صوبۂ بہار میں حکمِ امتناعی: ظالم! شراب ہے، ارے ظالم شراب ہے!!!

صوبۂ بہار میں حکمِ امتناعی: ظالم! شراب ہے، ارے ظالم شراب ہے!!!

حکومتِ بہار اورخاص طور پر وزیرِ اعلا نتیش کمار نے بہار میں شراب پینے والوں کے خلاف ایک مہم چھیڑ رکھی ہے، خدا کرے یہ سماجی انقلاب میں بدل جائے۔

صفدرا مام قادری

شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
گذشتہ ہفتے سے بہار کے وزیرِ اعلا نتیش کمار نے زور و شور سے شراب بندی کے لیے نئے سِرے سے اعلانات اور احکامِ امتناعی کے نفاذ میں خود کو جھونک دیا ہے۔ حکومت کی ساری مشنری کو شراب کے خلاف مہم میں لگا دیا گیا ہے۔ سرکار کے اہل کاروں کو اقرار نامہ جمع کرنا ہے کہ وہ شراب نہیں پیتے ہیں۔ انتظامیہ اور پولس کو اس کے لیے سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ امیّد یہ ہے کہ اس کے اثرات دیر پا ہوں گے اور بہار سے شراب پینے والوں کا قلع قمع ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ سیاسی مہم ہے مگر اس کا صد فی صد نفاذ ہو جائے تو واقعتا اس صوبے میں سماجی انقلاب کی دھمک محسوس کی جا سکے گی۔
ابھی حالیہ دنوں میں جس شدّت کے ساتھ یہ بات سامنے آئی ہے، اس کے اثرات بھی اچھے برے دونوں انداز سے نظر آنے لگے ہیں۔ پہلے ہی دن پولس کے لوگوں نے شادی کے گھر میں تلاشی لینے کے بہانے عورتوں کے کمروں میں اور خاص طور سے دلہن کے کمروں میں بھی بغیر کسی خاتون پولس کے تلاشی لینے کا اور خالی ہاتھ لوٹنے کا کار نامہ انجام دیا۔ ابھی وزیرِ اعلا اور ان کے افسران زورِ بیان میں کچھ اس قدر منہمک ہیں کہ انھیں بھی شاید یہ یاد نہیں رہا کہ بہار میں شراب بندی کے نفاذ کی اب ایک دہائی مکمّل ہونے والی ہے۔ نتیش کمار نے جب دوسری بار حکومت سنبھالی تھی، اس کے کچھ دنوں کے بعد شراب بندی کا اعلان ہوا تھا۔ اس پوری دہائی میں کہنے کو شراب بندی رہی مگر شہر اور گانو کے ہر چوک چوراہے پر دوا دکان سے لے کر سبزی کی دکانوں تک بلیک مارکیٹنگ کے ساتھ آسانی سے شراب ملتی رہی۔ ایک پینے والا کم نہ ہوا اور شراب کے سبب جرایم میں جو کمی آنی چاہیے تھی، اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ سال میں ایک دو بار ضرور نتیش کمار کبھی پولس یا کبھی سول انتظامیہ کے ساتھ اعلا سطحی نشستوں میں یہ بات کہتے ہوئے پائے گئے کہ شراب بندی کو لوگوں نے دل سے نہیں مانا۔ کئی بار پولس کی کسی نشست میں شراب پی کر آنے والے کسی اہل کار کی مذمت بھی ہوئی مگر اس بات پر نتیش کمار یا اُن کے افسران کبھی ایک لفظ نہیں بولتے کہ جب صوبۂ بہار میں مکمّل طور سے شراب بندی ہے تو گلی محلے میں لاکھوں ٹن شراب آخر کہاں سے آ جاتی ہے؟ حقیقی سوال یہاں ہے مگر جواب سرکاری سطح پر دوسری جگہ ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے اور نا کامی ہاتھ لگتی ہے۔
٢٠٠٦ میں جب نتیش کمار وزیرِ اعلا بنے، اس وقت اُن کی سرکار کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شراب کی بے طرح کالا بازاری ہوتی ہے اور اِس کے نتیجے میں حکومت کے کروڑوں روپے ٹیکس کے ضایع ہو جاتے ہیں۔ اِس کے علاج کے طور پر حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ شراب کی دکانوں کی لائسنس کی سخت شرطیں ہٹا دی جائیں گی اور آسانی سے اُسے قابلِ حصول بنایا جائے گا۔ معلوم ہو کہ اُس وقت اس پر شدید اختلاف ہوا تھا اور لوگوں نے سماج کو پاتال تک پہنچانے کا اسے قانون قرار دیا تھا۔مگر نتیش کمار شراب کے لائسنس بڑھانے اور اُس سے حکومت کے محصولات میں اضافے کے نشے میں اتنے سرشار تھے کہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنا انھیں مناسب نہیں لگا۔ اُس زمانے میں بہار کے لوگوں نے دیکھا کہ ہر ڈھابے میں اور ہر چھوٹے بڑے ہوٹل میں سرکاری شراب کھُلے عام ملنے لگی۔ پٹنہ میڈیکل کالج کے سامنے کم سے کم آٹھ دس شراب کی نئی دکانیں کھُلیں۔ پٹنہ یونی ور سٹی کے سامنے بھی ایسی نئی دکانیں تیّار ہوگئیں۔ یہ صرف پٹنہ شہر میں نہیں ہوا۔ بہار کہ گوشے گوشے میں ہم سب کے دروازے تک دستک دیتے ہوئے شراب ملنے لگی۔
پرانے قانون میں یہ لکھا ہوا تھا کہ تعلیمی ادارے، اسپتال اور مذہبی مقامات وغیرہ کے سو میٹر کے دائرے میں شراب کی دکان نہیں کھولی جا سکتی مگر اِن آنکھوں نے مسجد، مندر اور گرجا گھر سے پانچ میٹر سے کم دوری پر شراب کی دکانیں ملاحظہ کی ہیں۔ اُس دور میں شراب کی دکانوں پر بیس پچیس برس کے نوجوانوں کی ایسی بھیڑ نظر آنے لگی تھی جس سے آنے والے وقت کے شکستِ خواب کے مناظر اپنے آپ روشن ہو جا سکتے تھے۔ وہ دور اس لیے بھی یاد کیا جانا چاہیے کیوں کہ بہار میں شراب مافیا، جرایم پیشہ افراد اور سیاست دانوں کی چاندی کٹ رہی تھی اور دیکھتے دیکھتے ہماری نئی نسل شراب کی لت میں اتنی بڑی مقدار میں مبتلا ہو گئی، جس کا کسی نے اندازہ ہی نہیں کیا تھا۔
دنیا میں سب جانتے ہیں کہ پاپ کا گھڑا پھوٹتا ہے۔ شراب کے اس فیضانِ عام کے بعد جب پورے بہار میں انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا، تب نتیش کمار نے صوبے کی عورتوں کی شکایت پر شراب بندی کا فیصلہ لیا۔ یہ خبر آنے لگی کہ لوگ شراب پی کر اپنے گھروں میں جا کر بیوی بچوں سے نشے میں مار پیٹ کرتے ہیں۔ اِس بات کو سمجھنے اور شراب کے فیضانِ عام کے زہر کو تاڑنے میں نتیش کمار کو سات آٹھ برس لگ گئے۔ شراب بندی کا اعلان ہوا۔ چار دس دن چھاپے مارے گئے۔ روٹین ورک کی طرح مہینے دو مہینے میں کسی ہوٹل میں دو چار لوگوں کو شراب پیتے ہوئے پکڑا گیا اور کہانی ختم۔ سب جانتے ہیں کہ پولس اور ملیٹری کے افراد میں یہ شوق سب سے زیادہ ہے۔ سڑکوں پر سے لے کر بڑی بڑی جگہوں پر اس کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اب ایسی پولس شراب پینے والوں کی پہچان کرے اور انھیں پہچان کر گرفتار کرے، یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔
ان برسوں میں کہتے ہیں کہ پولس کی اندرونی کمائی بڑھ گئی اور شراب کی سو دو سو اور ہزار دکانیں تو بند ہوئیں مگر چھوٹے بڑے لاکھوں آوٹ لٹ غیر قانونی طور پر کھُل گئے۔ ان برسوں میں شراب مافیا نے بھی کبھی حکومت کی شکایت نہیں کی۔ حالاں کہ ظاہری طور پر شراب بندی سے وہی مالی اعتبار سے نقصان اُٹھانے والے تھے۔ وجہ کھُلی ہوئی ہے کہ لائسنس کی دکانیں تو بند ہو گئیں مگر پورے صوبے میں شراب کا کالا کاروبار عروج پر رہا۔ پہلے جو شراب سو روپے میں ملتی ہو گی، وہ تین گنی قیمت پر دستیاب تھی۔ آخر یہ اضافی رقم شراب مافیا کو ہی ملی۔ اس کے علاوہ اس دوران نقلی شراب بنانے والوں کا میدان میں آ جانا بھی ایک دوسرے انداز کے خطرے کی گھنٹی تھی۔ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے گھریلو پلانٹ بنائے اور صحت کے باضابطہ اُصولوں کی پاسداری نہ کرنے کے سبب ایسی شراب بازار میں چوری چھپے بییچنے میں اُنھیں کامیابی ملی، جو عمومی صحت کے لیے انتہائی خطرناک تھے۔ اِس ایک دہائی میں اخبارات کے صفحات سیاہ ہوئے کہ گانو گانو میں زہریلی شراب پینے سے کہیں دس اور بیس لوگ موت کے منہ میں سما گئے۔ اس شراب بندی میں ایسے لاکھوں لوگ اپنی جان لٹا دینے میں شراب کا شکار ہوئے مگر حکومت نے اس بات کی کبھی جانچ نہیں کی کہ یہ زہریلی شراب آخر کہاں سے آتی ہے۔
شراب ہو یا صفائی ہو، سیاسی ایجنڈا بنے گا تو ہمیں ناکامی ہاتھ آئے گی۔ یہ سماجی برائیاں ہیں اور اِن سے لڑنے کی سماجی مہم شروع کرنی ہوگی۔ ایک حکومت ایک بار شراب بند کرتی ہے اور دوسری حکومت اُسے جاری کرتی ہے۔ ایک ریاست میں شراب کی ممانعت ہے تو دوسری ریاست میں اس کی عام اجازت ہے۔ ہندستان جیسے بڑے ملک میں آسانی سے یہ لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ مسئلہ تب اور پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ایک ہی حکومت چار دن کے لیے اجازتِ عام دیتی ہے اور پانچویں دن قانون بنا کر منع کرتی ہے۔ حکومت مذہبی اُصولوں کی طرح اگر ایمان کے ساتھ شراب بندی کر رہی ہے تو اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ہفتہ بھی بہت ہوگا۔ایک ایک گھر، دکان اور سڑک چوراہے سے لے کر وزرا اور چیف منسٹرکے دفتر اور رہائش تک چھاپا مارا جائے تو کون ہے جو بچ سکے کا مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت کو شراب بندی کو محض سیاسی ایجنڈا بنانا ہے، اُسے سماجی انقلاب کے دروازے تک لے جانے میں شایدان کی حقیقی دل چسپی نہیں۔
مرکزی حکومت نے صفائی کی مہم کا تام جھام کے ساتھ آغاز کیا تھا۔ آخر اُس کا کیا ہوا۔ کیا ہر سال ۲/اکتوبر کو ہی ہمیں وہ کام یاد آنا چاہیے۔ حکومت کو تو اب اُس تاریخ میں بھی وہ کام یاد نہیں آتا۔ خدشہ یہ ہے کہ بہار کی شراب بندی کی یہ تازہ مہم جس شور شرابے کے ساتھ شروع ہوئی ہے، یہ ایک سیاسی ہنگامہ آرائی تک محدود نہ رہ جائے اور اس فیصلے کے پیچھے جو گہرے سماجی مقاصِد ہیں، وہ ہمارے ہاتھوں سے پھسل جائیں۔حکومت کو چور دروازوں کو بند کرنا ہوگا اور ہر قانون کا فایدہ جن غلط افراد کو حاصل ہوجاتا ہے، ان پر نظر رکھنی چاہیے۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سماج میں ہر مذہب کا آدمی شراب کو کم و بیش نقصان دہ اور غیر سماجی ہی مانتا ہے مگر پینے والے کم ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ہزاروں خرچ کرکے پینے والے تو ہیں ہی مگر سو پچاس کمانے والے بھی غربت اور نا سمجھی میں اِس برائی تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ سماج کے کمزور اور غریب طبقے میں ہم یہ بات پہنچا سکیں کہ یہ امّ الخبائث ہے اور اس سے نئی نئی برائیوں میں ہم مبتلا ہوتے جاتے ہیں تو شاید شراب سے دور ہٹنے کا ایک راستہ نکل سکتا تھا۔ خدا کرے کہ اب کی بار کی مہم ایمان داری کے ساتھ انجام تک پہنچائی جائے اور بہار ہی نہیں پورا ملک شراب کی لعنتوں سے پاک صاف ہو جائے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : آہ!محمد نظام الدین انصاری: یقین نہیں آتا کہ آپ کہیں اور چلے گئے!!! از صفد امام قادری 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے