آج شفیع جاوید یادگاری خطبے میں ہندستانی جمہوریت کو درپیش مسائل پر خصوصی مذاکرہ

آج شفیع جاوید یادگاری خطبے میں ہندستانی جمہوریت کو درپیش مسائل پر خصوصی مذاکرہ

پریس اعلانیہ
شفیع مشہدی، عبدالصمد، آلوک دھنوا، پریم کمار منی، ریحان غنی اور کمار چندردیپ بحث میں حصہ لیں گے۔
ممتاز ناول نگار وبھوتی نارائن رائے توسیعی خطبہ پیش کریں گے۔
۱۱/دسمبر، پٹنہ۔ ممتاز افسانہ نگار اور عظیم آباد کی تہذیبی زندگی کے مصور شفیع جاوید کے دوسرے یومِ وفات کے موقعے سے خصوصی یادگاری خطبہ مورخہ ١٢/دسمبر۱ ۲۰۲ بہ روز اتوار، ۱۱/بجے دن، بہار اردو اکادمی کے ہال میں پیش کیا جارہا ہے۔ ”ہندستانی جمہوریت: موجودہ چیلنجز“ موضوع پر ہندی زبان کے معروف ناول نگار، مشہور پولیس افسر اور مہاتما گاندھی بین الاقوامی ہندی یونی ورسٹی، وردھا کے سابق وائس چانسلر جناب وبھوتی نارائن رائے اپنا توسیعی خطاب پیش کریں گے۔ اس تقریب کی صدارت ہندی زبان کے معتبر شاعر جناب آلوک دھنوا کریں گے۔ اس موقعے سے جناب شفیع مشہدی، پروفیسر عبدالصمد، جناب پریم کمار منی، ڈاکٹر ریحان غنی اور پروفیسر کمار چندردیپ مذاکرے میں اپنے تاثرات کا اظہار کریں گے۔
بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے پروگرام کی غرض و غایت بتاتے ہوئے کہا کہ اہالیانِ عظیم آباد پر شفیع جاوید کی یادگاری تقریب ایک قرض کے طور پر ہمیشہ ہمیں یاد ہے۔ اس کا آغاز بزمِ صدف کی طرف سے یادگاری خطبے کے طور پر کیا جارہا ہے۔ شفیع جاوید انسانی قدروں کے امین تھے اور جمہوری پامالی کے موضوعات پر پابرہنہ اپنی تحریروں میں نظر آتے تھے۔ اسی لیے یادگاری خطبے کا موضوع جمہوریت کے سامنے جو مشکلات اس ملک میں آرہی ہیں، اسے بنایا گیا ہے۔
پروفیسر قادری نے اس موقعے سے خطبہ پیش کرنے والی شخصیت جناب وبھوتی نارائن رائے کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہندستانی پولیس افسران میں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے ایسے افراد جن کی عوامی طرف داری اور انصاف پسندی بہ طورِ مثال پیش کی جاتی ہے، ان میں جناب رائے کا شمار ہوتا ہے۔ اترپردیش کے سابق ڈی۔جی۔پی۔ جناب رائے کی اولین شہرت الہ آباد میں ہوئے ہندو مسلم فساد پر مبنی’شہر میں کرفیو‘ ناول کی وجہ سے چار دانگ عالم میں پھیل گئی۔ ١٩٨٦ء میں شایع شدہ وہ ناول ہندستان اور دنیا کی نہ جانے کتنی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مقبولِ عام ہوا۔ تبادلہ، گھر، محبت کا طلسمی فسانہ، قصہ لوک تنتر اور ٢٠١٦ء میں شایع ہاشم پورہ ۲۲/مئی جیسے ناول ایک کے بعد ایک آئے۔ ہندستانی پولیس اکادمی کے زیرِ اہتمام انھوں نے جو تحقیق کی، ان کا مقالہ فرقہ وارانہ فسادات اور ہندستانی پولیس کے عنوان سے اردو میں بھی منظر عام پر آچکاہے۔ اس کتاب کو ہندستانی پولیس کے فرقہ وارانہ مزاج کو پہچاننے کے لیے محققین کتابِ حوالہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ موجودہ دور میں ہندستان میں جمہوری اداروں کے سامنے جو سخت حالا ت پیدا ہوگئے ہیں، ایسے مواقع سے وبھوتی نارائن رائے جیسے افراد کھلے بندوں اپنی صاف باتیں عوام کے سامنے بے خوف و ہراس پیش کرتے ہیں۔ ان کی اسی خصوصیت کے پیش نظر اس موضوع پر بزمِ صدف نے انھیں عظیم آباد میں تفصیلی گفتگو کی دعوت دی ہے۔
بزمِ صدف نے اردو زبان سے محبت کرنے والوں اور جمہوری اقدار میں یقینِ کامل رکھنے والوں سے خاص طور پر اتوار کو منعقدہ اس پروگرام میں شرکت کی گزارش کی ہے۔ جن اشخاص کو دعوت نامہ نہیں پہنچ سکا ہے، ان سے گزارش کی گئی ہے کہ اس خبر کو ہی دعوت نامہ تصور کرتے ہوئے بہار اردو اکادمی کے اس پروگرام میں شریک ہوں۔
صفدر امام قادری
ڈائرکٹر، بزمِ صدف انٹرنیشنل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے