معاصر اردو غزل کا اسلوب: ایک تمہیدی مطالعہ

معاصر اردو غزل کا اسلوب: ایک تمہیدی مطالعہ

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
ایل ایس کالج، مظفرپور

قدرت نے ہر شے کو ایک اندازۂ خاص پر پیدا کیا ہے اس کا اطلاق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز پر ہوتا ہے، انسان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ وضع قطع شکل و شباہت اور رنگ و آہنگ کے اعتبار سے ایک انسان دوسرے انسان سے جدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کا اپنا ایک مخصوص انداز اور طرز عمل ہوتا ہے۔ یہ انداز شخص کے انہی اوصاف تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس پر فطری ساخت، طبعی افتاد اور جغرافیائی عوامل بھی اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح ایک مزاج پیدا ہوتا ہے ایک طریقہ بنتا ہے اور ایک روش قائم ہوجاتی ہے۔ اسلوب کا خمیر اسی میں مضمر ہے۔ فنون لطیفہ اور فن کار بھی اس سے الگ نہیں۔ فن اور فن کار کی عظمت اسلوب کی وجہ سے ہے۔ موضوع کی نیرنگی، معنی آفرینی، مشاہدہ، تخیل اور دوسرے لوازم اسلوب کے محتاج ہوتے ہیں اور اسلوب فن کار کے طبعی خمیر میں موجود ہوتا ہے. یہ قدرت کی طرف سے ملنے والی وہ نعمت ہے جس سے فن کار کا انفرادی رنگ و آہنگ طے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر اسلوب کسی بھی شخص سے مختص ہے۔ جس سے صناعی، کاریگری اور طرز عمل کا مزاج و آہنگ معلوم کیا جاتا ہے۔ مثلاً مجسمہ سازی سے مجسمہ ساز کا، نقاشی سے نقاش کا، مصوری سے مصور کا وغیرہ وغیرہ لیکن ارباب ادب نے اسلوب سے مراد کسی بھی لکھنے والے کی اس انفرادی طرز نگارش سے لیا ہے۔ جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے متمیز ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ انفرادی آہنگ یا طرز نگارش کا تعلق زبان و بیان سے ہے اور زبان و بیان ادب کا لازمی جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ اسلوب سے ادبی زبان مراد لیتے ہیں۔ اور اسلوب کو اچھی، مؤثر اور خوب صورت تحریر کی خصوصیت سمجھتے ہیں۔ تحریر کی خصوصیت اور مؤثر طرز تحریر اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ آیا مؤثر اور خوب صورت ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اس مسئلے کا حل لسانیات کے ماہروں نے تجزیاتی، استدلالی اور معروضی انداز میں وضاحت و صراحت سے پیش کیا ہے اور اسے اسلوبیاتی مطالعہ کے دائرے میں رکھا ہے۔
اردو شاعری میں اسلوبیات کا مطالعہ بنیادی طور پر شاعری کے مواد، لفظیات، صنائع و بدائع اور اس کی ہیئت کا مطالعہ ہے۔ شاعری داخلی اور خارجی معنیات و لفظیات کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے۔ اس طرح شاعر، شعری تکنیک اور اس کے سارے لوازم مثلاً لفظوں کا رکھ رکھاؤ رعایت لفظی، بحروں کا انتخاب، قافیہ کا التزام اور تشبیہات و استعارات کو ترتیب دیتا ہے پھر موضوعی رنگ و مزاج کو اک آہنگ عطا کرتا ہے۔ جو سننے والوں کے وجدان کو اپیل کرتا ہے۔ اس لیے لازمی ہوجاتا ہے کہ شعر کا معنوی اور لفظی نظام، صوتی حسن، تشبیہات و استعارات، ہیئت کے داخلی اور خارجی موضوعات پر فطری اطلاق کرتا ہو، ورنہ شاعری میں شاعرانہ آہنگ کے رہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ غرض شاعری کا لسانی اور عروضی نظام کیا ہے؟ شعر کے فکری، جذباتی، تخیلی، جمالیاتی اور وجدانی اوصاف کیا ہیں؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ سب اسلوبیاتی مباحث ہیں اور اسی کا مطالعہ اسلوبیات ہے۔
اردو کی غزلیہ شاعری میں مجموعی طور پر اسلوبیاتی مطالعہ کے تعلق سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں اہل قلم کی اس جانب توجہ مرکوز ہوئی ہے اور وقتاً فوقتاً اس سے متعلق مضامین شائع ہوتے رہے ہیں لیکن اسے تشفی بخش نہیں کہا جاسکتا۔ آزادی کے بعد کی غزلیہ شاعری کا منظر اور معاصر شعرا کا اس میں کیا اختصاص ہے اس کا اب تک تعین نہیں ہوسکا ہے۔ اس لیے اسلوبیاتی مطالعہ کے تناظر میں اردو غزلیہ شاعری کا مطالعہ کیا جانا لازمی ہے۔ لب و لہجہ اور ہیئت کے اعتبار سے اردو غزل اصناف شاعری میں امتیاز رکھتی ہے. اس کی داخلی شرشت میں واقعی کوئی جادو ہے جو ہر زمانے میں سر چڑھ کر بولتی ہے۔ قلی قطبؔ شاہ، ولیؔ دکنی، میرؔ، غالبؔ، داغؔ، شادؔ عظیم آبادی، اقبالؔ، حسرت موہانیؔ، جگر مراد آبادیؔ، فانی بدایونیؔ، یگانہ چنگیزیؔ اور فراقؔ گورکھ پوری سے لے کر ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت تک کا کوئی بھی زمانہ ایسا نہیں جس میں غزلیہ شاعری کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہو۔ یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ غزلیہ شاعری کی مخالفت ہوئی لیکن یہ اختلاف عین فطرت تھا کہ سماج میں ہونے والی تبدیلی ایک زندہ قوم کی ضامن ہوا کرتی ہے، اسی تناظر میں غزلیہ شاعری کے ارتقائی مراحل کو دیکھنا چاہیے۔ واضح رہے کہ مخالفت غزلیہ فورم سے نہیں بلکہ غزلیہ شاعری میں روایتی موضوعات اور منتشر الخیالی سے تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ غزلیہ شاعری میں نہ صرف موضوعاتی تبدیلی آئی بلکہ زبان کی سطح پر تشبیہات و استعارات، لفظیات و معنیات اور صنائع بدائع کے استعمال میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ پھر یہ کہ غزل کی ہیئت میں اک تجربہ ہوا جسے آزاد غزل کا نام دیا گیا۔ اس سب کا واضح اثر یہ ہوا کہ غزلیہ شاعری میں لفظی، معنوی، صوتی، جمالیاتی، تخیلی اور لسانی تکنیک میں بھی تبدیلی آئی۔ رمزیت، اشاریت، ایمائیت، تحیر آمیزی، خوابناکی، بیداری، ہوشیاری اور حسرت و یاس وغیرہ غزلیہ شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں. اس کا رنگ و آہنگ حالیہ شاعری میں ایک نئے انداز کا ہے. اس کا مطالعہ اسلوبیات کے تناظر میں کیا جانا لازمی ہے۔ اس سے قبل کہ میں اپنے موضوع کی وضاحت میں مزید کچھ کہوں ١٩٦٠ء کے بعد کی اردو غزلیہ شاعری سے چند منتخب اشعار پیش کرتا ہوں:
کیا ساتھ چل سکے گی اے گردش زمانہ
اب اک نئے سفر پر جانا ہے آدمی کو
خلیل الرحمان اعظمی
سچ تو یہ ہے کہ تیری آنکھوں نے
میکدے کو سنبھال رکھا ہے
شکیب جلالی
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بشیر بدر
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
بشیر بدر
نہ وہ محفل جمی ساقی نہ پھر وہ دور جام آیا
تیرے ہاتھوں میں جب سے میکدہ کا انتظام آیا
کلیم عاجز
تم اہل انجمن ہو جس کو چاہو بے وفا کہہ دو
تمہاری انجمن ہے تم کو جھوٹا کون سمجھے گا
کلیم عاجز 
یہ جو آئینے پہ غبار ہے یہ تیری نظر کا فشار ہے
جنھیں تھا سنورنے کا حوصلہ اسی آئینے میں سنور گئے
جمیل مظہری
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
مصطفی زیدی
یہ کہہ کر مجھ کو چھوڑ گئی روشنی کل رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے
ساقی فاروقی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی
ساقی فاروقی 
زنداں کی ایک رات میں کتنا جلال تھا
کتنے ہی آفتاب بلندی سے گر پڑے
حسن نعیم
میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
ناصر کاظمی
کشتیوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں
جتنے صحرا تھے سمندر ہوگئے
مظہر امام
اتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہوگیا دیوار و در کے درمیاں
مخمور سعیدی
بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا
کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دلی مسکراتی ہے
منور رانا
آواز مری لوٹ کے آتی ہے مجھی تک
اے کاش میرا شہر بیاباں نہیں ہوتا
جمال اویسی
خدا مصروف رہتا ہے تمھیں فرصت نہیں ملتی
تو پھر اس شہر میں آخر قیامت کون کرتا ہے
خالد عبادی
زمیں پہنی گئی اور آسماں اوڑھا گیا برسوں
بدن کی خانقاہوں میں خدا سویا رہا برسوں
خورشید اکبر
آئینہ دیکھ کر خیال آیا
تم مجھے بے مثال کہتے تھے
پروین شاکر
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی
پروین شاکر
کمال ضبط کو میں بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے تیری دلہن سجاؤں گی
پروین شاکر 
تم کو آنا ہے آجاؤ بصد شوق یہاں
اب بھی حالات میں تھوڑی سی لچک باقی ہے
پروین شاکر 
یہاں گردش زمانہ، نیا سفر، آنکھ، میکدہ، سرپھری ہوا، شجر، پتہ، دل، کشتی، سمندر، مسافر، گھر، بستیاں، محفل، ساقی، جام، ہاتھ، مے کدہ کا انتظام، اہل انجمن، بے وفا، علم کی پرچھائیاں، روشنی، چراغ، روشنی فروش، اندھیرا، زنداں، جلال، آفتاب، ماہتاب، بلندی، پھل، دیوار، صحرا، بیاباں، ویرانہ، بادل، آگ، اجالا، سیاست، تباہی، مسکرانا، آواز، آئینہ، قسمت، لکیر، رسوائی، سچ، جھوٹ، آزمانا، مقتل، زمیں، آسماں، خانقاہ، دستور وغیرہ لفظیات اور ان کی تکنیک پر غور کیجئے تو شعر میں مفہوم، تجربہ اور خیال کے رنگ و آہنگ کا ایک نیا کینوس نظر آئے گا۔ اصل میں غزلیہ شاعری کا جو جمالیاتی کینوس ہے وہ انداز نگارش، یعنی اسلوب میں پنہاں ہے. اس لیے کہ خیال، مفہوم، تجربہ اور مشاہدہ شاعری کے کسی بھی فورم میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن لسانیاتی، صوتی، نغمگی اور تخیلی حسن کی لذت آفریں ادا ہمیں غزلیہ شاعری سے ملتی ہے ورنہ دیکھا گیا ہے کہ موضوع اور ہیئت کی سطح پر تجربہ بھی ہوا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ مثلاً آزاد غزل ہی کو لے لیجیے جس میں مفہوم، تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے لیکن وہ شعریت اور تغزل نہیں جو غزل کی شان ہے. شاعروں نے اس تغزل کو ہر دور میں برقرار رکھا ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ ہر زمانے میں صاحب اسلوب شعرا پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے اسلوب بدلتا بھی رہتا ہے۔ یقینا غزلیہ شاعری میں اس کی روایت توانا رہی ہے۔ قلی قطبؔ شاہ، ولیؔ، میرؔ، غالبؔ اور اس کے بعد تقسیم ہند تک کی غزلیہ شاعری کی روایت کو دیکھ سکتے ہیں. پھر آزادی کے بعد کی غزلیہ شاعری کا احاطہ بھی کر سکتے ہیں. معلوم ہوگا کہ اسلوبیاتی سطح پر ہر ہوش مند شاعر اپنی پرچھائیں چھوڑ جاتا ہے۔ اس میں شخصیت کے تخلیقی عناصر پر فوکس کرنے کے جہاں بہت مواقع نظر آتے ہیں وہیں لفظوں کے انتخاب، استعمال، ترتیب و تنظیم اور تلازموں، استعاروں اور علامتوں وغیرہ کے التزام میں شاعر کے لہجے، مزاج اور میلان کی جھلک ملتی ہے؛ اس کا مطالعہ اسلوبیات کے تناظر میں ممکن ہے۔ اردو شاعری میں ایسے صاحب اسلوب شاعر بھی ملتے ہیں جنھوں نے فکر و خیال کی تکرار یا یکسانیت کے باوجود اسلوبیاتی لحاظ سے نئے رنگ و آہنگ کا نمونہ پیش کیا ہے۔ چنانچہ آزادی کے بعد غزلیہ شاعری کی روایت میں اگر تکرار خیال کی مثالیں ملتی ہیں تو اس میں اظہار و اسلوب کی ندرت تلاش کرنی چاہئے. یقینا اس سطح پر تخلیقیت نمایاں ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جذبی، مجروح سلطان پوری، مجاز اور دیگر ترقی پسند شعرا نے اپنے ماقبل کلاسیکی شعرا سے استفادہ کیا ہے (شاعری میں استفادہ کرنے کی روایت ایک مستحسن عمل ہے) لیکن رنگ و آہنگ کے اعتبار سے ان لوگوں کی شاعری توانا ہے. یہ کرشمہ سازی اصل میں حسن اظہار کی بدولت آتی ہے۔ اس کے علاوہ فراق گورکھ پوری، خلیل الرحمن اعظمی، افتخار عارف، ناصر کاظمی، ابن انشاء، کلیم عاجز، ندا فاضلی، حسن نعیم، شجاع خاور، پروین شاکر، عین تابش، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، بشیر بدر، شہر یار، عرفان صدیقی، مظہر امام، مخمور سعیدی، جون ایلیا، ساقی فاروقی، سلطان اختر جیسے صاحب اسلوب شاعروں کی ایک جماعت ہے جنھوں نے اردو غزلیہ اسالیب میں لسانیاتی، صوتیاتی، تخیلی، جمالیاتی اور نغمگی کے اوصاف کو ایک نیا جامہ عطا کیا ہے۔ جس سے تہذیبی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی موضوعات کو حالیہ منظر نامہ میں واضح طریقے سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جدیدیت کے بعد اردو غزلیہ شاعری کا اک اور نیا دور آتا ہے۔ اس دور کو ارباب ادب نے مابعدجدیدیت کا نام دیا ہے۔ اس دور میں مابعد جدید شعرا کے ساتھ ساتھ جدید شعرا بھی نظر آتے ہیں لیکن مابعد جدید صاحب اسلوب شعرا کا تخلیقی نظام قابل غور ہے. اس میں شمیم قاسمی، فرحت احساس، عنبر بہرائچی، خورشید اکبر، عالم خورشید، منور رانا، جمال اویسی، خالد عبادی، راشد طراز، عبدالاحد ساز، عطا عابدی، منصور عمر اور راشد انور راشد وغیرہ سامنے کے شاعر ہیں جو آئے دن رسائل وجرائد کی زینت بنتے رہے ہیں۔ موضوعاتی سطح پر ان لوگوں کے یہاں جو تبدیلی ہے وہی تبدیلی جدیدیت والوں کے یہاں بھی تھی لیکن انسانی عظمت اور انسانی جاہ و جلال کے فقدان کا المیہ مذکورہ شعرا کے یہاں زیادہ ہے جس میں مادہ پرستی، بے حسی، بے ضمیری اور لاتعلقی کا عنصر اپنے کلائمکس کو پہنچا ہوا ملتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ خاندان کا ٹوٹتا بکھرتا نظام آنکھوں کے سامنے لرزتا، کانپتا اور بھاگتا منظر، ان سوچی اور ان کہی باتوں کا ملال، بھیر میں گم ہونے کا احساس اور مشینی زندگی پر جذبات کی قربانی حالیہ زمانے کی تصویر بن گئی۔ اس لیے مابعد جدید شعرا کا لہجہ سنسنی خیز ہے۔ تکنیکی اعتبار سے الفاظ و معانی اور شعر کی معنوی جہتوں کو مذکورہ شاعروں نے ایک نئی سمت عطا کیاہے۔ جس سے شاعری کی غایت عالمی اور مرکزی ہوگئی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد کی غزلیہ شاعری میں قلی قطب شاہ کا رومانی جذبہ ہے نہ ولی دکنی کا فارسی آمیز انداز۔ اس میں نہ میر کا عشق ہے نہ غالب کی فکر، اس میں نہ داغ کا چٹخارہ ہے نہ اقبال کی خودی اور نہ ہی اس میں اکبر کا تمسخر ہے نہ شاد کا کلاسیکی رچاؤ، اس سب کے باوجود یہ سنجیدہ مطالعے کا تقاضہ کرتی ہے تو اس کا جواز کیا ہے؟ میرے خیال میں آزادی کے بعد کی غزلیہ شاعری جدلیاتی نظام، منتشر الخیالی اور مادی وسائل سے پیدا ہوئے مسائل کی روداد ہے۔ آج حال یہ ہے کہ زندگی کے رنگ منچ پر روحانی کرائسس کا دور دورہ ہے۔ سائنسی نظام کے اس تپتے ہوئے صحرا میں، مشروط زندگی، ٹیکنکل زندگی، سیاسی جبر، دہشت گردی اور نسل کشی کا عمل جاری ہے. تاجروں کی آمد و رفت، اقتصادی پالیسی، سیاسی رکھ رکھاؤ، تعلیم و تدریس میں عملیت پسندی، پروفیشنل تعلیم اور ذرائع ابلاغ کی نئی تکنیک کی وجہ سے چہار جانب ایک ہنگامہ ہے جس میں سماج کی بچی کھچی قدریں اپنی تنزلی پر آنسو بہا رہی ہیں. اس لیے افسردگی، بے بسی، لاچاری، خوفناکی، خوابناکی اور احساس کم تری کے علاوہ ماضی کو دہرانا، روایت کو اپنانا اور جھنجھلاکر خود کو کوسنا بھی معاصر شعرا کی غزلیہ شاعری کا موضوعاتی اختصاص ہے۔ اور ان تمام موضوع کو برتنے میں شاعر کا جو بنیادی رنگ و آہنگ ہے وہ پہلے سے مختلف ہے. اس کا تجزیہ کرنا اسلوبیاتی مطالعہ سے ممکن ہے کہ آخر ایک ہی موضوع پر شاعر کا اسلوب جدا کیوں ہے؟ مثلاً مابعد جدید کے شاعروں کو ہی لے لیجیے تو معلوم ہوگا کہ خیال، تجربہ، مفہوم اور مشاہدہ میں یکسانیت کے باوجود کسی کا تیور تیکھا ہے تو کسی کا سادہ۔ کسی کے یہاں طنطنہ ہے تو کسی کے یہاں سپاٹ پن۔ کہیں سادگی و پرکاری ہے تو کہیں آرائش بیان۔ کہیں محتاط اظہار ہے تو کہیں غیر محتاط اظہار۔ اصل میں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ایک شاعر دوسرے شاعر سے نہ صرف شکل و شباہت اور رنگ و آہنگ میں مختلف ہوتا ہے بلکہ سوچنے سمجھنے کے انداز میں بھی مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر اپنی شاعری میں لفظیاتی و صوتی نظام اور صنائع بدائع کے استعمال میں اپنے معاصر شعرا یا دیگر شعرا سے متمیز ہوجاتا ہے۔
٭٭٭
Dr. Mustafiz Ahad Arfi
Assistant Professor
Department of Urdu
L.S.College, Muzaffarpur – 842001
Mob: 9955722260

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے