تَصوّف  کیا ہے؟

تَصوّف کیا ہے؟

نظم نگار: سید عارف معین بلے

اُس نے پوچھا ہے تصّوف کیا ہے ؟
یہ مذہب ہے یا کوئی دین ہے؟ یا کوئی مسلک ہے؟
مَفَر ہے زندگی سے، ترکِ لذّت ہے؟
ریاضت ہے؟ عبادت یا بزرگوں کی روایت ہے؟
شریعت ہے؟ طریقت ہے؟
بتاؤ کیا حقیقت ہے ؟
کہاں سے لفظ یہ آیا ہے روحانی نصابوں میں؟
کتابوں میں
خُمار ایسا نہیں ہوتا ہے کیوں آخر شرابوں میں؟
سوال اِک سانس میں اُس نے بہت سے مجھ سے کر ڈالے
زباں پر پڑگئے تالے
ہَٹا کر مکڑیوں کے میں نے غارِ فکر سے جالے
اے مت ۔ والے
یہ سوچا اب کلیدِ معرفت سے قُفلِ بابِ لَب کو کھولوں گا
چُنوں گا لفظ ، میزانِ حقیقت لے کے
اِن لفظوں کو تولوں گا
جواب ہربات کا دوں گا،
میں بولوں گا
تَصّوف نام ہے اللہ سے بس لَو لگانے کا
تصوّف نام ہے صدق و صَفا سے دل سجانے کا
نہیں ہے ترکِ دُنیا، نام ہے یہ قریۂ جاں کو بسانے کا
سکوں کے دیپ روشن کرکے اندھیارے مٹانےکا
یہ منزل تونہیں، رستہ ہے پَرمنزل کوپانے کا
تصوف کیا ہے؟
بےشک دین ہے، مسلک ہے، مذہب ہے
یہ اِک گہوارۂ تہذیب ہے، مکتب ہے، مشرب ہے
طلب ہے طالب و مطلوب کی، مقصد ہے، مطلب ہے
یقیناً دین ہے یہ، دین ہے عشق و عقیدت کا
اگر مذہب اسے مانیں تو مذہب ہے محّبت کا
چلن ہے خود کو پانے کا، یہ مسلک ہے حقیقت کا
اِسی کُنجی سے کھل سکتا ہے بے شک دربصیرت کا
جو سچ پوچھو تصوف کھیل ہے نزہت کا، نکہت کا
شریعت کی ہے خوش بو، رنگ ہے اس میں طریقت کا
شریعت اور طریقت لازم و ملزوم ہوتے ہیں
یہ ایسا لفظ ہے، جس کے کئی مفہوم ہوتے ہیں
حقائق جو ہیں نامعلوم، وہ معلوم ہوتے ہیں
جہاں ہے اِک تصوف، اور
اَن دیکھے جہاں بھی اس کے اندرہیں
یہ ایسی بوند ہے، جس میں معانی کے سمندرہیں
اگریہ سیپ ہے، اس میں کئی نایاب گوہر ہیں
یہ ایسا بیج ہے جس میں چُھپے اشجار ملتے ہیں
یقیں کیجے کہ پت جھڑ میں بھی برگ و بار ملتے ہیں
یہ ایسا پیڑ ہے، جس سے بڑے اثمار ملتے ہیں
اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، جب انوار ملتے ہیں
تصوّف ہے فقہ باطن کا، دل کا تصفیہ بھی ہے
ہے بے شک نفس کی تہذیب، اس کا تزکیہ بھی ہے
جو سلجھانی ہو گتھی معرفت کی، یہ سِرا بھی ہے
یہ پُر اسرار دُنیا بھی نظر آتی ہے، سچ یہ ہے
کہ یہ عُقدہ کشائی کا موثر سلسلہ بھی ہے
بہت سے نام بھی اس کے رہے، اِس نام سے پہلے
تصوّف کا وجود ہم کو ملا اسلام سے پہلے
یہ دل میں، جان میں بھی ہے
سبھی اَدیان میں بھی ہے
تصوف صرف اسلامی ممالک کا نہیں ورثہ
یہ ہندوستان میں بھی ہے
بجا، یونان میں بھی ہے
تصوّف کا تصور تو مِرے قرآن میں بھی ہے
یقیں کیجے تصوف ہے یہودی بھی، مسیحی بھی
نظر آتی ہے بدھ مت میں بھی بے شک روشنی اِس کی
کسی بھی دور کادامن تصوف سے نہیں خالی
ملے گی ہر شجر سےمنسلک یہ آپ کو ڈالی
یہ وہ سانچہ ہے، جس میں زندگی اپنی اگر ڈھالی
خُدا پایا، خودی پائی، مرادِ زندگی پالی
تصوّف صوف سے نکلا ہے، جس کواُون کہتے ہیں
یہ پہناوا ہے اُن کا، لوگ جو غاروں میں رہتے ہیں
یہ چشمے کوہ و صحرا اور بیابانوں میں بہتے ہیں
یہ ایسے پیڑ ہیں، جو چھاؤں دینے کے لیے ہی دھوپ سہتے ہیں
تصوّف کا تعلق صوف سے بھی ہے، صفا سے بھی
نظرآتی ہے صفوت بے شک اس میں صفوت اللہ کی
صَفِ اول سے رشتہ اس کا ہے، اہلِ صُفّہ سے بھی
یقیناً مصطفیٰ سے بھی
تصوّف سے صفِ اوّل کی ہر ہستی ہے وابستہ
سعی ہم کو بتاتی ہے
یہ مرویٰ و صفا سے بھی ہے ہم رشتہ
تصوّف جس کاہے رستہ
جہادِ نفس پر ہے وہ کمر بستہ
وہی صوفی، وہی صافی، اُسی کادل مُصفّی ہے
اُسی کاسینہ بے کینہ، حقائق کا خزینہ ہے
دقائق کاخزینہ ہے
من و تو کی مٹا کر سرحدیں عرفان پاتا ہے
وہ اپنے دھیان سے اور گیان سے نِروان پاتاہے
وہ آکر وجد میں وجدان پاتاہے
یقیناً دولتِ ایقان پاتا ہے
وہ اِس دُنیا کا باسی ہے مگر عُقبیٰ کا بھی سامان پاتا ہے
گلی بند آبھی جائے سامنے تو وا درِ امکان پاتا ہے
مراتب دین اور دُنیا میں عالی شان پاتا ہے
اَنا جب ہو فنا تو کیا بقا ہے؟ جان پاتا ہے
وہ اپنی تنگ کُٹیا میں کھلا میدان پاتا ہے
وہ آکر چھاؤں میں جلتا ہے لیکن
دھوپ سے بھی چھاؤں کا فیضان پاتا ہے
ریاضت سے نئی پہچان پاتا ہے
***
سید عارف معین بلے کی یہ تخلیق بھی پڑھیں :سفر میں ہوں، جہاں اٹکا ہوا ہے دِل مدینہ ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے