اشاریہ اردو افسانہ-چند وضاحتیں

اشاریہ اردو افسانہ-چند وضاحتیں

(عطا خورشید کے مضمون کے جواب میں)

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور ٢٤٤٩٠١ یو.پی

سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘، دہلی کے ’نئی نظم نمبر‘ (جنوری-مارچ ٢٠١٥) میں ہندستان کے سب سے بڑے محقق، سب سے اعلا تنقید نگار اور ماہر اشاریات عطا خورشید کا مضمون ’فکروتحقیق کا اشاریہ نمبر‘ پڑھا۔ ان کی تحریر سے جو سب سے پہلا تاثر سامنے آیا وہ کہ عطا خورشید، احساس برتری سے مغلوب اور شدید ذہنی دباؤ میں ہیں ۔ان کی تحریر سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ گہرے تاسف میں ہیں کہ ان کا مضمون یا اشاریہ ’فکروتحقیق‘ کے اس اشاریہ نمبر میں کیوں شامل نہیں؟تنقید میں انھوں نے زبان و بیان اور اسلوب نگارش وہ اختیار کیا ہے جو انتہائی گھٹیا، عامیانہ اور غیر معیاری ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی تو وہ جگہ ہے جہاں کے علم و ادب اور جہاں کی تہذیب و ثقافت نیز عظمت و شوکت کو دنیا سلام کرتی ہے۔ اسی یونی ورسٹی میں بیٹھ کر عطا خورشید ایسی غیر مہذب، ناشائستہ اورغیر معیاری زبان استعمال کر رہے ہیں، جس پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا!
میرا مرتب کردہ ’اشاریہ اردو افسانہ‘ جو ’فکروتحقیق‘ کے ’اردو اشاریوں پر خصوصی شمارہ‘ میں شامل ہے، اس پر عطا خورشید نے سیر حاصل تنقید کی ہے۔ یہ اشاریہ ’فکروتحقیق‘ کے ٦٥ صفحات پر مشتمل ہے۔ بہتر ہوتا کہ موصوف اس کے دس فی صد یعنی ساڑھے چھ صفحات کا ہی گہرائی سے مطالعہ کر لیتے۔ انھیں شکوہ ہے: ”اشاریہ کی ترتیب موضوعاتی ہونی چاہیے“ (٢٨٩)۔ یہ اشاریہ افسانہ کی تحقیق و تنقید اور اس سے متعلق ضمنی مو ضوعات پر مشتمل ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ محقق کو تھالی میں سجا کر اس کا مطلوبہ مواد، اسے فراہم کر دیا جائے تو پھر وہ تحقیق کس چیز کی اور کس بات کی کرے گا؟ تحقیق تو سر کھپانے اور جدوجہد و کوشش کرنے کا ہی نام ہے!
میں نے ’اشاریہ اردو افسانہ‘ کے ابتدائی صفحات میں لکھا تھا کہ یہ اشاریہ ہندوپاک میں شائع ہونے والا اپنی نوعیت کا سب سے پہلا اشاریہ ہے۔ میں اپنے اس دعوے اور موقف پر آج بھی قائم ہوں۔ عطا خورشید یا کوئی اور صاحب اگر اس ضمن میں کسی اور اشاریہ کی بابت تفصیلات فراہم کرائیں تو میں واقعی ان کی تحقیق کا قائل بھی ہو جاؤں گا اور اپنے دعوے سے دستبردار بھی۔عطا خورشید لکھتے ہیں: ”حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر خاصا قبل فاطمہ راجا نے کام کیا تھا جو ’اردو فکشن کی وضاحتی فہرست ١٩٤٧ سے ١٩٦٧ تک‘ کے عنوان سے انجمن ترقی اردو (ہند)سے ١٩٧٥ میں شائع ہوا۔“ (ص:٢٩٠) عطا خورشید نے یہ جملہ شاید کسی قلم کار کے مضمون سے لکھ مارا ہے یعنی سرقہ کیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ بھی کر لیتے تو ان کو اس کا موضوع بھی معلوم ہو جاتا۔ بے شک فاطمہ راجا کی کتاب اردو فکشن پر ہے لیکن اس میں بیس سال کے درمیان لکھے گئے ١٠٤٢ ناولوں اور ٣١٧ افسانوی مجموعوں کی فہرست دی گئی ہے۔ یہ کتاب ۸۰۲ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے پہلے حصے میں ناولوں کو رکھا گیا ہے اور دوسرے حصے میں افسانوی مجموعوں کے نام لکھے گئے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: رومانی ناول ٨٢١، تراجم ناول ٢٢١، معاشرتی افسانے(حقیقت پسندانہ) ٢١٤، مزاحیہ افسانے ٢٢، رومانی افسانے ٣٧، تراجم افسانے ۴۴۔اس کے برعکس میرا ’اشاریہ اردو افسانہ‘ افسانے کے موضوع پر (١٩٠٣ سے ٢٠١٤ تک) جو تنقیدی اور تحقیقی مضامین و مقالات لکھے گئے، افسانے کے فن پر جو تحقیقی اور تنقیدی کتابیں شائع ہوئیں اور ہندوپاک میں افسانے کے موضوع پر جتنی ایم.فل اور پی ایچ.ڈی کی ڈگریاں حاصل کی گئیں، ان کا اشاریہ ہے۔ اس لیے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ عطا خورشید نے ’اشاریہ اردو افسانہ‘ کا مطالعہ نہیں کیا۔ قارئین بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس اشاریہ کی مثال میں فاطمہ راجا کی کتاب کا حوالہ پیش کرنا کتنی لغو بات ہے کیونکہ دونوں چیزوں کا موضوع الگ ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ناولوں اور افسانوی مجموعوں کا موازنہ وہ مضامین سے کر رہے ہیں۔ ایک فن کی کتاب کا مقابلہ اسی فن کی کسی دوسری کتاب سے کیا جا سکتا ہے۔
کسی کی غزل کا موازنہ یا فنی جائزہ ہم کسی دوسرے شاعر کی غزل سے کریں گے یا افسانہ سے؟ تنقید ٹھنڈے دماغ سے اور سوچ سمجھ کر لکھی جاتی ہے اس کے لیے اقربا پروری سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ تنقید نگار کو تنگ نظر نہیں بلکہ کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی کا حامل ہونا چاہیے اور ذاتی تعلقات یا پسند و ناپسند کو بالائے طاق یا طاق نسیاں پر رکھنا چاہیے۔ تنقید کے لیے غیر جانب داری اور دیانت داری ضروری ہے۔ کوئی تنقید تبھی کسی حیثیت کی حامل ہو سکتی ہے جب وہ ذاتی پسند و ناپسند سے اوپر اٹھ کر لکھی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سچائی اور حقیقت پر مبنی ہو۔
عطا خورشید یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں: ”مقالات لکھنے کا طریقہ بھی یہ ہونا چاہیے کہ پہلے عنوان لکھا جائے، پھر مقالہ نگار کانام، پھر رسالہ کا نام، جس میں وہ مقالہ شائع ہوا ہے، پھر اس رسالہ کا ماہ و سال، اس کے بعد صفحہ نمبر۔“ (ص:٢٩٠) میں نے ’اشاریہ اردو افسانہ‘ میں یہی ترتیب رکھی ہے جس بابت موصوف تحریر فرمارہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں نے رسالہ کا نام اوپر، عنوان کی جگہ پر درج کیا ہے اور یہ بھی محققین کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ قارئین غور فرمائیں اگر ہر سطر میں رسالہ کا نام لکھا جاتا تو یہ کتنی مضحکہ خیز صورت حال ہوتی اور محقق کو یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کس رسالہ میں افسانے کے موضوع پر کل کتنے تنقیدی یا تحقیقی مضامین شائع ہوئے۔’اشاریہ اردو افسانہ‘کسی عاشق یا محبوب کا خط نہیں ہے کہ آپ لفافے کے اوپر سے ہی اس کا نفس مضمون پہچان لیں۔ضروری تھا کہ عطا خورشید عقل کے گھوڑے دوڑانے اور اپنے ناقص مشوروں سے نوازنے کے بجائے، پہلے اس اشاریہ کا باقاعدہ اور باضابطہ باریکی سے مطالعہ کرتے اور اس کے بعد اس ناقص اور ادھوری تنقید کا اظہار کرتے، جو انھوں نے لکھی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اپنے جوش خطابت اور سب کچھ جاننے کے زعم میں وہ ایسی چیزیں بھی لکھ گئے ہیں جن پر یا تو تبسم ہی کیا جا سکتا ہے یا ان کے علم پر شک!  ان کی تحریر کا نقص، معلومات کا فقدان اور مطالعہ کی کم فہمی کا اندازہ اس پیراگراف سے بھی لگایا جا سکتا ہے: ”اس اشاریہ (اشاریہ اردو افسانہ) میں بنیادی کمی یہ نظر آتی ہے کہ اگر کوئی محقق خاص موضوع پر اپنا مواد تلاش کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے ٦٥ صفحات (ص:٧٩-١٤٣) پر مشتمل مکمل اشاریہ دیکھنا ہوگا مثلاً اگر کوئی شخص پریم چند یا قرۃ العین حیدر کے افسانوں پر مواد تلاش کرنا چاہے تو اس اشاریہ میں کسی ایک جگہ اس موضوع پر چیزیں نہیں ملیں گی۔“ (ص:٢٩٠)
ماشاء اللہ! تنقید کے لیے جس صلاحیت اور مطالعہ کے جنون کا ہونا ضروری ہے اس سے عطا خورشید کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ میرا ’اشاریہ اردو افسانہ‘ افسانے کے موضوع پر لکھے گئے تحقیقی و تنقیدی مضامین و مقالات اور کتابوں کا اشاریہ ہے۔ یہ کسی طرح بھی شخصی اشاریہ نہیں ہے۔ افسانہ نگاروں پر لکھے گئے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مضامین میری نظر سے، اشاریہ بنانے کے دوران گزرے ہیں لیکن میں نے ان سے صرف نظر کیا ہے۔ اس اشاریہ میں، بہت ناگزیر سمجھتے ہوئے قلم کاروں پر لکھے گئے مضامین میں سے، صرف تین چار مضامین کا حوالہ دیا ہے کیونکہ یہ اشاریہ شخصی اشاریہ نہیں ہے اگر میں اس اشاریہ میں افسانہ نگاروں کی شخصیات اور ان کے فن پر لکھے گئے مضامین بھی شامل کر لیتا تو پھر یہ اشاریہ ٦٥ صفحات پر نہیں بلکہ ایک ہزار سے بھی زیادہ صفحات پر مشتمل ہوتا۔ بغیر ’اشاریہ اردو افسانہ‘ کا بہ غور مطالعہ کیے، عطا خورشید نے وہ بے سر پیر کی باتیں لکھی ہیں جن سے اس اشاریہ کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ موجوہ دور کی اس عام بے راہ روی کا شکار ہیں جو کتابوں پر تبصرہ لکھنے کی روش کا ایک حصہ ہے۔ متعدد رسائل میں بہت سی کتابوں پر ایسے تبصرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے کتاب کے مواد، متن یا موضوع کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا کیونکہ سہل پسندی کی وجہ سے ایسے تبصرے کتاب کو پڑھ کر نہیں بلکہ محض اس کو سونگھ کر لکھے جاتے ہیں۔ رضالائبریری کے تعلق سے میں نے اشاریہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ یہاں اپنی موجودگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سبب سے لکھا ہے کہ مجھے اس کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ یہاں اسکالرز اور محققین کو مکمل سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، فوٹو کاپی، سی ڈی کتابوں کی بروقت فراہمی، رہائش وغیرہ۔ کتابوں کی خریداری کی صورت میں قلم کاروں کی معاونت کی جاتی ہے جب کہ ملک کے ایسے ہی کئی بڑے اداروں کا یہ حال ہے کہ کتاب اگر بل کے ساتھ بھیجو تو دو دو سال تک چیک نہیں ملتا۔ تحفہ میں کتاب ارسال کرو تو ’شکریہ‘ تو بڑی بات ہے، کتاب پہنچنے کی رسید بھی نہیں دی جاتی۔ یہ صرف میری نہیں بلکہ عام لوگوں کی شکایت ہے۔ رضا لائبریری کے مقابلے میں عطا خورشید نے جن لائبریریوں کے نام لکھے ہیں اس ضمن میں ان کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی لائبریری نہ تو عمارت کے بڑے اور وسیع ہونے سے بڑی ہوتی ہے اور نہ کتابوں یا مخطوطات کی زیادتی سے بلکہ اس کا بڑا پن اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں کس نوعیت کی کتابیں ہیں۔ رضا لائبریری میں کتابوں اور مخطوطات کے علاوہ بھی جو کچھ عظیم ذخیرہ موجود ہے وہ عطا خورشید کے علم میں ہے لیکن ذاتی بغض و عناد اور مخاصمت انھیں اس امر کا اعتراف کرنے سے مانع ہے۔
عطا خورشید اپنے مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں: ”اشاریہ کے آغاز میں…….مآخذی فہرست میں بھی کوئی ترتیب نہیں ہے مثلاً آغاز ماہنامہ’نیا دور‘ لکھنؤ سے اور آخری اندراج ’فکروتحقیق‘ دہلی کے افسانہ نمبر کا ہے۔ ’اشاریہ نیا دور‘ نہ تو اردو کا پہلا اشاریہ ہے اور نہ ہی الفبائی ترتیب میں اسے اولیت کا درجہ حاصل ہے تو اسے اول نمبر پر رکھنے کا کیا جواز ہے؟“ (ص:٢٩٠) میرے پاس ’اشاریہ نیا دور‘ کو اول نمبر پر رکھنے کا جواز بھی موجود ہے اور جواب بھی لیکن اس سے پہلے ’فکروتحقیق‘ کے اشاریہ نمبر میں ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین صاحب کے اداریہ (حرف اول) کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ”اطہر مسعود خاں کو اشاریہ سازی میں خصوصی دل چسپی ہے اور انھیں ماہنامہ ’نیا دور‘ لکھنؤ کی اشاریہ سازی کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی تفویض کی گئی ہے۔ انھوں نے ہماری خصوصی درخواست پر اردو افسانے کا اشاریہ تیار کیا ہے جو کہ اپنی طرز کا اردو میں پہلا اشاریہ ہے جسے ’فکروتحقیق‘ میں شائع کرکے ہمیں مسرت کا احساس ہو رہا ہے۔“ (ص:۶-۷)
میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ ادارہ ’فکروتحقیق‘ نے مجھے اتنی اہم اور خصوصی خدمت کا موقع دیا۔ بہ قول عطا خورشید: ”یہ اشاریہ ٣٧ مختلف اشاریوں کا چربہ ہے۔“ میں کہتا ہوں یہ اشاریوں کا چربہ نہیں بلکہ خود ان کی چرب زبانی ہے۔ اس اشاریہ کو ترتیب دینے میں لگاتار تین چار ماہ، دن و رات محنت کی گئی ہے۔جہاں تک اشاریوں کو مآخذ کے طور پر استعمال کرنے کی بات ہے تو میں نے صرف چند اشاریوں سے ہی مدد لی ہے، باقی دیگر سب اشاریے رسائل کے سیکڑوں شماروں کی مدد سے خود ہی تیا ر کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ’ایوان اردو‘، دہلی کا اشاریہ فاروق انصاری نے ١٩٨٧ سے ١٩٩٢ تک صرف پانچ سال کا بنایا تھا۔ میں نے ان کے اشاریہ سے کوئی مدد نہیں لی اور ١٩٨٧ سے اپریل ٢٠١٤ تک کے سارے شماروں کا اشاریہ خود مرتب کیا۔اسی طرح آجکل کا اشاریہ ١٩٨٦ تک اور نیا ایڈیشن ٢٠٠٠ تک کے شماروں پر مشتمل ہے۔ میں نے اسے بھی اپ ڈیٹ کیا اور جنوری ٢٠٠١ سے اپریل ٢٠١٤ تک کے شماروں کا اشاریہ خود مرتب کیا اور مزے کی بلکہ فراخدلی کی بات یہ کہ نہ اپنے نام کا اظہار کیا اور نہ اس پر اپنا نام ڈالا بلکہ جمیل اختر کا ہی نام رہنے دیا۔
یہ ٹھیک ہے کہ مآخذی فہرست میں، میں نے ترتیب نہیں رکھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارہ کی فرمائش (میرے لیے حکم) پر یہ کام کیا جا رہا تھا۔ ادارے کی طرف سے اس کام کو جلد مکمل کرنے کے تقاضے تھے کیونکہ پرچہ کی اشاعت میں تاخیر ہو رہی تھی۔ پھر بھی محض ’اشاریہ اردو افسانہ‘ کی وجہ سے رسالہ ایک ماہ تاخیر سے شائع ہوا۔ اس صورت حال میں جو اشاریہ تیار ہوتا گیا، میں اس کو ترتیب سے لگاتا گیا۔ ’اشاریہ نیا دور‘ کو اول نمبر پر رکھنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ یہ اشاریہ میرے پاس پوری طرح اور سب سے پہلے تیار تھا۔
عطا خورشید کو یہ بھی شکایت ہے کہ ’اشاریہ اردو افسانہ‘ میں مضامین کے ساتھ،ان کے شروع ہونے کے نمبر کا تو اندراج ہے لیکن آخر کے نمبر کا اندراج نہیں ہے جس سے مضامین کی ضخامت کا اندازہ کیا جا سکے۔ دروغ گوئی کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ قارئین کو گمراہ کرکے آخر کہنا کیا چاہتے ہیں؟یہاں بھی وہ خود جوش بیان میں افراط و تفریط کا شکار ہو گئے ہیں۔ تنقیدی تحریریں جوش میں نہیں بلکہ ہوش و حواس درست کرکے لکھی جاتی ہیں۔ اگر انھوں نے اشاریہ کا بہ غور مطالعہ کیا ہوتا تو شاید انھیں یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ مجھے ان کی ہر فضول اور جھوٹ بات کا جواب دینا پڑتا۔ خود ان کی، رسائل کے مشتملات کی فہرست (مولانا آزاد لائبریری ڈوکومنٹیشن سروس،اردو) میں نے اپنے ’اشاریہ اردو افسانہ‘ میں شامل کی ہے۔ پہلے وہ خود بتائیں کہ انھوں نے اس فہرست میں مضامین کے، صرف شروع ہونے کے صفحہ کا اندراج کیوں کیا ہے جب کہ ان کو ہر مضمون کے اختتام کا صفحہ نمبر بھی لکھنا چاہیے تھا اور مولانا آزاد لائبریری میں سارے رسالے موجود بھی تھے پھر بھی انھوں نے اس کام کو نہایت غیر ذمہ داری سے انجام دیا۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’اشاریہ اردو افسانہ‘ میں تقریباً بیس رسائل کے اشاریے شامل ہیں جن میں سے نیادور لکھنؤ، گلبن (احمدآباد) لکھنؤ، شاعر ممبئی، انشاء کولکاتا، کتاب لکھنؤ، کتاب نما دہلی، ذہن جدید دہلی، کے اشاریے میں نے خود بنائے ہیں اور ان میں مکمل صفحات کا اندراج کیا ہے۔ اس کے علاوہ آجکل دہلی (جمیل اختر)، بادبان کراچی(اسد فیض)، نیا دور کراچی (نثار احمد فیضی) اور فکروتحقیق دہلی(عائشہ خانم) دوسرے محققین کے ترتیب دیے ہوئے ہیں جن میں مکمل صفحات کا اندراج کیا گیا ہے۔ باقی اشاریے جو میں نے بنائے ہیں، وہ کتابوں کے ہیں یا رسائل کے ہیں تو وہ دوسرے لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں جن میں مضامین کے صرف ابتدائی صفحات کا اندراج کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ عطا خورشید نے ’اشاریہ اردو افسانہ‘ کے ذیل میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس میں تحقیق کا فقدان ہے اور تحریر کا بیشتر حصہ بغض و عناد پر مشتمل ہے۔ تنقید وہی اچھی مانی جاتی ہے جس میں تحقیق کا عنصر بھی نمایاں ہو۔ بہرحال عطا خورشید کے حق میں بہتر یہ تھا کہ وہ قارئین کو گمراہ کرنے اور ان کے قیمتی وقت کا زیاں کرنے سے پہلے’اشاریہ اردو افسانہ‘ بلکہ پورے اشاریہ نمبر کا بہ غور مطالعہ کرتے، پھر کچھ لکھتے تو شاید ان کی تحریر میں کچھ وزن بھی ہوتا۔***
Dr. Mohammad. Athar Masood Khan
Ghaus Manzil, Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U. P. India
Mob:91 9520576079

آپ یہ بھی پڑھیں: کہانی کا سفر: داستانوں سے افسانے تک از ڈاکٹر اطہر مسعود خاں 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے