حکومتِ بہار اردو والوں سے آخر دشمنی پر کیوں تُلی ہوئی ہے؟

حکومتِ بہار اردو والوں سے آخر دشمنی پر کیوں تُلی ہوئی ہے؟

اردو کے ادارے سربراہوں کے بغیر بند ہیں۔ بارہ ہزار اساتذہ سڑکوں پر ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ

گذشتہ سولہ برسوں سے بہار میں نتیش کمار کی قیادت میں چند مہینوں کی حکومت کو چھوڑ دیں تواین۔ڈی۔اے۔ حکمراں ہے اور ایک بڑا طبقہ تو یوں ہی جواب دے دیتا ہے کہ اقلیت آبادی کے مسائل کے حل کے لیے آخر این۔ڈی۔اے۔ کی طرف کوئی کیوں آس لگائے بیٹھا ہے۔ گجرات سے لے کر اتر پردیش اور مدھیہ پردیش تک یہی سیاسی محاورہ چل رہا ہے اور ہندستان بھر میں اقلیت کے مسائل اور ان کے معاملات التوا میں پڑے ہوئے ہیں مگر بہار میں قیادت چوں کہ نتیش کمار کے ہاتھ میں ہے، اور وہ ان ڈیڑھ دہائیوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے الگ اور اقلیت آبادی کے مخالف نہیں ہونے کی امیج ظاہر کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ حسبِ موقع وہ عوامی جلسوں میں بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا جو بھی ایجنڈا ہو، وہ ایک سیکولر حکومت کی قیادت کے فیصلے پر قائم و دائم ہے۔ اس میں سچائی ہو نہ ہو، ان کی یہ امیج اسی طرح زندہ ہے جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک زمانے میں اٹل بہاری واجپائی کے لیے یہ محاورہ گڑھ لیا تھا کہ وہ نرم ہندوتو واد کے حمایتی ہیں اور ان کے مقابلے میں لال کرشن اڈوانی سخت گیر اور کٹّر کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔
اردو سے متعلق بہار میں جو چھوٹے بڑے ادارے ہیں اور جنھیں سرکاری معاونت کسی نہ کسی جہت سے حاصل ہوتی ہے، ان کا برا حال ہے۔ بہار اردو اکادمی نتیش کمار کی قیادت کے ان برسوں میں کام چلاؤ انداز میں ہی چلتی رہی ہے۔ سولہ برسوں میں صرف ایک بار ان کے زمانے میں جمہوری انداز سے اس کی تشکیلِ نو ہوئی۔ ورنہ کارگزار سکریٹریوں کو کسی محکمے سے کام چلاؤ طور پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ حکومت کو یہ ملتا ہے کہ اسے اپنے اسٹاف کو صرف تنخواہیں دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اردو آبادی کے لیے چار پیسے کی رقم بھی خرچ نہیں کرنی ہوتی ہے۔ نہ سے می نار ہوگا، نہ مشاعرے ہوں گے، نہ کتابوں پہ انعامات دیے جائیں گے، مسودات کے لیے کوئی معاونت ملے گی اور نہ نئی نئی اسکیموں پر عمل کرکے اردو خواں آبادی تک زبان کے مقبول عام کاموں کو پہنچایا جائے گا۔ ہر سال اسٹاف سبک دوش ہوتے گئے اور ان کی جگہ پر کوئی نئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ بجٹ کا یہ حال ہے کہ اترپردیش، مغربی بنگال اور دہلی اردو اکادمی پندرہ دن میں جتنی رقم خرچ کر سکتی ہے، بہار اردو اکادمی اتنی رقم میں پورا سال گزارنے کے بعد کچھ بچا کر سرکار کے کھاتے تک پہنچا دیتی ہے۔ ان برسوں میں جیتن رام مانجھی جب وزیرِ اعلا تھے، اس وقت بہار اردو اکادمی کی ایک کمیٹی تشکیل پا سکی تھی اور جس نے کچھ بھولے بسرے ضروری کاموں کو انجام دیا مگراس کی مدتِ کار کے ختم ہوئے بھی اب چار برس ہوگئے اور کار گزار سکریٹری اسٹاف کی تنخواہ تک رک گئی ہے۔
بہار میں اردو مشاورتی کمیٹی صوبائی سطح کی کمیٹی تھی جسے دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کے مسائل کو پیش نظر رکھنا تھا۔ نتیش کمار کے دورِ حکومت میں اولاً ممتاز شاعر کلیم عاجز کو اُس عمر میں اس کی صدارت سونپی گئی جب ان کا چلنا پھرنا بھی مشکل تھا اور کمال یہ کہ نتیش کمار نے ان کی معیاد میں توسیع بھی کی۔ مطلب صاف تھا کہ بہار کے ضلعوں میں جاکر وہاں کے اردو عملوں کے مسائل کو سمجھنے اور عوامی توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سے جرح کرنے جیسے پیچیدہ اور جدوجہد بھرا کام وہ نہ کرسکیں؛ اس کا پورا انتظام کیا گیا۔ چار برس سے وہ عہدہ نہ صرف یہ کہ خالی ہے بلکہ مجلسِ عاملہ کے ارکان بھی ناپید ہیں اور پورے بہار میں اردو کی ناانصافیوں کو مرکزی سطح پر حکومت تک پہنچانے والا کوئی دوسرا ادارہ نظر نہیں آتا۔ گورنمنٹ اردو لائبریری کی مجلس عاملہ اور اس کے چیرمین کو بھی حکومت مقرر کرتی رہی ہے، وہاں بھی سرکاری افسروں کے ذمے سب کچھ ہے اور ادارے کی جمہوری ساخت فطری طور پر ختم ہوچکی ہے۔ انجمن ترقی اردو بہار سے لے کر دہلی تک حکومت سے مزاحمت اور عوامی حقوق کے لیے سرگرم ہونے کا ادارہ نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ عوامی سطح پر بالخصوص بہار میں حکومت کی خوشامد سے آگے مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس نظام قائم ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
پرائمری اور مڈل اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کے سوال پر جب مرکزی حکومت نے بہار سرکار پر سختی کی، اس کے بعد ٢٠١٣ء میں اردو اور بنگلا ٹیچر اہلیتی امتحان منعقد کرنے کا فیصلہ لیا۔ اس زمانے میں ستائیس ہزار اردو اساتذہ کی آسامیاں مشتہر ہوئی تھیں۔ حکومت نے صوبائی سطح پر امتحان لے کر اس کے نتیجے نکالے پھر بہار اسکول ایکزامینیشن بورڈ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے بہانے اس نتیجے پہ نظرِ ثانی کی گئی اور بارہ ہزار سے زیادہ اردو اور بنگلا زبان کے ہونے والے اساتذہ کو کامیاب کے زمرے سے نکال کر ناکام بتادیا گیا اور ان کی قسمت کا تالا بند کردیا گیا۔ حکومت نے غلط سوال پوچھے تھے، دوسرا ماہرین نے غلط جواب تیار کیے تھے؛ افسران نے حکومت اور عدالت کو غلط اطلاعات فراہم کیں۔ مثالی جواب میں ردوبدل اور تبدیلیاں کی گئیں، ایک لطیفہ تو اب بھی یاد ہے کہ سوال پوچھا گیا تھا کہ مندرجہ ذیل میں کون سا پھل ہے اور اس سلسلے میں جو مثالی جواب منتخب ہوا تھا، وہ بیگن کا تھا۔ اسے ہی بہار اسکول ایکزامینیشن بورڈ، اس کے ماہرین اور ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں بہار سے باہر کے ہمارے احباب یہ پوچھتے رہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ اہلِ بہار بیگن کو پھل سمجھ کر ہی استعمال کرتے ہیں؟ ہم ندامت، خجالت کے ساتھ خاموش ہوجاتے حکومتِ بہار کا یہی فرمان تھا۔ اندازہ یہ ہوا کہ حکومتِ بہار نے نااہل اردو اساتذہ یا ماہرین کو اس کام میں اس مقصد سے لگایا تھا کہ وہ غلطیاں کریں۔ پہلے سوال غلط ہو، پھر جواب غلط ہو پھر عوام کے اعتراضات سامنے آئیں، دو چار کمیٹیاں بنیں اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا معاملہ آئے۔ سرکار کا منشا تھا کہ اردو والوں کو ملازمت نہ ملے۔ کمال یہ کہ حکومت اس میں کامیاب رہی۔
حکومت نے اردو اساتذہ کے لیے ساٹھ فی صد نمبر کی قید لگائی۔ جب کہ ٢٠١٩ء تک ہندی یا عمومی اساتذہ کی جو تقرری ہوئی، اس میں پچاس فی صد پر نتیجہ شایع کیا گیا اور وہ سب لوگ سرکاری تنخواہیں اٹھا رہے ہیں۔ پورے بہار میں ہر ضلعے میں پہلے کامیاب اور پھر ناکام کردیے گئے بچے ایک طویل مدت تک حکومت اور اس کے اداروں سے قانونی جنگ لڑتے رہے۔ ہائی کورٹ، سنگل بینچ، ڈبل بینچ، سپریم کورٹ؛ سارے مراحل طے ہوگئے مگر وہ امیدوار سرکار کے ایک وزیر سے دوسرے وزیر اور دوسرے سے تیسرے وزیر تک دوڑ لگاتے رہے ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کئی کئی ہزار کی تعداد میں ایسے امیدوار وزیر تعلیم کا گھیراو بھی کرتے ہوئے نظر آئے۔ حکومت کی لاٹھیاں بھی برسیں، وعدے تو سب کے سب کرتے رہے مگر نتیجہ اب تک نہیں نکل سکا۔ حالاں کہ قانونی اعتبار سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کے اٹرنی جنرل کے ایک مشورے کی ضرورت تھی، اس کے آئے ہوئے بھی کئی برس بیت گئے۔ ٢٠١٩ء میں بہار اسکول ایکزامینیشن بورڈ سے محکمۂ تعلیم نے یہ دریافت کیا تھا کہ ساٹھ فی صد نمبر سے اگر پانچ فی صد تخفیف کردی جائے تو کتنے لوگوں کا تنیجہ نکالنا ہوگا۔ حالاں کہ دوسرے مضمون کے اساتذہ کو پچاس فی صد میں ہی ملازمت ملتی رہی ہے مگر بقولِ اقبال: برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
چند برسوں سے نتیش کمار بہت چالاکی کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے ایک فارمولا پیش کررہے ہیں۔ وہ کھلے بندوں یہ بات کہتے ہیں کہ انھیں بہار میں مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا۔ پچھلے انتخاب میں جب وہ تیسرے درجے پر آگئے اور ان کی سیٹیں صرف ۴۴/ ہو گئیں، اس کے بعد ان کے  وزرا اور ان کے راگ میں راگ الاپنے والے حکومت کے اقلیت خوشامدیوں کی زبان پر یہ بات ہے کہ نتیش کمار یا این۔ڈی۔اے۔ کو مسلم اقلیت نے ووٹ نہیں دیا۔ بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ بات مسلمانوں کے بیچ خاص طور پر پھیلائی جارہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جوابی طور پر مسلمانوں کے کام کاج کو وہ کیوں کر اولیت دیں؟ اردو ٹی۔ای۔ٹی۔ کامیاب بارہ ہزار طلبا کی قسمت اسی فارمولے سے بندھ گئی ہے۔ نتیش کمار کو لگتا ہے کہ یہ بارہ ہزار امیدوار نہیں اس سے لاکھوں کی تعداد میں اقلیت آبادی کا مستقل فائدہ ہوگا۔ جب نقطۂ نظر محدود ہو اور انصاف کا مزاج اور جمہوری حقوق کی پاس داری شاملِ حال نہ ہو تو ایسی بے انصافیاں رواج پاتی ہیں۔ بہار میں ایمان کی بات یہ ہے کہ حکومت میں شامل ایک بھی وزیر، چیرمین یا ایم۔ایل۔اے۔ اس موضوع پر ایک لفظ بولنا نہیں چاہتا۔ وہ دن دور نہیں کہ بے روزگاری سے مقابلہ کرتے، حکومت کے دروازے پر دستکیں دیتے یہ نوجوان سب کرتب کرنے کے بعد کوئی ایسا اقدام نہ کرلیں کہ انسانیت دہل جائے۔ چار، دس یا بیس بچے غصہ اور ناسمجھی میں خود سوزی کرنے کے لیے چوراہوں پر اتر آئیں، تب بھی کیا حکومت کی آنکھ نہیں کھلے گی۔ یوں بھی یہ نوجوان لاٹھیاں کھاتے کھاتے مضمحل اور بے جان ہورہے ہیں۔ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے۔ حکومت نہ جاگے گی تو شاید ایسا کچھ ہونے لگے کہ بہار میں بھونچال آجائے گا۔
safdarimamquadri@gmail.com
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 

گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں : صوبۂ بہار میں حکمِ امتناعی: ظالم! شراب ہے، ارے ظالم شراب ہے!!!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے