برصغیر کے معروف فکشن نگار حسین الحق کے انتقال پر تعزیتی نشست

برصغیر کے معروف فکشن نگار حسین الحق کے انتقال پر تعزیتی نشست

نئی دہلی/ آج بروز جمعہ، 24/دسمبر، 2021ء کو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی، میدان گڑھی، نئی دہلی کے اسکول آف ہیومنٹیز میں ڈسپلن آف اردو کے زیر اہتمام اردو کے معروف و ممتاز فکشن نگار حسین الحق کی رحلت پر ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس تعزیتی نشست میں ڈسپلن آف اردو کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر لیاقت علی نے کہا کہ حسین الحق اردو فکشن کا ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے اردو فکشن کے میدان میں انتہائی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے انتقال سے اردو زبان و ادب کا ایک بڑا خسارہ ہوا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ ان کے ناولوں اور ان کے افسانوں میں ہم عصر زندگی کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ ڈسپلن آف اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احمد علی جوہر نے اس تعزیتی نشست میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حسین الحق عہد حاضر میں اردو فکشن کے ایک اہم ستون تھے۔ ان کے انتقال سے اردو فکشن کا ایک ستون منہدم ہوگیا۔ پروفیسر حسین الحق افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے لکھ رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب افسانہ نگاری میں نئے نئے تجربے ہو رہے تھے علامت نگاری کا بول بالا تھا، شعور کی روکی تکنیک کے ساتھ ساتھ کہانیاں لکھنا ایک فیشن بن چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اس رجحان اور اس رویے کو اپنایا، لیکن اس ڈھنگ سے اپنایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جدید افسانوں کی دنیا میں ان کا نام اہمیت کا حامل بن گیا۔ حسین الحق نے نئی علامتوں، نئے استعاروں اور نئے اسالیب بیان کے ذریعے اردو فکشن کو ایک نئی جہت سے متعارف کرایا۔ ان کے موضوعات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ان کا انداز بیان پیچیدہ بھی ہے اور دل کش بھی۔ ان کی افسانوی تحریریں ادبی اعتبار سے گراں قدر اہمیت کی حامل ہیں۔ ڈسپلن آف اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شاکر علی صدیقی نے اس تعزیتی نشست میں اپنے اظہار تاثر میں کہا کہ حسین الحق اردو کے انتہائی ممتاز فکشن نگار تھے۔ انھیں اردو افسانوں میں اظہار کی تیز ترین دھار، نئے نئے الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں انفرادیت حاصل ہے اور معاصر فکشن نگاروں میں جن لوگوں نے نوجوان قلم کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں حسین الحق صاحب کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ڈسپلن آف اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر دھرم ویر نے اپنے تاثراتی اظہار میں کہا کہ حسین الحق اردو فکشن کا ایک روشن باب تھے۔ ان کے انتقال سے اردو فکشن کا جو گہرا خسارہ ہوا ہے اس کی تلافی بہت مشکل ہے۔ ڈسپلن آف اردو کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر عبد الحفیظ نے اپنے اظہار تاثر میں کہا کہ اردو کے ممتاز فکشن نگار جناب حسین الحق صاحب کہانی کار کے ساتھ ساتھ ایک معلم، مفکر، فلسفی، تاریخ داں، متصوّف، ماہرنفسیات، مصلح اور عالمی ادبیات کے عارف بھی تھے۔ ان کی شخصیت کے یہ پہلو ان کے ناولوں اور افسانوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حسین الحق کی یہ خصوصیات انھیں ہم عصر فکشن نگاروں سے الگ کرتی ہیں اور ان کی کہانیاں صرف کہانیاں نہیں رہتیں وہ ہمارے ادب عالیہ کا اہم فن پارہ بن جاتی ہیں۔ ڈسپلن آف اردو کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے اپنے اظہار تاثر میں کہا کہ حسین الحق نے معاشرتی شعور سے اپنا تخلیقی نظام قائم کیا ہے۔ انھوں نے فکشن کے رائج سانچوں کو توڑ کر اظہار کے نئے رویوں کو فروغ دیا ہے۔ ناول فرات اس کی واضح مثال ہے جو تشنہ لب انسانیت کا اعلامیہ ہے۔
حسین الحق صاحب کے تقریباً دو سو افسانے، ڈیڑھ سو مضامین، سات افسانوی مجموعے، تین عہد ساز ناول اور چار نثری کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو فکشن کے میدان میں حسین الحق کی گراں قدر خدمات کی پذیرائی میں انھیں ساہتیہ اکیڈمی کے باوقار انعام سے سرفراز کیا گیا۔ حسین الحق اردو کے بلند پایہ فکشن نگار تھے۔ ان کے انتقال سے اردو فکشن کا جو خسارہ ہوا ہے اس کی تلافی برسوں ممکن نہیں۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :حق والے حسین

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے