کہانی کا سفر: داستانوں سے افسانے تک

کہانی کا سفر: داستانوں سے افسانے تک

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور ٢٤٤٩٠١ یو.پی،انڈیا
موبائل نمبر:  9520576079

کہانی سے انسان کی دل چسپی اور اس مشغلے سے اس کا فطری لگاؤ اجتماعی زندگی کی ایک ایسی حقیقت ہے جسے کبھی نظر انداز اور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں اپنے حالات کو جس طرح بیان کرتا تھا، اس سے اس کو مسرت و خوشی حاصل ہوتی تھی۔ آگے چل کر یہ آپ بیتی اور اس سے آگے بڑھ کر کہانی یا داستان کا نقطۂ آغاز قرار پایا۔ تھکے ہارے انسان کو قصہ کہانی، کہنے یا سننے میں قلبی مسرت کے ساتھ ذہنی سکون بھی حاصل ہوتا تھا۔ جیسے جیسے انسان نے دشت و بیابان سے نکل کر لہلہاتے سر سبز کھیتوں اور ہرے بھرے باغوں سے اپنا رشتہ جوڑا، اسے کہانی یا داستان کے لیے نئی فضا کے ساتھ نئے موضوعات بھی حاصل ہوئے۔ کہانی انسان کی دل چسپی کا ایک سریع الاثر اور بہترین ذریعہ ہے۔ کہانی حقائق کی دنیا سے دور تخیل، تصور اور رومان کی ایک خوب صورت و دل کش تصویر ہے۔ کہانی کا یہی حقیقی تصور دراصل ہماری داستانوں کا بنیادی اور اساسی مآخذ ہے۔
اردو داستانوں کی تاریخ انیسویں صدی کے نصف آخر میں شروع ہوتی ہے۔ اس لیے بعض محققین کے نزدیک ملا وجہی کی سب رس پہلی داستان مانی جاتی ہے اور جس تصنیف کو ہم باقاعدہ سب سے پہلی داستان کہہ سکتے ہیں، وہ تحسین کی نوطرز مرصع ہے۔ اس کے چند سال بعد فورٹ ولیم کالج کا دور شروع ہوتا ہے اور نوطرز مرصع یا باغ و بہار اور انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی کو چھوڑ کر بیسویں صدی میں جتنی داستانیں معرض وجود میں آئیں ان میں زیادہ تر فورٹ ولیم کالج کے منصوبے کے تحت یا حکمت عملی کے مقصد سے لکھی گئیں۔ اس دور کی معروف اور خوب صورت داستانوں میں میر امن کی باغ و بہار، حیدر بخش حیدری کی آرائش محفل، خلیل خاں اشک کی داستان امیر حمزہ، للو لال کی بیتال پچیسی وغیرہ کافی مشہور ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کے دور کے بعد انیسویں صدی کے آخر تک جو بے شمار داستانیں تصنیف ہوئیں ان میں محمد بخش مہجور کی نورتن، رجب علی بیگ سرور کی فسانۂ  عجائب، نیم چند کھتری کی گل صنوبر اور دوسرے قلم کاروں کی الف لیلیٰ، بوستان خیال، طلسم ہوشربا، سروش سخن، طلسم حیرت وغیرہ زیادہ مشہور ہوئیں۔ قاری ان دل کش داستانوں میں تقریباً ایک ہی قسم کی رنگینی، زبان کی لطافت، واقعات کی ندرت اور دل چسپی محسوس کرتا ہے۔ کہانی کو طویل بنانے کے لیے داستان نویسوں نے عموماً یہ انداز اختیار کیا کہ وہ اصل اور بنیادی قصے کے ساتھ ضمنی قصے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ ان میں قاری کی توجہ اور اس کا انہماک برقرار رہے۔ بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور تاجروں کی زندگی کی رونق، شوکت و عظمت اور شان جلال و جمال میں قاری کے لیے اس وجہ سے کشش تھی کہ وہ اپنی سیدھی سادی اور حقیقت بھری زندگی میں اس آسائش اورر تعیش سے محروم تھا۔ اس رنگین، حسین و جمیل اور پر شکوہ دنیا کی تشکیل و تعمیر داستان گو کے فن کی روایت کا حصہ ہے اور اپنی روایت کی اسی دل کشی سے وہ قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔
ابھی اردو میں داستان گوئی کا عہد شباب ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ کہانی کی ایک نئی صنف یعنی ناول نے جنم لیا اور اردو کا پہلا ناول مراۃ العروس ١٨٦٩ میں تصنیف ہوا۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں نے کہانی کو تخیل اور تصور کی دنیا میں رہنے کے بجائے حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنا سکھایا اور کہانی کو محض دل چسپی اور تفریح کی چیز سمجھنے کے بجائے اسے معاشرتی زندگی کے پاکیزہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ ناول میں زندگی کے دکھوں، اس کی سچائیوں اور اس کے مسائل کو بنیاد بنایا۔ نذیر احمد کے ناول مراۃالعروس، ابن الوقت، بنات النعش اسی جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان کے بعد کے لکھنے والوں میں رتن ناتھ سرشار، عبد الحلیم شرر، مرزا ہادی رسوا، راشد الخیری، منشی پریم چند اور سجاد حسین نے اپنے اپنے ماحول کے طرز معاشرت کی عکاسی اپنے ناولوں میں کی۔ بعد کے لکھنے والوں نے موضوعات کو وسعت دی اور نئے نئے موضوعات کے تحت ناول لکھ کر قارئین کی ذہنی آسودگی اور مطالعہ کے ذوق کی فراہمی کے اسباب مہیا کیے۔ رفتہ رفتہ اردو میں ایسے شان دار ناول لکھے گئے جو موضوع، فن، تکنیک، پلاٹ، اسلوب نگارش، زبان و بیان اور مقصد تحریر کے لحاظ سے شاہ کار قرار پائے۔اس سلسلے میں عبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناول اگرچہ آزادی سے قبل لکھا گیا تھا لیکن اس کی مقبولیت میں اب تک کمی نہیں آئی ہے اور یہ آج بھی تیسری نسل کی ذہنی آسودگی کے ساتھ اس کے ذوق مطالعہ کو پورا کر رہا ہے۔اداس نسلیں سے قبل لکھے گئے گؤدان، میدان عمل وغیرہ پریم چند کے ایسے ناول ہیں جن میں کہانی کی روایت کے عناصر موجود ہونے کے باعث ان میں قاری کی دل چسپی برقرار رہتی ہے۔
اکثر تنقید نگاروں کی تحریروں میں یہ کہا گیا کہ عدیم الفرصتی کے باعث داستان کا زوال ہوا اور اس کی جگہ ناول نے لے لی۔ اس کے بعد یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ناول کے زوال کے بعد طویل افسانہ اور مختصر افسانہ کا دور آیا۔ یہ بات صرف جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن کلی طور پر نہیں کیونکہ آج سپر کمپیوٹر کے دور میں سپر فاسٹ رفتار سے زندگی گزرنے کے باوجود ناول لکھنے اور اسے پڑھے جانے کا عمل جاری ہے۔ ناول کی دل کشی اور اس میں دل چسپی کا سبب یہی ہے کہ افسانہ کے مقابلے میں ناول زندگی کے ایک بڑے وقت یا طویل واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ قاری جو جنون کی حد تک مطالعہ کا شوق رکھتا ہے اور طویل ذہنی سکون کا خواہاں ہے، وہ ناول کا مطالعہ کرنا پسند کرتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی ناول جس تیزی سے لکھے جا رہے ہیں اس سے، اس کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ تابناک نظر آتا ہے۔
ناول کے مقابلہ مختصر افسانہ زندگی کے ایک مختصر وقفہ یا کسی ایک چھوٹے واقعہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے۔ مختصر افسانہ کا اطلاق اس کہانی پر کیا جاتا ہے جس میں مصنف ایک خاص فنی طریقہ سے، کم سے کم الفاظ میں صرف ایک واقعہ کی تصویر کشی کرتا ہے۔ مختصر افسانہ بیسویں صدی کی ایک مقبول ترین نثری صنف ہے۔ پریم چند، علی عباس حسینی، سلطان حیدر جوش، سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھ پوری، ل.احمد اکبر آبادی، اعظم کریوی، سعادت حسن منٹو، حیات اللہ انصاری، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، کرشن چندر، رام لعل، راجندر سنگھ بیدی وغیرہ نے اردو افسانے کے ذخیرہ میں قابل قدر اضافہ کیا۔ ان کے علاوہ اوپندر ناتھ اشک، احمد علی، خواجہ احمد عباس، سہیل عظیم آبادی، اختر اورینوی، اختر انصاری، حجاب امتیاز علی، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، ابراہیم جلیس، ممتاز شیریں، ہاجرہ مسرور، عفت موہانی، خدیجہ مستور، شفیق الرحمٰن، تسنیم سلیم چھتاری وغیرہ افسانہ نگاروں نے قارئین کے ایک وسیع حلقے کو متاثر کیا اور مقبولیت و شہرت حاصل کی اور اپنے مخصوص انداز میں افسانہ کے فن کو جلا بخشی اور بعد کے افسانہ نگاروں میں عطیہ پروین، مسرور جہاں، رتن سنگھ، اقبال مجید، عابد سہیل، جوگندر پال وغیرہ کئی افسانہ نگاروں نے افسانہ کے فن میں چار چاند لگائے۔ ان میں سے کئی افسانہ نگار اپنی پیرانہ سالی کے باعث افسانہ نگاری ترک کر چکے ہیں اور کچھ کا سفر اب بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ آج اکیسویں صدی میں بھی متعدد افسانہ نگار، افسانہ کے میدان میں اپنے قلم کی جولانیاں دکھلا رہے ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے بعد افسانہ کو موضوعات کی نسبت سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا اور رومانی، جنسی، اصلاحی، معاشرتی، مقصدی، روایتی، علامتی، تجریدی اور جدید ٖافسانے لکھے گئے۔ الفاظ کی کمیت کے باعث اسے مختصر افسانہ کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد موجودہ دور میں یک سطری افسانے بھی لکھے گئے۔ ہیئت اور اسلوب کے تجربے کیے گئے۔ انتظار حسین نے اساطیری کہانیوں اور قرآنی قصوں کو جدید افسانہ کی شکل میں پیش کیا لیکن اسی کے ساتھ بغیر پلاٹ، بغیر کردار اور بنا کسی موضوع کے بغیر سر پیر کے افسانے بھی لکھے گئے۔ وحدت تاثر اور کلائمکس کو خارج از افسانہ قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے جدیدیت کے نام پر ایسے علامتی افسانے منتشر ذہنی فکر کے حامل ایک مخصوص طبقے نے مخصوص قارئین کے لیے لکھے لیکن بالغ نظر عام قاری نے ایسے افسانوں یا افسانوی مجموعوں کو دھول بھری الماریوں میں دفن کر دیا کیونکہ افسانہ نگاری کا مقصد قاری کو ایک سوچ، ایک فکر، جز وقتی ذہنی سکون اور وقت گزاری کا ذریعہ فراہم کرنا تھا نہ کہ افسانہ کی تکنیک، کرداروں کی گمنامی، علامتی بھول بھلیوں اور پہیلیوں کو سمجھنے میں سر کھپانے کے لیے چھوڑ دینا۔ یہ بھی درست ہے کہ اردو افسانہ کو ١٩٣٦ کی ترقی پسند تحریک اور اس کے فوراً بعد تقسیم ہند کے المیہ سے نئی جہت ملی۔ بے شبہ اردو افسانہ کا جو معیار قائم ہوا اس میں تقسیم کے بعد کے افسانوں کا اہم مقام ہے کیونکہ تقسیم سے سیکڑوں موضوعات، واقعات اور اسلوبیات قلم کاروں کو حاصل ہوئے۔
موجودہ دور میں بھی افسانہ کا سفر جاری ہے۔ ہماری زندگی کسی نہج پر پہنچ جائے، ہمارا معیار اور طریق زندگی کسی بھی طرح بدل جائے لیکن جب تک حیات انسانی باقی ہے زندگی کے مسائل، انسانی جذبے، سماجی رابطے، محبت کے رشتے اور دلوں میں دھڑکن موجود ہے تب تک افسانہ کا سفر بھی جاری رہے گا۔ موضوعات بدل سکتے ہیں، پلاٹ میں تبدیلی ہو سکتی ہے، زبان و بیان اور اسلوب میں بھی کوئی نئی تکنیک استعمال کی جا سکتی ہے لیکن افسانہ کا وجود ختم ہو جائے، یہ ناممکن ہے کیونکہ کہانی ہماری سماجی اور انفرادی زندگی کی ضرورت ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے بعد سر سے گزر جانے والے جس علامتی اور تجریدی افسانہ کو قاری نے رد کر دیا تھا، آج بھی اور مستقبل میں بھی اس افسانہ کے وجود میں آنے کے کوئی آثار نہیں۔ فنی اور تکنیکی اعتبار سے بھی افسانہ نگار کو افسانہ لکھنے میں جو سہولیات میسر ہیں وہ اردو کی کسی بھی دوسری صنف کو حاصل نہیں یعنی افسانہ اختتام، کلائمکس، وسط اور کہانی کے آخری جملہ سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی وہی افسانہ قبول عام کی سند حاصل کرتا ہے جو انسانی زندگی، انسانی جذبات اور سماجی مسائل کی نمائندگی کرتا ہو اور قاری کو ایک نئی سوچ و فکر عطا کرتا ہو۔دراصل افسانہ وہی ہے جو قاری کے دل پر نقش ہو جائے اور ایسا وحدت تاثر پیش کرے جو قاری سے بھلائے نہ بنے۔
مختصر یہ کہ اردو افسانہ اگرچہ داستان اور ناول کے بعد معرض وجود میں آیا لیکن اس کے باوجود سوا سو سال سے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اردو افسانہ جب تک زندگی کی سچائیوں اور اس کے مسائل کو اجاگر کرتا رہے گا تب تک اس کی ترقی کی راہیں کھلی رہیں گی۔وقت کے ساتھ افسانہ کے موضوعات بھی بدلتے ہیں، زبان و بیان میں بھی تبدیلی آتی ہے لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ افسانہ میں وحدت تاثر موجود ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افسانہ میں اگر کہانی نہیں ہے تو ایسا افسانہ، نہ تو قاری کی توجہ حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس کے، افسانہ پڑھنے کے مقصد کو پورا کر سکتا ہے۔
***
Dr. Mohammad Athar Masood Khan
Ghaus Manzil, Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U.P. India
Mobile:91 9520576079
آپ یہ بھی پڑھیں :ادبی مطالعے: ایک تجزیاتی مطالعہ از ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے