سفر میں ہوں، جہاں اٹکا ہوا ہے دِل مدینہ ہے

سفر میں ہوں، جہاں اٹکا ہوا ہے دِل مدینہ ہے

سَیَّد عارف معین بَلّے

سفر میں ہوں، جہاں اٹکا ہوا ہے دِل مدینہ ہے
ہے کعبہ میرے رستے میں، مری منزل مدینہ ہے

یہ ایسی سرزمیں ہے، جس پہ دو قرآن اُترے ہیں
جہاں ٹھہرے نبیؐ، فرقاں ہوا نازل مدینہ ہے

سمٹ کر آ گیا ہے حُسن، اس میں دین و دنیا کا
جبینِ بزمِ دو عالم کا بے شک تِل مدینہ ہے

احاطہ ہو تو کیوں کر ہو، نبیؐ کی ذاتِ اقدس کا
سمندر کیسا ہو سکتا ہے، جب ساحل مدینہ ہے

ہوا وا معرفت کا در، کھلا یہ راز بھی مجھ پر
ہے دیں دُنیا کا حاصل، دین کا حاصل مدینہ ہے

ہے یہ بھی فخر و ناز اس کا، ہے یہ بھی امتیاز اس کا
سجی دنیا کی جو سب سے بڑی محفل مدینہ ہے

جڑیں ہیں اس میں پیوستہ، اسی سے ہم ہیں وابستہ
ہمارا حال، ماضی اور مستقبل مدینہ ہے

تقابل ہو تو کیسے ہو؟ مماثل ہے نہ ثانی ہے
ستارے شہر ہیں سارے، مہِ کامل مدینہ ہے

وہاں جا کر مقدر میں نہیں بسنا تو پھر کیا ہے؟
مِری خُو بو میں، میرے خون میں شامل مدینہ ہے

دُکھی تھا میں نہ جا سکنے پہ، اب یہ سوچ کر خوش ہوں
نبیؐ رہتے ہیں جس دل میں، ہے کب وہ دل؟ مدینہ ہے

وہاں جا کر میں گھبرایا، مسائل کا خیال آیا
مرے دل نے کہا، کیسی کوئی مشکل؟ مدینہ ہے
***
سیدعارف معین بَلّے کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ فرمائیں :شیخِ سرہندی حضرت مجدد الف ثانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے