حق والے حسین

حق والے حسین

خاکہ نگار : غضنفر

حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

عالمی شہرت یافتہ شاعر شہر یار کا یہ شعر بے شک سچ پر مبنی ہے مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ آج بھی کچھ سرفروش گھروں سے نکلتے ہیں، میدانِ پُرخطر میں راہِ پُرخار پر آگے بڑھتے ہیں۔ اہل جفا کار اور ستم شعار کے سامنے زبانیں کھولتے ہیں اور یزیدِ عصر کے حضور بھی حق بات بولتے ہیں۔
ان سرفروشوں میں ایک عہدِ حاضر کے حسین بھی ہیں۔ کسی مسئلے کو سننا ہو، کسی قضیے پر بولنا ہو، کسی آواز پر لبیک کہنا ہو، کسی کتاب کو پڑھنا ہو، کسی موضوع پر لکھنا ہو، کوئی علمی دَر وا کرنا ہو، کسی ادبی معرکے میں سرگرمِ عمل ہونا ہو، کسی عمل پر ردّ عمل ظاہر کرنا ہو، عمل خواہ سیاسی ہی کیوں نہ ہو کہ جس کے ردّ عمل پر معتوب ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو، حسین کو میں نے ہمیشہ ہی آگے پایا اور ہر جگہ، ہر محاذ پر مستعد، متحرک، منطقی، معروضی اور متوازن محسوس کیا۔
آج کا یہ حسین راہِ حق پر اس لیے پائوں بڑھاتا ہے اور سلگتے ہوئے شراروں کو دیکھ کر ہچکچاتا نہیں کہ اس کے شانوں پر سر موجود ہے۔ وہ سر جس میں سودا ہوتا ہے، سودا جو سروں کو بلند رکھتا ہے، کبھی جھکنے نہیں دیتا۔ جو بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑتا ہے۔ ہمارے اس حسین کے سر میں سودا تو ہے ہی، اس سودے میں دیوانگی کے ساتھ فرزانگی بھی شامل ہے۔ فرزانگی جو حق اور باطل کا ادراک کراتی ہے۔ خیر اور شر کے امتیاز کا احساس پیدا کرتی ہے۔ مشاہدے کے کرب کو شدید بناتی ہے اور جذبۂ جنوں کو فزوں تر کرتی ہے۔ جو جوش اور ہوش میں توازن برقرار رکھتی ہے۔ سر میں رہنے والا ایسا سودا اپنے سودائی کو بے باک تو بناتا ہی ہے اسے تناسب اور توازن بھی بخشتا ہے۔
اسی لیے ہمارا یہ حسین متوازن انداز میں بے باکی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کسی بھی سچی اور اچھی بات پر چپ نہیں رہتا۔ جھوٹی اور بری بات پر اپنے ہونٹ بند نہیں رکھتا جیسا کہ ان دنوں سچی اور اچھی یا جھوٹی اور بری بات سن کر بھی لوگ چپ رہ جاتے ہیں۔ تائید و تصدیق، تعریف و توصیف یا تردید و تنقید اور تنقیص و تنبیہ میں منہ نہیں کھولتے اور کسی دبائو میں کبھی کھولتے بھی ہیں تو نہایت احتیاط کے ساتھ نپے تلے انداز اور مدھم آواز میں بولتے ہیں۔ اس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں اور ایسی ساودھانی برتتے ہیں کہ کہیں سے کسی طرح کی گرفت میں نہ آجائیں۔ کسی کو خوش کرنے میں کوئی دوسرا ناراض نہ ہوجائے مگر ہمارا حسین ایسا کچھ نہیں کرتا۔ کسی بھی طرح کی مصلحت کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔ وہ اچھی اور سچی بات پر بغیر اپنا نفع نقصان سوچے بولتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں کسی بھی مرحلے پر کسی طرح کا کلکولیشن نہیں کرتا۔ اوپر اٹھنے یا نیچے جھکنے کا تخمینہ نہیں لگاتا۔ تعریف و توصیف میں بنیا گیری نہیں کرتا۔ اس کے لیے حاتمی انداز اختیار کرتا ہے۔ دل اور دماغ دونوں کھول دیتا ہے اور جو کچھ جس طرح بولنا ہوتاہے بول دیتا ہے۔ اسے یہ بھی لکھنے میں عار نہیں ہوتا کہ اسے خوشی ہے کہ فکشن کے میدان میں اس کا چھوٹا بھائی اس سے آگے نکل گیا ہے۔ تعریف و تحسین کرتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے بیان سے کسی کا قد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا قد چھوٹا ہورہا ہے۔ [بری اور جھوٹی بات کی سختی سے تردید کرتا ہے اور ایسے میں کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اس کا یہ عمل خسارے کا سودا ثابت ہوسکتا ہے۔] حسین کا یہ وہ وصف ہے جو معاصرین میں کسی کو میسر نہیں۔ اس طرح کے جملے لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس طرح کا فقرہ اسی دل سے نکل سکتا ہے جس میں خانقاہوں جیسی وسعت ہو، فقیروں جیسی قناعت ہو اور جس کے مراقبے میں استغنائی ریاضت ہو یا پھر اس طرح کی باتیں کوئی ادب کا یودّھا کرسکتا ہے۔ حسین اس میدان کے واقعی یودّھا ہیں۔ ان میں ہر طرح کی طاقت موجود ہے۔ وہ سچ کو صرف سچ کہتے ہی نہیں بلکہ اسے منوانے کے لیے حجتیں بھی کرتے ہیں۔ مگر ان کی حجت کٹ حجتی نہیں ہوتی۔ اس حجت میں منطق ہوتی ہے۔ منطق میں علم کا نور اور استدلال کا وفور ہوتا ہے۔ وہ حجت حجتِ قاطع ثابت ہوتی ہے اور اگر کبھی مقابل کی دلیلِ ناطق کے سامنے کم زور پڑتی ہے تو حسین خوب صورتی سے خاموشی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ حق کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں حسین کے ہاتھ نہیں، زبان چلتی ہے، بارود نہیں وہ لفظوں کے گولے پھینکتے ہیں اور اس لسانی گولہ باری کی مہم میں ادبی سلیقہ شعاری سے کام لیتے ہیں۔ تخلیقی پینترے دکھاتے ہیں، منطق کے تیر چھوڑتے ہیں۔ سچ کی لڑائی وہ صرف لڑتے ہی نہیں بلکہ معرکۂ حق و باطل کو صفحۂ قرطاس پر بھی لاتے ہیں۔ قوموں کے درمیان پنپنے والی فرقہ واریت، ان کے باطن میں فروغ پانے والی احیا پسندی اور بنیاد پرستی کی کش مکش کو اس طرح دکھاتے ہیں کہ افسانوی بساط جنگ کا میدان بن جاتی ہے۔ ذہن و دل میں ہونے والے تصادم کی نئی جہتیں بھی ابھر آتی ہیں۔
حسین اپنی تحریروں میں اس صورتِ حال کو بھی سامنے لاتے ہیں کہ کس طرح آزادی کے ملتے ہی وطن پرستی، انسان دوستی، فرقہ ورانہ یک جہتی اور ایثار و قربانی کے جذبے خاک میں مل گئے اور زمینِ سرسبز سے ہوس پرستی، بالادستی، چھینا جھپٹی، جبر و زیادتی، رنجش و دشمنی اور بغض و کینہ توزی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ساتھ ہی اس تلخ حقیقت کو بھی دکھاتے ہیں کہ کس طرح اپنی وراثت اور اقدار کا امین بدلے ہوئے تعلیمی ماحول کی چکا چوند اور کساد بازاری کی دوڑ میں بے وقعت اور بے بس ہو کر رہ جاتا ہے اور ایک جاہل، ان پڑھ گنوار، نالائق اپنی عیّاریوں، مکاریوں اورتگڑم بازیوں سے صاحبِ ذی شعور و ذی وقار بن بیٹھتا ہے۔
حسین پیاس کی شدت، پیاسوں کے اضطراب اور پانی پر بٹھائے گئے پہرے پر بھی بولتے ہیں اور اس طرح بولتے ہیں کہ سن کر دلوں میں گرداب ابھر آتاہے۔ آنکھوں میں سیلاب آجاتا ہے۔
وہ اس عمارت کے انہدام پر بھی چپ نہیں رہ سکے جس پر ایک ساتھ نہایت بے دردی سے ہزاروں ہتھوڑے برسائے گئے اور جس کی بنیاد تک کی اینٹیں نکال لی گئیں اور ان اینٹوں کے ساتھ وہ وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ جسے دیکھ کر شرم سے زمانے کی آنکھیں جھک گئیں۔ انسانیت درد سے کراہ اٹھی۔
حسین کے بول جان دار اور کاٹ دار اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کی شخصیت بے باک اور دھار دار ہے۔ ان کی بے خوفی ان کی زبان کو بھی تیغ بے میان بنادیتی ہے۔ ایسی تیزی اور طرّاری عطا کردیتی ہے اور آب داری بخش دیتی ہے کہ اسے راہ کی کوئی رکاوٹ روک نہیں پاتی۔ حسین کی زبان کا یہ ایسا جوہر ہے کہ جو زبان کے جوہریوں کو بھی حیران کردیتا ہے۔ شاید اسی لیے ان پر کسی سمت سے کوئی لسانی تیر نہیں پھینکا گیا۔ یہاں تک کہ لکھنوی لسانی کمانیں بھی ان کی طرف نہ تن سکیں جیسا کہ اکثر یورپ کے ساکنانِ ادب پر تنتی رہتی ہیں۔ حسین کی زبان شاید اس لیے بھی اہل زبان کے طنز و تعریض کا نشانہ نہیں بن پاتی کہ اسے خانقاہی اور لسانی درس گاہی دونوں طرف کی پشت پناہی حاصل ہے۔
حسین کے لسانی معرکے رسالوں میں تو ملتے ہی ہیں فیس بک کے اوراق پر بھی نظر آتے ہیں اور حسین یہاں بھی اتنے ہی سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں جتنا کہ رسائل و جرائد کے صفحات پر محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی زبان دانی اور انشا پردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کا بے تکلف قسم کا حظ بھی پرتکلف مضمون کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جس کی نمایاں مثال رسالہ سوغات کے ایک شمارے کے خطوط کے کالم میں شامل ان کا مراسلہ بھی ہے۔
حسین چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے بھی لب کھولیں، کوئی چپ نہ رہے، سبھی بولیں، ایسا وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ ؎
اس رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر ہم سے اکیلے نہیں ہوگا
ضروری اس لیے ہے کہ اماوس کو ہٹائے بغیر چاند کو نہیں دیکھا جاسکتا۔
***
یہ بھی پڑھیں :کنفیشن از غضنفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے