مولانا محمد یوسف اصلاحی

مولانا محمد یوسف اصلاحی

الطاف جمیل ندوی 

حضرت مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا انتقال ہوا. موصوف کہنہ مشق ادیب، صاحب علم اور معروف داعی رہے ہیں. علمی دنیا کے لیے نا قابل تلافی نقصان. اللہ تعالٰی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.

مختصر تعارفی خاکہ

کڑے سفر کا تھکا مسافر
تھکا ہےایسا کہ سوگیا ہے

خود اپنی آنکھیں توبند کرلِیں
ہر آنکھ لیکن ، بِھگو گیا ہے
آج (٢٢ دسمبر ٢٠٢١) صبح ہی اطلاع ملی کہ برصغیر کے معروف مبلغ، استاد، ادیب حضرت مولانا یوسف اصلاحی دار فانی سے کوچ کرگئے. یہ خبر انتہائی تکلیف دہ تھی. پچھلے ہفتے ان کی موت کی خبر آئی. پر پھر تصدیق نہ ہوئی. پر آج ان کے اپنوں نے بھی ہاں کردی کہ حضرت کا واقعی انتقال ہوچکا ہے.

مولانا کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی. میں طالب علمی کے زمانے سے ہی اس نام سے آشنا ہوا جب ایک ڈائجسٹ ذکری نامی دیکھا. باہر سنہرے الفاظ میں لکھا تھا محمد یوسف اصلاحی. ڈائجسٹ کیا تھا یوں سمجھیں کہ ایک ماہ کے مسلسل مطالعہ اور مختلف ادبی شخصیات کی تخلیقات اور اپنی علمی استعداد کے مختلف گوشوں کو ایک مالا میں پرویا گیا ہوتا تھا. یوں سمجھیں کہ اک پھل جس کی قیمت ادا نہ کی جاسکتی ہو یا جسے پانا ہرکسی کے بس میں نہ ہو کا نچوڑ ہوا کرتا تھا. یہ ماہنامہ ذکری میں گر کہوں کہ یہ پہلا رسالہ ہے جسے میں شوق سے پڑھا کرتا تھا اور پڑھنا اس کا مجھے بے حد عزیز تھا، اسی ماہنامے کی بدولت میرا تعلق اردو سے جڑ گیا.

آداب زندگی
مولانا نے لکھنے لکھانے کا مشغلہ اپنی چھوٹی سی عمر ہی سے شروع کردیا تھا۔
آداب زندگی۔ اس نام سے بھلا برصغیر مین کون واقف نہیں. یہ وہ کتاب ہے جس کی زبان اردو اور اس قدر آسان کہ ہر کوئی پڑھ لیتا ہے. یہ کتاب کیا تھی ایک خوب صورت اور پیارا سا گلدستہ جس کا ورق ورق قابل تعریف، قابل ستائش، قابل دید و قابل عمل ہے.
کہتے ہیں کہ مولانا جب ‘آداب زندگی` لکھ رہے تھے، اس وقت ان کی عمر یہی کوئی بیس بائیس برس تھی۔ یہ کتاب گرچہ عمر کے اس حصے میں لکھی گئی، جو عموما پڑھنے اور سیکھنے کا حصہ ہوتا ہے مگر اس کتاب نے کامیابی کے کئی ریکارڈ بنائے اور تصنیف وتالیف کے میدان میں اپنی خاص پہچان اور جگہ بنائی، جو آج تک بھی قائم اور باقی ہے۔
یہ وہ واحد کتاب ہے جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی اصول و آداب جو زندگی کے مختلف مراحل کو بیان کرتی ہے. یہ وہ کتاب ہے جو انسان کو پاکیزہ زندگی کے مختلف اسباق سے روشناس کراتی ہے. اس کتاب میں خاص بات کیا ہے یہ طے کرنا قدرے دشوار ہے. کیوں کہ اس کا ورق ورق قابل صد آفریں جو ہے. وہ کون سے مسائل ہیں جن پر اس کتاب میں بات نہ کی گئی ہو. کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں اور کشمیری زبان میں بھی ایک ترجمہ موجود ہے جس کی سعادت اطہر منگامی کے حصے میں آئی ہے. اب اس کتاب کو پڑھنے والوں کی بات کریں تو میرے خیال سے لاکھوں لوگ ہوں گے جنھوں نے اس کتاب کے مطالعہ سے مسائل زندگی سیکھ کر اپنی زندگی کو اسلامی تہذیب و تمدن کے رنگ میں رنگا ہوگا. ایسے ہی ان کی کئی کتابیں ہیں جن کی تعداد ۴۵ ہے. ان میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کتابیں ہیں. خاص شغف جو حضرت مولانا کا رہا ہے وہ ہے علوم القرآن جو ان کی زندگی میں سب سے اعلا مقام پر رہا اور جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کے ماہ و سال صرف کیے۔
آسان فقہ اول دوم، جسے پڑھ کر دیں کی بنیادی معلومات سے شناسائی ہوئی، یہ بھی انہی کی محنت شاقہ کا ثمر تھا کہ اس سادگی سے الفاظ کی لذت و چاشنی سے بھر پور کتاب مرتب کی کہ ہر اردو زبان سے واقفیت رکھنے والا بہ آسانی اس سے استفادہ کرسکتا ہے. اور کمال یہ کہ شاید ان کے اخلاص کی برکت ہی تھی کہ ہم فکر مکاتب کے علاوہ بھی لوگ بڑے شوق و ذوق سے اس کتاب کا مطالعہ کرتے تھے.

اپنی ہر تحریر و تقریر، درس تدریس اور خاص ملاقاتوں کی گفتگو میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ تنازعات سے دور رہ کر، اختلافی مسائل کو چھیڑے بغیر یا پھر ان میں اعتدال کی راہ اپنا کر آگے بڑھیں، کیونکہ ایسا کرنے سے دین کی دعوت کی عمومیت اور افادیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
مولانا اصلاحی ایک بہترین مصنف، داعی اور مقرر تھے، آواز میں وقار و نغمگی اور خیالات کی ترسیل کو سہل اور مؤثر طور پر پیش کرنے کی زبردست قدرت تھی۔ ان کی کئی درجن کتابیں ہیں جن میں آداب زندگی، قرآنی تعلیمات، آسان فقہ دوحصوں میں، گلدستہ حدیث مقبول ہے. بالخصوص آداب زندگی کا کیا کہنا کہ یہ کتاب کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے۔ ان کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ نے مجھے بھی متاثر کیا اور میں نے بہت سے نوجوانوں کو ان کتابوں کے مطالعہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ آج مولانا ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے لیکن وہ اپنی بیش قیمت خدمات اور کتابوں کی وجہ سے ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
مولانا مرحوم کا بنیادی موضوع قرآن کریم تھا، قرآنی تعلیمات پر آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں ایک اہم اور ضخیم کتاب ’قرآنی تعلیمات‘ بھی ہے۔
مولانا مرحوم کی چھوٹی بڑی کتابوں کی ایک نامکمل فہرست ذیل میں دی جارہی ہے:
۱۔ قرآنی تعلیمات
۲۔ تذکیر القرآن (تفسیری سورۂ یٰسین)
۳۔ تذکیر القرآن (تفسیر سورۃ الصف)
۴۔ درس قرآن
۵ ۔مطالعہ قرآن کیوں اور کس طرح؟
۶۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھیے
۷۔ قرآن کیوں پڑھیں اور کیسے پڑھیں؟
۸۔ تفہیم الحدیث
۹۔ گلدستۂ حدیث
۱۰۔ شمع حرم
۱۱۔ حدیث رسولﷺ
۱۲۔ رسولؐ کی تعلیم
۱۳۔ حضرت محمد رسولؐ اور انسان
۱۴۔ اخلاص نیت
۱۵۔ ہمارے حکمراں اور ان کی ذمہ داریاں
۱۶۔ مقدمہ حشر کے تین وکیل
۱۷۔ ہردور کے فتنوں کا علاج قرآن مجید
۱۸۔ آسان فقہ، اول، دوم
۱۹۔ حج اور اس کے مسائل
۲۰۔ مختصر احکام حج
۲۱۔ حج وعمرہ گائیڈ
۲۲۔ داعیِ اعظمؐ
۲۳۔ ذکر رسولﷺ
۲۴۔ روشن ستارے
۲۵۔ راہ حق کے دو مسافر
۲۶۔حضرت عبداللہ ابن مبارک
۲۷۔آداب زندگی
۲۸۔ خاندانی استحکام
۲۹۔ حسن معاشرت اور اس کی تکمیل میں خواتین کا حصہ
۳۰۔اسلامی معاشرہ اور اس کی تعمیر میں خواتین کا حصہ
۳۱۔ تعمیر معاشرہ کی بنیادیں
۳۲۔اللہ کا پیغام (حیدرآباد میں ۱۳ دن)
۳۳۔جاپان اور پیغام حق
۳۴۔صحیح تصور دین
۳۵۔ دین کیا ہے؟
۳۶۔اسلام پیروی رسولﷺ
۳۷۔ یاد دہانی
۳۸۔ داعیان اسلام سے
۳۹۔ختم نبوت قرآن کی روشنی میں
۴۰۔ عقیدہ ختم نبوت اور تقاضے
۴۱۔ مسائل اور ان کا حل
۴۲۔برائیوں کے طوفان میں آپ کیا کریں
۴۳۔قیادت کے اوصاف اور امت کی ذمہ داریاں
۴۴۔شعور حیات (اول، دوم، سوم)
۴۵۔عزت کی زندگی اور ہندوستانی مسلمان
آخری بات۔۔۔۔۔
سب کہاں، کچھ لالہ و گُل میں نُمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحبؒ برصغیر ہندو پاک، عرب ممالک، امریکہ اور یورپ کے نہایت مقبول اور پسندیدہ مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ آدابِ زندگی، آسان فقہ، حُسنِ معاشرت، قُرآنی تعلیمات، شعورِ حیات وغیرہ ہر مکتبہ فکر میں نہایت مقبول مطبوعات ہیں۔ مولانا محترم کا اندازِ تحریر نہایت سادہ، دِل نشیں اور پُر اثر ہے۔ دقیق مسائل کو اِس طرح بیان کرتے ہیں جیسے معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ ان کا طرزِ تحریر قلب و ذہن کی دُنیا بدل کر رکھ دیتا ہے اور ایمان و یقین کی شمع دِلوں میں روشن ہو جاتی ہے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحبؒ کی کُتب قُرآن و سُنت کا پَرتو ہیں اور انداز مکمل دعوتی ہے۔ جو غیر محسوس انداز میں زندگی کا رُخ تبدیل کرکے زندگی کو ایک خاص ڈھانچہ میں ڈھال دیتا ہے۔ مولانا صاحبؒ کی مطبوعات کو ہر مکتبہ فکر میں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالٰی مولانا محترمؒ سے راضی ہو اور رب کاٸنات مرحوم کے تمام دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کو قبول فرماۓ۔ آمین

اللہ تعالٰی تمام وفات شدہ اکابرین کے ساتھ ساتھ آپ کو جنت الفردوس میں اعلا و ارفع مقام عطا فرماۓ اور آپ سب کے ساتھ ہماری محبت و عقیدت کو اپنی رضا کا ذریعہ بناۓ۔ آمین
الطاف جمیل ندوی کی گذشتہ نگارش:چلہ کلاں آ گیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے