سید فخرالدین بلے: ایک منفرد تخلیقی شخصیت

سید فخرالدین بلے: ایک منفرد تخلیقی شخصیت

سید تابش الوری (تمغہ امتیاز) 

(سید فخرالدین بلے. ولادت : 15۔دسمبر1930.(ہاپوڑ) میرٹھ. وفات : 28۔جنوری 2004 (ملتان) پنجاب
91۔واں یوم ولادت 15۔دسمبر کو منایا گیاہے)

کچھ لوگ بڑے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اتفاقات سے بڑے ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی محنت و ذہانت سے بڑے بنتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک سبب ہی کسی کوبڑابنانے کےلیے کافی ہوتاہے لیکن جہاں ان تینوں اسباب کاامتزاج ہوجائے، وہاں بڑا آدمی کس کمال کاہوگا؟ اس کا ایک عکس سید فخرالدین بلے کی شخصیت میں دیکھا جاسکتاہے۔ جوایک بڑے علمی اور تہذیبی خانوادے میں پیداہوئے۔ حسن اتفاقات نے پروان چڑھایااور محنت و ریاضت نے منزل تکمیل تک پہنچادیا۔
انسانی شخصیت قدرت کاتخلیقی معجزہ ہے، جس میں امکانات و تنوعات کے ایسے رنگ و آہنگ، اتنے صفاتی زاویے اور اس قدر معنوی پہلو سمودیے گئے ہیں کہ ان کا تصور و ادراک ممکن نہیں۔ کسی شخصیت میں کسی ایک صفت کی تجلی ہی اسے کامرانی کاستارہ بناسکتی ہے لیکن جہاں جہت در جہت اور پہلو بہ پہلوذات و صفات کی کہکشاں
سجی ہو، اس کی رنگارنگی لفظوں میں مصور نہیں کی جاسکتی۔
فخرالدین بَلّے بھی شخصیتوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی خصوصیات و معمولات کی بوقلمونی ان کے شخصی خدوخال کاایک دل کش خاکہ ابھارتی ہے۔ بَلّے صاحب سے میری شناسائی چھے دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ میں نے اس ماہتاب کو طلوع ہوکر چودھویں کاچاند بنتے اور غروب ہوتے دیکھاہے۔ تقسیم ہند کی مہاجرت کے نتیجے میں بہاول پور ہماری پناہ گاہ تھا، میں اپنی بیوہ والدہ کے ہم راہ ایک عزیز سے ملنے کے لیے کراچی جاتے ہوئے یہاں رکااور اس سرزمین نے پاوں پکڑ لیے۔ اور بَلّے صاحب کا خاندان اپنے عزیزوں کی وجہ سے یہاں آیا، جو قیام پاکستان سے بہت پہلے بہاول پور میں مقتدر تھا۔ ہم نے جب اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تو میرا بچپن تھا اور بَلّے صاحب کی جوانی۔
اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے طور پر بہاول پور سے سرکاری ملازمت کا آغازکیا اور ڈائریکٹر جنرل انفرمیشن و تعلقات عامہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔نیشنل سینٹر اور آرٹس کونسل کی اضافی ذمے داریاں بھی اس کیرئیرکا حصہ رہیں، جن کی ادائیگی میں بلے صاحب کی ذات و صفات کی مختلف پرتیں اور جہتیں اس بے پناہی سے سامنے آئیں کہ وہ اس شعبے کی ایک مثالی شخصیت بن گئے۔
تعلقات عامہ حکومت کا ایک بڑا اہم اور منفرد محکمہ ہے، جسے سرکاری امور غیر سرکاری انداز میں انجام دینے ہوتے ہیں اور حکومتی تشہیر کا مشکل فریضہ، صحافیوں جیسے مشکل لوگوں سے ادا کرانا ہوتا ہے۔تعلقات عامہ میں کامیابی کا انحصار اس معیار پر ہے
کہ کوئی افسر کس طرح اپنی صلاحیت سے اہل صحافت کو رام کرکے اپنا سرکاری کام کس طرح نکلوا سکتاہے۔ بَلّے صاحب پیدائشی طور پر تعلقات عامہ کے خوب صورت سانچے میں ڈھلے ہوئے ایک سحرکار آدمی تھے، جو صحافیوں کے دلوں میں اترکے ہر مشکل آسان کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے اور انھیں ارباب بست و کشاد سے برابری کی بنیاد پر دلائل کے ساتھ اپنا موقف منوانے کا زبردست ملکہ بھی حاصل تھا۔ اسی حوالے سے دوران ملازمت کئی شہروں میں تعینات رہے اور جہاں بھی رہے، داستاں چھوڑ آئے۔
بَلّے صاحب اپنی ذات میں ایک کائنات تھے۔ بوقلموں، گوناگوں اور رنگارنگ۔ بیک وقت ایک کرشمہ ساز افسر، ایک عظیم انسان، ایک پختہ کار شاعر، ایک برق رفتار نثّار، ایک غیر جانب دار محقق، ایک ہمہ جہت دانشور، ایک تیز طرار صحافی، ایک جدت طراز موسیقی نواز اور ایک فعال ادبی اور ثقافتی سفیر۔
قدرت نے انھیں عجیب رنگ و آہنگ سے تراشا تھا اور ان کے رگ و پے میں بجلیاں سی بھر دی تھیں۔ ہردم کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے بے قرار! ہر لمحہ کوئی نیا فیصلہ، نیا منصوبہ، نیاراستہ، نئے مرحلے، نئے اقدام، نئے چیلنج، نئی فکر، نئی مہم، نئی منزل۔
ایک چکر ہے مِرے پاوں میں زنجیر نہیں
تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدن، علم و فن، تجربہ و مشاہدہ، ذہانت و مہارت اور ریاضت نے ان کے صفاتی خدوخال اور زندگی کے احوال کوایسے دھنک رنگ سانچے میں ڈھالا تھا، جس کی تصویر سب کی جیسی بھی تھی اور سب سے الگ بھی. 
خوش اندامی، خوش اخلاقی، خوش لباسی، خوش دلی اور خوش فکری کاوہ ایک دل کش پیکر تھے. سراپا خود دار۔ سراپا انکسار۔ جرات و جسارت کے کوہسار۔ فراست و فطانت کی آبشار۔ رکیں تو لالہ زار اور چلیں تو باد بہار۔
میرے نزدیک بَلّے صاحب بنیادی طور پر شاعر تھے مگر ان کی بیش تر تخلیقی توانائی تعلقاتِ عامہ اور ابلاغیات نے لوٹ لی۔ اس کے باوجود انھوں نے ایک قادرالکلام شاعر کے طور پرخود کومنوایا۔ ان کی شاعری روایت اور جدت کادل کش اتّصال تھی۔ انھوں نے زندگی کو جس
جس زاویے اور جہت سے دیکھا اور تہذیب و ثقافت اور معاشرت و انسانیت کا جو گہرا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ کیا، اسے اپنی شاعری کے پیکر میں ڈھال دیا۔ کہیں کہیں ان کے اشعار مشکل اور دقیق محسوس
ہوتے ہیں، اس کی وجہ ان کا علم و فن اور تحقیق و تدقیق ہے، جس سے وہ اپنی نثرکے ساتھ اپنی شاعری کو بھی ثمرمند کرناچاہتے تھے۔ ایک چیز جوان کی شعری تخلیق کوندرت اور انفرادیت عطا کرتی ہے، وہ ان کا عارفانہ اور متصوفانہ رنگ ہے، جوکہیں ظاہر اور کہیں بین السطور اپنی چھب دکھلاتا ہے. پھران کے ہاں رومانویت روایتی دل کشی کے ساتھ روحانی تجلی کا ایک عجیب جگمگا رکھتی ہے، جو لطف بھی دیتی ہے اور سکون و طمانیت بھی۔
ان کی ابلاغی شخصیت کاتفصیلی مطالعہ تو نظر آتاہے لیکن ان کی شعری شخصیت کاتفصیلی مطالعہ ہم پر واجب ہے۔ شاید ابھی ان کا پورا کلام بھی دستیاب نہیں ہوسکا، تاہم ریزہ ریزہ جو کچھ جمع کیا جاسکا، اس سے ان کے کمال فن کی جہتوں، زاویوں، وسعتوں اور جدتوں کا بہ آسانی اندازہ ہوسکتاہے۔ حاصل مطالعہ کے طور پر ان کے چند اشعار یہاں پیش کر رہاہوں، جو ان کے شاعرانہ جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں۔

خلا کی تسخیر ہو رہی ہے
زمیں پہ انسان مر رہا ہے
وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے
خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا
ازل سے عالم موجود تک سفر کرکے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر
انساں خلا میں پہنچا تو پاسنگ رہ گیا
میں نے گردوں پہ خون دیکھاہے
لوگ کہتے ہیں پو پھٹی چپ چاپ
میں جانتا ہوں مگر تو بھی آئینہ لے کر
مجھے بتا کہ مِرا انتخاب کیسا ہے
کھڑا ہوں جادۂ حیرت پہ آج بھی تنہا
کبھی تو کوئی مسافر اِدھر سے گزرے گا
ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ
اتنا ہجوم تھا کہ میں تنہا سا رہ گیا
اتنا بڑھا بشر کہ ستارے ہیں گرد راہ
اتنا گھٹا کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا
سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں، نہ سہی
اٹھائے پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ زمیں مجھ پہ کربلا کی طرح
مٹی اڑی تو اپنی حقیقت ہوئی عیاں
جھونکا ہوا کا میرا پتا دے گیا مجھے
اپنی کتاب زیست پہ تنقید کے لیے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاؤں گا

شہر کے محتسب مجھے بھی دِکھا
ایسے دامن جو داغ دار نہیں

آگ پانی میں ہے کیا فرق کہ ہم سب کے بدن
کبھی بارش میں، کبھی دھوپ میں نم ہوتے ہیں

یوں لگی مجھ کو خنک تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لیے پَر کھولے ہیں

اس مٹی کی ہر شے پر ہے، اس مٹی کا قرض
میرے لیے ہے فرض سے پہلے اس مٹی کاقرض

ادبا اور شعرا اپنے اپنے دور میں قدر ناشناسی کے عموماً شکوہ سنج رہے ہیں، بَلّے صاحب نے محسوس کیا ہو یا نہیں، میں محسوس کرتا ہوں کہ زمانے نے ان کے غیر معمولی اوصاف سے کماحقہ انصاف نہیں کیا۔ کیسے کیسے عظیم المرتبت اور نابغہ روزگار لوگوں نے انھیں
کیسا کیسا خراج تحسین پیش کیا ہے۔
فراق گورکھپوری نے کہا سید فخرالدین بلے رنگوں کے بجائے الفاظ سے تصویریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔
جوش ملیح آبادی نے کہا سید فخرالدین بلے کے کلام میں دریا کی روانی اور جذبوں کی فراوانی ہے۔ تاریخ، ادب اور تصوف کا مطالعہ ان کے کلام میں بولتا ہوا اور سوچ کے در کھولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کہا کہ سید فخرالدین بلے کی نظم ہو یا
نثر، اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے کہا کہ تصوف پر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ آپ
بلا تکلف انھیں اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد نے کہا کہ سید فخرالدین کی شعری تخلیقات پڑھنے یا سننے کے بعد برسوں تک ان کے سحر سے آزاد ہونا مشکل ہے۔ میرزا ادیب نے کہا کہ ہر ملاقات میں ان کی شخصیت کا ایک نیا رخ سامنے آیا، میں اس کثیرالجہت شخص کو پورے اعتماد کے ساتھ علم و ادب کی آبرو قرار دے سکتا ہوں ۔
انتظار حسین نے کہا کہ فخرالدین بلے بڑی متحرک قسم کی شخصیت تھے۔ انھوں نے ملک کے تہذیبی فروغ کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا. پھر ساتھ میں شاعری بھی کی، جتنی شاعری کی، اس سے انصاف کیا۔ اس پر علمی کام مستزاد۔ پریشان خٹک نے کہا کہ فخرالدین بلے ادب کی دیو قامت شخصیت کا نام ہے۔
ڈاکٹر عاصی کرنالی نے کہا بلے ایک شخص کا نہیں، ایک یونی ورسٹی اور ایک تہذیبی ادارے کانام ہے۔ وہ بے کراں علوم و فنون کے حامل تھے۔ افتخارعارف نے کہا کہ بلے صاحب ہمارے زمانے کے یگانہ روزگار شخصیتوں میں سے تھے۔ جن کی ذات گرامی بے شمار کمالات کی جامع تھی۔
ان معرکة الآرا آرا اور تبصروں کے باوجود بلے صاحب کو مسند ادب و فن پر شہرت و مقبولیت کا وہ مقام بہ وجوہ نہیں دیا جاسکا، جو ان کے شایان شان تھا۔ شاید اس کے لی ے عہد حاضر میں ذاتی جمال کے علاوہ
کچھ اور کرشماتی احوال اور مال و مقال درکار ہوتے ہیں۔ ملازمت کے آغاز سے لے کر اس کے انجام تک اور ملازمتی فراغت سے سوئے عدم مراجعت تک بلے صاحب سے میرا مخلصانہ اور محبانہ تعلق سدا برقرار رہا اور کوئی غلط فہمی یا ناراضی کبھی اس میں کوئی رخنہ پیدا نہ کرسکی۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں کے سلسلے میں لاہور قیام ہوتا توان سے گھنٹوں گپ شپ رہتی۔پنجاب کے سابق درویش وزیراعلا غلام حیدر وائیں ہمارے مشترکہ دوست تھے۔ مسلم لیگی میگزین مسلم
لیگ نیوز، نظریاتی لٹریچر اور تشہیری حکمت عملی کے حوالے سے مسلم لیگ ہاوس میں وائیں صاحب کاکمرہ ہمارے مشترکہ جنون کامحورتھا۔ وزارت اعلا پرفائز ہونے کے باوجود ایک کارکن کی طرح ان کاخشوع و خضوع بھی قابل تحسین ہوتا تھا اور بلے صاحب کا انہماک
بھی قابل دید ۔
دوستوں کے لیے یہ بات ہمیشہ خوشگوار حیرت کاباعث رہی کہ بلے صاحب نے عمر، بیماری اور نقاہت کو کبھی فعالیت پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ جب تک بس چلا پریشانیوں کوٹہلاتے رہے اور زندگی کاساغر چلاتے رہے۔
ایک روز وقت طے کرکے میرے پاس بہاول پور تشریف لائے۔ کہنے لگے اس دفعہ میری آمد خاص الخواص ہے۔میں نے کہا عام العوام کب ہوتی ہے؟ میرے لیے ہمیشہ خاص ہوتی ہے۔ فرمانے لگے مذاق چھوڑیے. میں ایک انتہائی سنجیدہ مسئلے پر بات کرنے آیاہوں۔۔آپ کو معلوم ہے کہ میرے تعلقات ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں مگر میں نے سارے پاکستان میں اس کے لیے آپ کا انتخاب کیا ہے۔ ان کی گفتگو میں تجسس ڈرامائی شکل اختیار کررہا تھا ۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے قافلہ کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی تھی، لاہور میں ادبی پڑاؤ کے عنوان کے تحت میرے گھر پر برس ہابرس تک اس کی تقریبات ہوتی رہی ہیں۔ جن میں لاہور ہی کے نہیں بلکہ
باہر سے آنے والے نامور ادیب، شاعر اور نقاد شریک ہوتے رہے ہیں۔ میرے لاہور چھوڑنے کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں آپ بہاول پور میں اپنے گھر اس سلسلے کا آغاز کریں۔ یہ کام باقاعدگی سے صرف آپ ہی کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا آپ نے انکار یا فرار کی
گنجائش ہی نہیں چھوڑی. آپ کی اس خواہش کی تکمیل میرے لیے اعزاز ہوگا۔ چنانچہ اسی شام میرے گھر پر بہاول پور کے منتخب نامور شعرا اور ادبا کا اجلاس ہوا اور بلے صاحب کی موجودگی میں یہ طے ہوا کہ ہر ماہ کی سولہ تاریخ کوبعد نماز مغرب میرے گھر پرادبی
پڑاو ہوگا اور اس کااہتمام ہماری تنظیم مجلس ثقافت پاکستان کیا کرے گی۔ وہ دن ہے اور آج کادن ادبی پڑاو برس ہا برس سے بلاناغہ جاری ہے۔ جس سے بلے صاحب کی یاد بھی تازہ ہورہی ہے اور یہ پڑاو اب بہاول پور کی ایک مستقل روایت کی حیثیت بھی اختیار کرگیا ہے۔یوں
سید فخرالدین بلے بہاول پور کی سرزمین میں تہہِ خاک آسودہ ہیں مگر بہاول پورکے ادبی آسمان پر بدستور تابندہ ہیں۔
سید فخرالدین بلے صاحب کی شخصیت، فن اور خدمات سے متعلق مشاہیر اور احباب نے محبتوں کے جو پھول اپنی تحریروں کی صورت میں ان کی نذر کیے، انھیں میں نے سید فخرالدین بلے۔ ایک داستان ۔ ایک دبستان کے عنوان کے تحت ایک گلدستے کی شکل دے دی
ہے۔ ادب دوست تعاون نہ کرتے تو خوب صورت مضامین و آراء کو کتابی شکل میں مدون کرنا آسان نہ ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں بلے صاحب کا کلام، کام اور مقام تاریخ ادب و ابلاغیات میں
ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گااور ممکن ہے کہ یہ کاوش ان پر تحقیق کا نیادروازہ کھول دے۔
***

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : سید فخرالدین بَلے کا مکتوب بہ نام ڈاکٹر وزیر آغا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے