ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں

ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں

مقدمہ کتاب: سید فخرالدین بلے ایک آدرش-ایک انجمن
مقدمہ نگار: ڈاکٹر وفا یزدان منش، شعبۂ اردو، یونی ورسٹی آف تہران

زبان اردو مسلمانوں کی برصغیر میں آمد سے وجود میں آئی اور صدیوں کا شعری اور نثری سفر طے کرکے ارتقائی منازل سے ہم کنارہوئی۔ کلاسیکی اردو شعرا کا اس زبان پر بہت احسان ہے۔ اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی تک شاعری کے ذریعے اصلاح زبان کی تحریک چلی، پلی، بڑھی اور بڑی بار آور ثابت ہوئی۔ الفاظ کاذخیرہ بڑھ گیا۔ محاورات کا دامن پھیلا اور مالامال بھی ہوگیا۔ طرح طرح کے مضامین اردو شاعری میں سمو لیے گئے۔ انیسویں صدی سے بیسویں صدی تک بڑی شخصیات نے اردو شاعری اور نثرنگاری کے ذریعے قوم کی بیداری میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ادیبوں، شاعروں اور تخلیق کاروں نے آزادی کا جذبہ جگانے، آتش شوق کو بھڑکانے اور معاشرتی اصلاحات لانے کےلیے فکرانگیز مضامین باندھے۔ استحصال سے نجات پانے کے بعد اسی اردو ادب نے لوگوں کو الجھنیں دورکرنے کے رستے سُجھائے۔ اردو میں افسانوی اور واقعاتی اصناف ادب پوری کامیابی سے منظرعام پر آگئیں۔ اعلا پائے کا ادب تخلیق کیا گیا اور اردو زبان و ادب کی خوشبو جغرافیائی سرحدوں کو عبور کرکے دنیاکے بہت سے ملکوں کو مہکاتی نظرآئی۔ اردو ادب کا ارتقائی سفر بھرپور انداز میں جاری ہے۔ عالمی سطح پر دوسری زبانوں کے ماہرین ادب بھی اس کی اثرآفرینی کاکھلے دل سے اعتراف کرتے نہیں تھکتے۔ دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب کے ساتھ اردو ادب اپنا سفر تمام تر توانائیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلاشبہ اس نے اتنی کامیابیاں سمیٹ لی ہیں کہ پورے اعتماد کے ساتھ اردو زبان و ادب کا تقابلی جائزہ دوسری زبانوں کے ادب عالیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ادب پاروں میں فن کاروں کے خون جگر سے قطرہ قطرہ ٹپک کرایک سمندر بن گیا ہے۔ جس میں لعل و جواہر بھی ہیں، نایاب موتی بھی اور اتنے خزائن کے جہان، جو کسی بحر بیکراں ہی میں ہوسکتے ہیں. یہ سب ہمارے ان قد آور ادیبوں اور شاعروں کی کاوشوں کاثمر ہے، جنھوں نے ادب کواپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا. سوال یہ ہے کہ کیا ایسے تمام عظیم فنکاروں کو ان کا حق ملا ہے؟ اکثر ایسا ہوتا ہےکہ فنکاروں کی زندگی میں ان کو داد نہیں ملتی، جب وہ نذر خاک ہوتے ہیں بلکہ ان کی موت کی دہائیوں کے بعد ان کی قدر کی جانے لگتی ہے۔ بہت کم ایسے تخلیق کار ہوتے ہیں، جنھیں قید حیات میں خراج تحسین پیش کیاجاتا ہے۔ خاص طور پر معاصر ادبا و شعرا کے ہجوم میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر گمنام ہی رہ جاتے ہیں۔ کلاسیکی ادب کےحوالے سے تحقیق اور انکشافات تو ہروقت ضروری ہوتےہیں مگر ساتھ ساتھ زیادہ توجہ معاصر ادب پر مرکوز ہونی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادبا وشعرا کے سوانحی حالات کا تعارف کرایا جائے؛ ان کے ہر ایک بلکہ ایک ایک فن پارے کاجائزہ لیا جائے۔ ایسی کاوشیں جاری رہیں تو اس کے مثبت اثرات حاصل ہوں گے۔ سب سے اہم کام یہ ہوگا کہ ادیب یا شاعر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ ادب کا میدان اور پھیل جائے گا۔ یہ پتا چل جائے گا کہ کیا خامیاں ادب میں رہ گئی ہیں اورانھیں دور کرنے کے لیے کیسے کیسے راستے نکالے جاسکتے ہیں اور اسی طرح علمی کام کے لیے نئے نئے مآخذتک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔
ہر زبان کے ادب میں فن کاروں یا ان کے فن پاروں پر بکھرے بکھرے مقالات اور مسودے موجود ہیں، جن تک رسائی بہت مشکل ہوتی، اگر انہیں یکجا نہ کیاجاتا۔ البتہ ایک ہی شخصیت یا ایک ہی موضوع پرساری چھپی ہوئی تحریریں اور معلومات اکٹھی کرنا مقبول اور قابل ِقدر کاوش ہے، اس کے لیے ایک حوصلہ مند مرتبہ کی ضرورت ہے، جو پوری ذمہ داری سے ایک ایک ماخذ کا سراغ لگائے اور سلیقہ مندی سے انھیں ترتیب دے۔ سید فخرالدین بلے ایک ایسی شخصیت ہیں، جوادبی دنیا میں جانی پہچانی ہی نہیں جاتی بلکہ علمی، ادبی، ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں معروف اور مقبول بھی ہیں۔ انھیں اپنی زندگی ہی میں بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے پہچان لیاتھا اور یہ جان لیاتھاکہ ان کے اندر معرفت اور علم کاایک جہان آبادہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان کے عہدجوانی ہی میں یہ کہہ دیاتھا کہ بلے صاحب کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ آل احمد سرور نے انھیں بلند پایہ کلام کا خالق قراردیا۔ سید فخرالدین بلے ایک سو پچاس سے زیادہ مطبوعات تالیف کرچکے ہیں اوریہ سب ایسی کتابیں، بروشرز، سووینئیرز، اور کتابچے طرح طرح کے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں. وہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، سرگودھا، بہاولپور، ملتان، اور علی گڑھ سمیت مختلف شہروں میں کئی رسائل اور جرائد کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور چند رسالے خود بھی نکال چکے ہیں، وسیع پیمانے پر مختلف نوعیت کے جرائد کی ادارت ان کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کی غمازی کرتی ہے۔
دنیائے ادب میں یہ امر مسلمہ ہے کہ وہ لوگ جو صحافت میں سرگرم ہوتے ہیں، ان کے مشاہدات و تجربات کا کینوس بھی بڑا وسیع اور وقیع ہوتاہے۔ اس تناظر میں آپ سید فخرالدین بلے کے صحافتی، تصنیفی اور تالیفی کام کو دیکھیں تو علمی و ادبی رنگا رنگی ان کی تالیفات کی جان اور پہچان نظرآتی ہے۔ یہ تنوع ایسا ہے، جس نے ان کی شاعری اور نثرپاروں کی دل کشی بڑھا دی ہے۔ وہ مذہبی میدان میں بھی لکھتے رہے ہیں۔ ”ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ و تعالیٰ وجہہ الکریم" اور ” فنون لطیفہ اور اسلام" ان کی دوایسی تحقیقی کتابیں ہیں، جن میں ان کاتبحر علمی بولتاہوا دکھائی دیتا ہے. یہی نہیں انھوں نے علمی، ادبی، ثفاقتی، اور روحانی شعبوں میں جوکام کیے، باکمال کیے اور ارباب عرفان و ادب کو حیران کردیا۔
تصوف، تاریخ اورسیاست کےموضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔ راقمہ کا یہ تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ لوگ، جن کاتعلق علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہوتاہے، یا رہا ہے، ان کی ایک مضبوط علمی شخصیت بنتی ہے۔ یہ ایسا ماحول ہے ،جس جس کواس ماحول اور دھرتی نے پالا،وہ ہمہ گیر شخصیت کا مالک نکل آیا۔سرسید اور ان کے رفقا کی کوشش و شفقت سے جوروح علی گڑھ کے تعلیمی نظام میں پھونکی گئی، وہ ابھی تک وہاں کی فضا ؤں میں موجود ہے اور محسوس بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ روح و عظمت سید فخر الدین بلے میں رچ بس گئی ہے۔ وہ اس روح کو پاکستان ہجرت کر کے ساتھ لے آتے ہیں۔ یہاں ان کا ایک ہی جگہ پر ٹھہراؤ نہیں، وہ مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہوتےہیں، وہ تعلقات عامہ اور صحافت سے وابستہ رہتےہیں، انہی وجوہات کی بنا پر ان کے مختلف پہلوؤں میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ ہر فن کار کی تخلیقات، اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ دیکھتے ہیں، بلے صاحب روشن دماغ اور مستقل مزاج آدمی تھے، وہ کسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوتے، محترمہ بانو قدسیہ اور اسرار زیدی کے بقول: ”وہ اپنی ذات میں انجمن ہی نہیں، قافلہ بھی ہیں”یہی آزاد خیالی، یہی وسیع العلمی ان کی نثری اور نظمی تخلیقات میں نمایاں ہیں۔ اسی طرح ان کا مطالعہ مختلف میدانوں میں ہے، جیسے علم نفسیات، علم الفلکیات، علم الاعداد، علم البشریات، علم المعدنیات وغیرہ وغیرہ اور ان تمام علوم و فنون کی چھاپ ان کے فن پاروں میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیات جدت پسندی کی مظہر ہیں اور ایک الگ راستے میں ان کا شعری سفر نظرآتاہے، جسے انھوں نے خود اپنے لیے تراشا ہے. اس لیے پورے اعتماد کے ساتھ آپ انھیں صاحبِ طرز شاعر قرار دے سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو وطن دوستی اور جمالیات سے ہم کنار کردیا ہے۔ وہ عالمی واقعات سے بھی متاثر ہو کر اپنے تاثرات کا شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے عہد کے بڑے بڑے لوگوں نے بھی ان کی ادبی عظمت کوتسلیم کیا ہے۔
“سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” ایک خوب صورت کتاب، نادر تالیف اور ایک ایسی کاوش کا نتیجہ ہے، جس میں سید فخرالدین بلے کے بارے میں بہت سی اہم معلومات کو یکجا کردیا گیا ہے۔ بلے صاحب کی ذاتی شخصیت اور ان کی وسیع علمی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کا عنوان ہی نہیں بلکہ اس میں شامل تمام مضامین کے عنوانات بھی بڑی مہارت اورسلیقہ مندی سے چنے گئے ہیں. بلاشبہ کتاب کا یہ عنوان بلے صاحب کی ہمہ گیریت کو زیب دیتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں جمیل الدین عالی نے اپنے سلسلہ وار کالم ”نقارخانے میں" بلے صاحب پر ایک یا دو نہیں، قسط وار تین کالم لکھے اور ”سید فخرالدین بلے۔ایک آدرش، ایک انجمن" کےتحت انھوں نے اپنی یاد داشتوں کو مرتب کردیا۔ اہل ادب اور مرتبین کو یہ عنوان اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اپنی کتاب کو اسی عنوان کےتحت یکجا کردیا۔ اس کتاب میں تمام مشہور زمانہ علمی اور ادبی شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ علامہ سید غلام شبیر بخاری نے جو نصف صدی کی رفاقت بلے صاحب سے رکھتے تھے، ا یسا جامع خاکہ قلم بند کیا ہے، جسے پڑھنے کے بعد قاری کی تشنگی نہیں رہتی۔ ان کے آبا و اجداد سے لے کر ان کی پیدائش، ان کے نام کی وجہ تسمیہ، تعلیم، معاشرتی اور علمی سرگرمیوں کو تفصیلی بیان کیا ہے اور سوانحی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی دل کش شخصیت کے خدوخال کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ یہ سوانحی خاکہ اتنی جزئیات کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے کہ باقی تمام مضامین ان کی شخصیت اور خدمات کی شرح معلوم ہوتے ہیں۔ اس سوانحی خاکے کو پڑھ کر بلے صاحب کی مینارقامت شخصیت قارئین کی آنکھوں کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ الفاظ و مضامین ہی نے اس کتاب کی وقعت اور قیمت نہیں بڑھائی بلکہ سجاوٹ، لے آؤٹ اور کچھ اور عناصر بھی کتاب کی قدر بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ عناصر کتاب کی علمی و معلوماتی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یادگار اور تاریخی تصویریں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ مجموعہ اسی کا مصداق ہے۔
اب ذرا کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات دیکھیے۔ پاک و ہندکے معروف افسانہ نگار انتظارحسین نے” یہ سید کام کرتاہے" کے عنوان کےتحت بلے صاحب کو ایک متحرک شخصیت قرار دیا ہے۔ افتخار عارف نے ”سیدفخرالدین بلے۔ایک فرد۔ ایک روایت" کا عنوان اپنے مضمون کے لیے منتخب کرکے مختصر سی عبارت میں سید فخرالدین کا بھرپور تعارف کرادیا ہے۔ سیدآل احمد سرور نے انھیں”بلندپایہ کلام کاخالق" ماناہے۔ پروفیسر منظر ایوبی کے مضمون کا عنوان قاری کو سوچنے پر اکساتا ہے اور اس عنوان "دیکھیے، اس شخص میں کتنے جہاں آباد ہیں"  میں جہان معانی آباد نظر آتاہے۔ڈاکٹر خواجہ زکریا نے”سیدفخرالدین بلے۔ بڑے حلم و آبرووالے" کے عنوان کے تحت انھیں محبت اور عقیدت کا نذرانہ پیش کیاہے اور مجیدامجد کی شاعری کا سہارا لے کر انھیں بڑے احترام کے ساتھ یاد کیاہے۔”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے"، یہ عنوان ہے پروفیسر قیصر نجفی کے مضمون کا۔ ”سید فخرالدین بلے، تصوف پرایک اہم اتھارٹی ”کا عنوان دےکر ڈاکٹر وزیر آغا نے دریا کوکوزے میں بندکردیا ہے۔ یہ عنوان ہی بتا رہا ہےکہ ان کی نظر میں تصوف کےحوالے سے سید فخرالدین بلےکا مرتبہ اور مقام کیا ہے؟ ڈاکٹر انور سدید کے مضمون کا عنوان ہی سید فخرالدین بلے کو”ایک قادرالکلام شاعر" قرار دے رہاہے۔ ڈاکٹر فوق کریمی علیگ نے”فخرادب۔ علی گڑھ کا بلے" کا عنوان دے کر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے وابستہ سید فخرالدین بلے کی یادوں کو اپنے مخصوص انداز میں تازہ کیا ہے اور بتایاہے کہ یونی ورسٹی کے تلامذہ ہی نہیں اساتذہ بھی ان کی علمیت، ذہانت اور فطانت کے معترف اور مداح تھے۔ طفیل ہوشیارپوری نے” کئی دنیائوں کا ایک بڑا آدمی" کو موضوع بناکر اپنے تاثرات اور مشاہدات کو پینٹ کیاہے۔”فخرالدین بلے علی گڑھ سے ملتان تک" عنوان ہے پروفیسر جاذب قریشی کے فکر انگیز مقالے کا، ڈاکٹر عاصی کرنالی نے” فخرالدین بلے۔ ایک تہذیبی ادارہ، ایک یونی ورسٹی" کو عنوان بناکرحرف ستائش بڑی محبت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اصغر ندیم سید نے" سید فخرالدین بلے۔ایک تہذیب سازہستی" کے عنوان کی بنیاد پر ان کی شخصیت اور خدمات کی تصویرکشی کی ہے۔ ”ایک داستان ۔ایک دبستان"  پروفیسر افتخار اجمل شاہین کے مبسوط مقالے کا خوب صورت عنوان۔ ظفرعلی راجہ نے” صوفی بلے اور ان کی صوفیانہ شاعری" کے موضوع پر صرف لکھاہی نہیں، اس موضوع سےخوب خوب انصاف بھی کیاہے ۔”قول اور رنگ ۔بلے بلے" کو موضوع بناکر سید سعید احمدجعفری علیگ نے سید فخرالدین بلے کی قوالی کےحوالے سے تاریخی اور تاریخ ساز خدمات کا احاطہ کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔غزالی زماں، رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی مرحوم نے امیر خسرو کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے کےقول ترانے کو ایک قابل قدرکارنامہ قراردیاہے۔ امیر خسرونے ساڑھے سات سوسال پہلے جنوبی ایشیا میں قوالی کی بنیاد رکھی تھی، ان کے بعد کسی نے قول کی تصریحی تہذیب کی جسارت نہیں کی، یہ سہرا بھی سید فخرالدین بلے کے سر ہےکہ انھوں نے نیا رنگ تخلیق کیا اور نیاقول ترانہ بھی۔ اس کتاب میں ان کا نیا رنگ اور نیاقول ترانہ بھی شامل کرلیاگیاہے۔ سید فخرالدین بلے کی کثیرالوصف اور کثیرالجہت شخصیت درحقیقت ان گنت شخصیات کا خوب صورت گلستاں نظرآتی ہے۔ کمال احمد رضوی جیسی باکمال شخصیت نے انھیں”علم و ادب کا اثاثہ" لکھا، پروفیسرخالد پرویز نے سید فخرالدین بلے کو بجاطور پر مین آف دا اسٹیج کی حیثیت سے محبت اور عقیدت کا خراج پیش کیا۔ اس لیے کہ سید فخرالدین بلےنے پچیس روزہ جشن تمثیل کااہتمام کرکے ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل کی حیثیت سے جو ثقافتی دھماکہ کیا تھا، اس کی گونج سرحد پار بھی سنی گئی، اور اسٹیج کےجو فن کار سامنے آئے، وہ ٹی وی اسٹار بن گئے۔ اسی لیے ان کے ساتھ ایک خوب صورت شام کا اہتمام کرکے انھیں محسن فن اور مین آف دا اسٹیج کےخطابات سے نوازا گیا۔ شبنم رومانی نے”سید فخرالدین بلے کے ادبی نقوش" کو اپنا موضوع بھی بنایا اورانھیں اختصار کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں اجاگر بھی کیا ہے۔ڈاکٹر انور سدید نے ”لاہورمیں قافلے کاسفر” لکھا، جوسید فخرالدین بلےکی ادبی ہنگامہ آرائیوں کی بڑی دل کش داستان ہے، اسی طرح اسرار زیدی نے ”قافلے کےپڑائو ۔ایک مستحکم روایت" میں بلے صاحب کی ادبی اور ثقافتی تنظیم قافلہ کی عالمی بیٹھکوں کی تصویرکشی کی اور بھولی بسری یادوں کو نئی زندگی بخشی ہے۔ یہ کتاب مرتب کرکے سید فخرالدین بلےکی تخلیقی جہتوں، ان کے فکری آفاق کی وسعتوں، ان کے کارناموں، اور قافلےکی سرگرمیوں کااحاطہ کرنے کےلیے قابلِ تحسین قدم اٹھایاگیا ہے۔ مشہور زمانہ اوریگانۂ روزگار شخصیات کےفکرانگیز مقالات اوربصیرت زا تاثرات اکٹھے کرنے سےیہ کتاب سید فخرالدین بلے کےفن، سخن، افکار، خیالات اور خدمات کےحوالے سے اہم مرقع اور ایک کلیدی ماخذ کی حیثیت سے سامنے آئی ہے. انٹرنیٹ پر بھی لوگ اس سے مستفیض ہوئے ہیں۔ اور اب منتظمین نے “سید فخرالدین بلے۔ایک آدرش، ایک انجمن"  کو سپرد قرطاس و قلم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اسے لائبریریوں کی زینت بھی بنایا جاسکے۔
بلے صاحب اپنی نگارشات، تخلیقات اور تالیفات ہمارے پاس چھوڑکر چلے گئے ہیں۔ اب وقت کو ہاتھ سے کھونے نہیں دینا چاہیے۔ ان کی تخلیقات کو نشان تنقید بنانا چاہیے اور ان کے فن پاروں کو مختلف زاویوں سے جانچنا چاہیے۔ بہترین طریقہ یہ ہےکہ یہاں جن بڑے نقادوں، محققوں اور ادیبوں نے ان کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں کو سراہاہے اور ان کے لیے جو خیالات پیش کیے ہیں، ان کو مد نظر رکھ کر انہی عنوانات پر مضامین لکھے جائیں، مثال کے طور پر وزیر آغا نے فرمایا: "وہ تصوف پر ایک اہم اتھارٹی ہیں" اور "بلے صاحب کے چلے جانے کے بعد دبستان سرگودھا کی کمر ہی ٹوٹ گئی ہے" یہ بات قابل غور ہے اور اس پر تحقیق کی جانی چاہیے اور دلائل کے ساتھ اس بات کا ثبوت دیا جانا چاہیے۔ اور اسی طرح فراق گورکھپوری نے بلےصاحب کو لفظوں کا مصور قرار دیا ہے؛ عاصی کرنالی کی یہ رائے: بلے صاحب ملتان کو حیات نو عطا کرنا چاہتے تھے؛ یہ بھی کہاگیا کہ بلے صاحب عصری تقاضوں اور عصری مسائل سے بہ خوبی واقف تھے، پھر ان کے مسودوں میں عصری حالات کی جھلکیاں اور حالات بہتر بنانے کے لیے مشورے ملتے ہوں گے۔
ہر زبان کی جڑ اور پیدائش کےبارے میں کبھی کوئی قطعی نظریہ ثابت نہیں ہوا۔ اسی طرح حافظ محمد شیرانی، نصیرالدین ہاشمی، سلیمان ندوی، مسعودحسین خان اور محمدحسین آزاد جیسے ماہر لسانیات کےاردو زبان کی جڑ اور اس کے تاریخی پس منظر پرخیالات، بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، چاہے ان کا کوئی نظریہ ابھی تک ثابت شدہ نظریہ کے طورپرسمجھا نہ گیا ہو۔ چنانچہ بلےصاحب کی اردو زبان کی پیدائش کے بارے میں رائے جو انوکھا انکشاف ہے، انہی نظریات میں شامل ہونا چاہیے اور دوسرے نظریات سمیت مآخذ میں اپنی جگہ بناناچاہیے۔
بلے صاحب کو فارسی زبان پر اتنا عبور تھا کہ اس زبان میں روانی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ فارسی صرف ان کی زبان میں نہیں، ان کی شاعری میں بھی روانی سے جاری ہے۔ و ہ انوکھی فارسی تراکیب و الفاظ جیسے رعنائی و شوخی گل ِتر، دامن برگ، زندہ داران شب، کو برتتے ہوئے اردو شاعری کو موسیقی اور بحر سے جوڑدیتے ہیں۔ ان کی شاعری پر فارسی کے اثرات کا جائزہ بھی اہم نتائج مرتب کرسکتا ہے۔
اس کتاب کے آخری صفحات میں سیدفخرالدین بلے کی نعتیں، منقبت علی، سلام بہ حضور امام عالی مقام کے ساتھ ساتھ بلے صاحب کی کچھ شاہ کار نظمیں اور غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں، جواس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ انھوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنے عہد کے استادان فن و سخن سے داد و تحسین ہی نہیں سمیٹی، بلکہ اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہا بھی منوایا ہے۔
ضرورت اس امرکی ہےکہ بلے صاحب کی بکھری ہوئی تخلیقات پر کاوشیں جاری رہیں اور ان کو طباعت تک پہنچا دیا جائے۔ بلا شبہ ان کی تحریروں سے تاریخ، ثقافت اور ادب کے تمام گوشے لاعلمی کے اندھیروں سے نکل کر علم پر روشنی ڈالیں گے. بلے صاحب کے وسیع المشربی اور ملنساری کے بارے میں اصغر ندیم سید کایہ کہنا کہ ”ان کا دسترخوان ان کی آخری سانس تک بے حد وسیع رہا"، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سید فخرالدین بلے صاحب کی علمی اور ادبی شخصیت ایک دسترخوان ہے، جس میں طرح طرح اور رنگ برنگ کلیاں کھل گئی ہیں اور ان کی مہک سے اردو ادب کو مہکایا جائے گا۔
میں بعد مرگ بھی بزم  وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل، مرا مزار نہ پوچھ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے