میں تو کئی دن سے تمھیں ڈھونڈ رہی ہوں!“
گدھا بولا: ”میں تو یہیں پر ہوں۔ یہ بتاؤ کہ  تمھیں مجھ سے کیا کام ہے!“
”میں تمھارے لیے ایک اچھی خبر لائی ہوں۔ تمھارے اب اچھے دن آگئے ہیں۔“ وہ اِد ھر ادھر دیکھتے ہوئے گدھے کے موڈ کو بھانپتے ہوئے بولی: ”میں شیر کے پاس سے تمھارے لیے ایک بہت بڑی خبر لائی ہوں۔ ہمارے بادشاہ نے تمھیں اپنا وزیر اعظم بنایا ہے اور مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے کہ میں یہ خوش خبری تم تک پہنچاؤں۔“
یہ سن کر گدھا ڈر کے مارے کانپنے لگا۔ اس نے سوچا مجھے تو شیر کے نام سے ہی بخار آجاتا ہے پھر ہمارے بادشاہ نے اتنی بڑی ذمہ داری مجھے کیوں دی ہے؟ اس نے لومڑی سے کہا کہ وہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔میں جس حال میں بھی ہوں، خوش اور مطمئن ہوں۔
اس پر لومڑی ہنس پڑی: ”تمھیں اپنی لیاقت اور صلاحیت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اور یہی تمہارے اندر اچھی بات ہے۔ تم بہت نیک، بھولے، دوسروں کے ہم درد اور محنتی ہو اور ہمارے بادشاہ نے اسی لیے تمھیں اپنے بعد سب سے بڑا عہدہ عطا کیا ہے۔“
لومڑی نے اپنی چالاکی اور مکاری سے ایسی باتیں بنائیں کہ اس سیدھے سادے گدھے کو اس کی بات پر یقین آگیا۔ اس نے سوچا کہ لومڑی جو کچھ بھی کہہ رہی ہے وہ سب ٹھیک اور سچ ہے۔ اس لیے مجھے شیر کے پاس ضرور جانا چاہیے۔
لومڑی نے پھر ایک چال چلی اور بولی: ”تم بہت سمجھ دار ہو۔ تمھیں شاید پہلی بار اتنا اچھا اور بڑا موقع ملا ہے۔ اس لیے کسی حالت میں بھی اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دینا۔ ہمارے بادشاہ نے بھی تمھاری بہت تعریفیں کی ہیں اور امید ہے کہ وہ تم سے مل کر بہت ہی خوش ہوں گے۔“
آخر کار وہ دونوں شیر کے پاس پہنچ گئے۔ شیر کو دیکھ کر خوف کی وجہ سے گدھے کو پسینے چھوٹ گئے اور وہ ڈر سے کانپتے ہوئے ایک طرف خاموشی سے کھڑا ہو گیا اور لومڑی کے بار بار کہنے پر بھی آگے بڑھنے کی اس کی ہمت نہ ہوئی۔ اس پر لومڑی نے چال چلتے ہوئے آگے بڑھ کر شیر سے کہا: ”حضور!آپ کے وزیر اعظم بڑے شرمیلے ہیں۔ اس لیے وہ آپ کے سامنے آنے سے کچھ جھجک محسوس کر رہے ہیں۔“
”کوئی بات نہیں۔“ شیر نے بظاہر بے پروائی سے کہا: ”مجھے تو ایسے ہی جانور پسند ہیں جن کے اندر شرم و حیا ہو۔ اس لیے میں خود ہی اپنے وزیر اعظم کے پاس جاؤں گا۔“ لیکن ہوا یہ کہ بہت زیادہ بھوکے ہونے کے باعث اور اتنے موٹے و تگڑے گدھے کو دیکھ کر وہ اپنی بھوک پر قابو نہ رکھ سکا اور آگے بڑھتے ہی یکایک گدھے پر جھپٹ پڑا۔ ادھر گدھا پہلے ہی کان کھڑے کیے ہوئے بالکل چوکنا تھا۔ وہ اس متوقع خطرہ کے لیے پہلے سے ہی تیا ر تھا۔ اس لیے شیر کے جھپٹتے ہی وہ جان بچا کر بھاگ پڑا۔ شیر کے منھ تک آتے آتے نوالہ غائب ہو گیا تھا اور وہ اپنی کم زوری کے باعث بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔اس لیے اسے شدید غصہ آیا اور وہ لومڑی سے گرج کر بولا: ”تمھاری یہ ترکیب بالکل بکواس تھی جس کی وجہ سے آیا ہوا شکار ہاتھ سے چلا گیا۔ ابھی اسی وقت جاؤ اور گدھے کو منا کر، تسلی دے کر میرے پاس لے آؤ ورنہ آج تمھاری جان کی خیر نہیں!“
لومڑی بولی: ”سرکار! اس میں میرا کیا قصور ہے؟ آپ نے خود ہی بہت جلدی کی۔ جب شکار چل کر آپ کے پاس آگیا تھا تو وہ بہت آسانی سے آپ کے قبضے میں آجاتا۔“ وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر آگے بولی: ”آپ نے میرے اوپر بھی بھروسہ نہیں کیا۔ بہرحال میں ایک بار پھر اسے بہلا پھسلا کر آپ کے پاس لانے کی کوشش کرتی ہوں۔“
”تم تو عجیب طرح کے جانور ہو!“ لومڑی نے بناؤٹی غصے کا اظہار کرتے ہوئے گدھے سے کہا: ”تم ایک بڑے عہدے کے مالک یعنی وزیر اعظم ہو۔ تمھیں کسی حالت میں وہاں سے نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔“
”لومڑی بہن! حقیقت یہ ہے کہ میں اچانک بہت ڈر گیا تھا۔“ گدھے نے اپنی حرکت کی صفائی دیتے ہوئے کہا: ”میں یہ سمجھا کہ شیر مجھے جان سے مارنے کے لیے میرے اوپر جھپٹ رہا ہے۔“ ”تمھیں اسی بے وقوفی کی وجہ سے گدھا کہا جاتا ہے۔“ لومڑی بولی: ”تم ہی بتاؤ، اگر شیر تمھاری جان لینا چاہتا تو کیا تم بچ سکتے تھے؟حقیقت تو یہ تھی کہ وہ تمھارے کان میں کوئی ایسی سرکاری بات کہنا چاہتا تھا جسے راز میں رکھنا ضروری تھا اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات میں بھی سن لوں۔“ اس نے گدھے کو آگے سمجھاتے ہوئے کہا: ”اب تم تو رہے بھولے بھالے اور شریف! تم نے یہ نہیں سوچا کہ اس حرکت سے ہمارا بادشاہ کتنا ناراض ہوگا؟ اب بہتر یہ ہے کہ تم چل کر بادشاہ سے معافی مانگو کیونکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے اب توسارے جانور صرف تمھاری بات مانیں گے۔“
گدھے نے ایک بار دھوکہ کھانے کے باوجود بھی لومڑی کی ساری چکنی چپڑی باتوں پر بھروسہ کر لیا اور اس کے ساتھ شیر کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس طرح یہ دونوں پھر شیر کے پاس پہنچ گئے۔ اس بیچ شیر کی بھوک اور بھی زیادہ بھڑک گئی تھی لیکن اس بار اس نے کوئی جلدی نہیں کی اور مسکراتے ہوئے، گدھے سے کہا: ”ادھر میرے پاس آؤ دوست! آج سے تم میرے وزیر اعظم ہو اور یہ تم ڈر کر کیوں بھاگ گئے تھے؟“
گدھا تو گدھا ہوتا ہے۔ شرافت یا شاید بے وقوفی میں نمبر ون! اس لیے وہ شیر کی باتوں میں آگیا اور شیر کے قریب چلا گیا اور شیر اسی لمحے کا منتظر تھا۔ اس لیے اس نے جھپٹ کر گدھے کے سر پر ایک ایسا شدید وار کیا کہ گدھے بے چارے کا سر پھٹ گیا اور فوراً ہی اس کی جان نکل گئی۔ اس کامیابی پر شیر نے لومڑی کی بہت تعریف کی اور ارادہ کیا کہ اب گدھے کے گوشت پر ہاتھ صاف کرنا چاہیے لیکن اسی وقت لومڑی کی رگ شرارت دوبارہ سے پھڑکی اور وہ چالاکی سے بولی: ”حضور! اس گدھے کے چکر میں آج آپ بہت تھک گئے ہیں۔ اگرچہ کھانے کا وقت ہو چکا ہے اور آپ کو بھوک بھی بہت زور کی لگ رہی ہے اس لیے میری رائے ہے کہ آپ جا کر اس برابر والے تالاب میں پہلے نہا لیں۔اس کے بعد کھا پی کر آرام کریں تو دماغ اور جسم کو کچھ سکون ملے۔“
”ٹھیک ہے، تمہاری بات مناسب ہے۔“ شیر نے گدھے کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ”میں ابھی نہانے کو جاتا ہوں تب تک تم گدھے کی لاش کی نگرانی رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ میری غیر موجودگی میں کوئی اور جانور آکر اس پر ہاتھ صاف کر لے۔“
بھوک تو اس وقت لومڑی کو بھی بہت زور کی لگ رہی تھی۔ سامنے گدھا مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس پر ایسا زبردست وار کیا تھا کہ اس کی کھوپڑی کھل کر دو ٹکڑے ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا اس شکار میں تو میرا بھی برابر کا حصہ ہے۔ اگر میں ہی اس گدھے کو واپس آنے کے لیے مجبور نہ کرتی تو شیر کو کھانا کیسے ملتا۔شیر نے تو اپنی حماقت اور عجلت سے گدھے کو بھگا ہی دیا تھا۔ ساری کوشش اور محنت تو میری ہی ہے اس لیے سب سے اچھے گوشت پر بھی میر ا حق ہونا چاہیے۔ یہ خیال آتے ہی لومڑی لپک کر گدھے کے سر پر پہنچ گئی جسے شیر نے پہلے ہی دو ٹکڑے کر دیا تھا اور اس میں سے اس کا سفید سفید بھیجہ چمک رہا تھا۔ لومڑی نے گدھے کا بھیجہ چٹ کرنے میں چند منٹ بھی نہیں لگائے۔
ادھر جب شیر نہا کر واپس آیا اور اس کی نظر گدھے کی خالی کھوپڑی پر پڑی تو اسے کچھ شک ہوا اور اس نے لومڑی سے پوچھا کہ یہاں کون آیا تھا؟
لومڑی نے یہ سن کر بڑے دکھ کا اظہار کیا اور منھ بناتے ہوئے بولی: ”حضور! بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ اپنی فرماں بردار نوکر پر بھی بھروسہ نہیں کرتے۔ میں نے پورا وقت گدھے کی لاش کی نگرانی میں ہی صرف کیا اور ایک منٹ کو بھی اپنی نظر نہیں ہٹائی۔ میں بس اسی کو دیکھتی رہی اور اس کو چھونے کی ہمت بھی آخرکس میں تھی!“ لومڑی بولتی چلی گئی: ”سرکار! آپ نے ہی تو اس کی کھوپڑی پر اپنے دانتوں اور جبڑوں کا استعمال کیا تھا اور کھوپڑی پھاڑ ڈالی تھی۔“ شیر نے لومڑی کی بات کو سچ سمجھتے ہوئے اس کی بات پر یقین کر لیا اور ابھی اس نے گدھے کی کھال ادھیڑ کر کھانا شروع ہی کیا تھا کہ زور سے گرج کر اچانک بول پڑا: ”اس کا دماغ کہاں ہے؟ اس کے جسم میں سب سے لذیذ چیز یہی ہوتی ہے اور میں پہلے اس کا دماغ ہی کھانا چاہتا ہوں۔“
لومڑی چالاکی سے مسکرائی اور بڑے رازدارانہ انداز میں بولی: ”سرکار!گدھے کے سر میں دماغ نہیں ہوتا!“
یہ سن کر شیر نے چونک کر لومڑی کی طرف سوالیہ نظروں سے گھور کر دیکھا۔ ”حضور! میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔“ لومڑی ہنستے ہوئے بولی: ”اس گدھے کے سر میں دماغ ہوتا تو ایک بار دھوکہ کھانے کے باوجود یہ دوبارہ میرے ساتھ کیوں آتا؟“

دوسری کہانی یہاں پڑھیں: خوابوں کی راکھ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے