خورشید طلب : شفق زار کے حوالے سے

خورشید طلب : شفق زار کے حوالے سے

طیب فرقانی

تنقید اگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے تو اس کا منفی رخ یہ ہے کہ اگر دودھ پانی سے الگ نہیں کیا جاسکا تو یہ ادب و شعر اور ادیب و شاعر کے ساتھ خیانت اور نا انصافی سے معبر ہوگی۔ تخلیق کار اپنی تخلیق اگر تنقیدی واہ واہی لوٹنے کی غرض سے پیش کرے تو وہ خود بھی اپنے آپ کو دھوکے میں رکھتا ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہعام طور سے خاتون خانہ اپنے نعمت خانے کے ہر کھانے پر واہ واہی لوٹنا پسند کرتی ہے اور اگر اس کی کمیوں کو اجاگر کر دیا جائے تو ناراض ہوجاتی ہے۔ خوبیاں گنائی جائیں تو پھولے نہیں سماتی ہے۔ اور خود کو دھوکے میں رکھتی ہے۔
خورشید طلب نے اپنی تخلیق (شعری مجموعہ: شفق زار) ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔ یہ مطالبہ نہیں کیا کہ یہ کیسی ہے اور نہ ہی انھیں اس کا انتظار ہے۔ اگر اچھی ہوگی تو اس کا مزہ چکھنے والا خود ہی ذائقے کی تعریف پر مجبور ہوگا۔ اور اگر اچھی نہیں ہوگی تو کہے گا اچھی نہیں ہے۔ اور اس کی خامیوں کو اجاگر کرے گا۔ اور اگر ذائقہ دار ہوتے ہوئے بھی کوئی تعریف نہ کرے تو اسے بد ذوق کہنا چاہیے۔ کہنے کی غرض یہ ہے کہ تخلیق کار کسی تنقید نگار سے روشنی تو حاصل کرسکتا ہے لیکن وہ اس کا محتاج ہر گز نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:
بونوں کے ہاتھوں خوش قامت ہونے کا اعزاز
آپ طلب کو اتنا بے توقیر سمجھتے ہیں
فیض احمد فیض نے کہا تھا:
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
میرا خیال ہے کہ شاعری دل کی یہی آواز ہے۔ دل اگر لہو سے خالی ہوجائے تو نہ زندگی باقی رہتی ہے اور نہ شاعری۔ فی الوقت میرا کام یہ ہے کہ دیکھوں خورشید طلب کے دل کا لہو کتنا گرم، کتنا گاڑھا، کتنا متنوع اور رنگ لب و رخسار صنم سے کتنا ہم آمیز ہونے والا ہے۔
نے کسی جام نے سبو میں ہے
جو نشہ ہے میرے لہو میں ہے
خورشید طلب کا یہ شعر ان کی خود اعتمادی، قلندری اور جاں سوزی کا غماز ہے۔ لہو میں نشہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ اگر اس کا ظاہری معنی مراد لیں تو شعر مہمل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے شاعری تشبیہات و استعارات سے مزین ہوتی ہے اور اس میں صنائع و بدائع کا استعمال شعر کی معنویت اور حسن میں گیرائی پیدا کرتا ہے۔ لہو کا نشہ استعارہ ہوگا ذات کے جو ش و ولولہ، خود داری، خود اعتمادی کا۔ اس شعر کو صرف ایک ذات پر محمول کریں تو اس کا مطلب ہوگا شاعر علو ہمت اور خود دار شخصیت کا مالک ہے۔ اگر اس شعر کو ذات سے پرے رکھ کر کائنات تک وسیع کریں، یعنی ہر اس ذات تک جس میں لہو کار فرما ہوتا ہے، تو معنی بھی وسیع ہوکر تمام ذی روح تک پھیل جائے گا۔ اور شعر کے معنی کی وسعت کسی اچھے شعر کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ اس شعر کی معنوی توسیع دیکھیں:
تجھ میں احساس کم تری، کچھ سوچ
اے محمد کے امتی کچھ سوچ
خورشید طلب کے یہاں ذاتی دکھ سے بڑا کائنات کا دکھ ہے:
یہ جو دکھ ہے ہماری ذات کا دکھ
اس سے بڑھ کر ہے کائنات کا دکھ
خورشید طلب کے مجموے ”شفق زار“ میں ایسے اشعار بڑی تعداد میں ہیں۔ وہ در اصل عظمت انسان اور احترام آدمیت کا نغمہ گاتے ہیں۔ انسان کی عظمت خلوص، وفا، پیار اور محبت میں پنہاں ہے۔ شفق زار کا انتساب بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خورشید طلب نے مجموعے کو محبت کے نام معنون کرنے کے بعد یہ شعر درج کیا ہے:
تھک کے لوٹیں گے سب یہیں ایک دن
آخری راستہ محبت ہے
اس شعر کو ذات سے خاندان، خاندان سے قوم، قوم سے بین الاقوام، بین المذاب، بین المسالک تک وسیع کرکے دیکھیں۔ شاعر کوزے میں سمندر کو بھرنے کے عمل سے گزرا ہے۔ دنیا جہان میں پھیلے تنازعات کے حل کے لیے لاکھوں کی تعداد میں کتابیں وجود میں آرہی ہیں۔ کثیر الانواع فلسفے گڑھے جارہے ہیں۔ دایاں بازو، بایاں بازو، اشتراکی، سماج وادی، جمہوری اور نہ جانے کتنے قسم کے فلسفے انسانی اذہان و قلوب میں سموئے گئے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن فلسفہ محبت ہمیشہ آفاقی رہا ہے۔ اور آج بھی بقول شاعر اسی فلسفے میں نجات ہے۔
یوں تو خورشید طلب کی غزلوں کے موضوعات میں اتنا تنوع ہے کہ سبھی کو سمیٹنا یہاں ممکن نہیں ہے۔ لیکن شفق زار کی سرسری قرات سے بھی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ شاعر کا مزاج صوفیانہ اور قلندرانہ تربیت یافتہ ہے۔
تم کو سر مد کے سر کی یاد نہیں
تم نے دیکھا نہیں دھمال مرا
پہلے کچھ متنوع موضوعات پہ اشعار دیکھ لیں پھر ہم اپنی بات آگے بڑھائیں گے۔
یہ بھی کچھ ہجر منانے کا طریقہ ہے طلب
ہونٹ کے ساتھ تیرے پھیپھڑے کالے پڑجائیں

یہ پہلی بار ہے کچھ دور آکے لوٹ گیا
مجھے وہ چھوڑنے آیا تو گھر نہیں آیا

آپ کے دستخط ہیں کاغذ پر
اب مجھے اور دیکھنا کیا ہے

دیکھیے شام کیا خبر لائے
صبح کا ناشتہ اداسی ہے

تجھ کو کتنا درد دیا ہے تیرے اپنوں نے
ہم شاعر ہیں درد تیرا کشمیر سمجھتے ہیں

پہلے شعر میں ہجر موضوع بنا ہے۔ لیکن ہجر کی کیفیت روایتی نہیں ہے۔ رونے بسورنے اور خود اذیتی پر تنقید کرکے ہجر کو گوارا بنانے کا پیغام دیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں دو افراد کے ایسے تعلقات پہ روشنی ڈالی گئی ہے جن کے درمیان فی الحال سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے اور کچھ ان بن کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس شعر میں تجربہ، مشاہدہ، پیکر، سادگی، اصلیت اور بھر پور تاثر موجود ہے۔ شاعر نے اس خاص لمحے کی تصویر کھینچ دی ہے۔
تیسرے شعر میں کاغذ پہ دستخط ہونے سے شاعر مطمئن ہے۔ لیکن جو ان کہی اس شعر میں موجود ہے وہ بہت سے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ دستخط اتمام حجت کے معنی میں استعمال کریں تو اس شعر میں طنز کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ اور مخاطب پر کامل یقین کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ چوتھا شعر ہماری روزمرہ زندگی کے معمول کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ صبح ناشتے میں اخبار دیکھنا روز مرہ کے معمولات میں سے ایک رہا ہے۔ لیکن اخبارات جن خبروں سے بھرے رہتے ہیں ان میں ایک حساس طبیعت کی اداسی کا سامان وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ لیکن شاعر صبح کی اداسی کے بعد شام کی خوش خبری کا متمنی ہے۔ یعنی وہ اداس تو ہے لیکن نا امید نہیں ہے۔ پانچواں شعر حسیت سے لبریز ہے۔ کشمیر کو تقسیم ہند کے بعد سے اتنے زخم جھیلنے پڑے ہیں کہ اس کا سینہ چھلنی چھلنی ہوکر رہ گیا ہے۔ شعر میں شاعر کا یہ اعلان کہ ہم شاعر ہیں اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ موجودہ سیاست سفاکیت پر مبنی ہے۔ جب کہ شاعر انسان کا درد سمجھتا ہے۔ اور اپنی ذات میں کسک محسوس کرتا ہے۔
اس گفتگو سے خورشید طلب کی غزلوں میں موضوعات کے تنوع کی طرف صرف اشارہ مقصود ہے۔ اب آئیے ان کے حاوی اور غالب رجحان کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی شاعری پر متصوفانہ اور عارفانہ رنگ غالب ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ خورشید طلب جدید زمانے کا صوفی ہے۔ ایک ایسا صوفی جسے عرفان بھی حاصل ہے اور وہ حرکت و عمل کا قائل بھی ہے۔
یہ جو تھوڑے میں ہے احساس فراوانی کا
لطف دیتا ہے فقیری میں بھی سلطانی کا

بے سکونی میں سکوں ڈھونڈ لیا ہے میں نے
اب اثر ہوتا نہیں مجھ پہ پریشانی کا

ہم فقیروں کو یہ اعزاز خداوندی ہے
ہم جسے چاہیں اسے صاحب اعزاز کریں

دل رضائے خدا سے راضی ہے
جز خدا اور کسی سے آس نہیں

کسی بھی وقت سر راہ موت کے منہ پر
لباس جسم قلندر اتار پھینکے گا

جب یہ دنیا ہی پرائی ہے تو پھر
چشم گریہ پہ قلق کس کے لیے

آگ گل زار ہوگی پانو بڑھا
زندگی پیش و پس میں ہے ہی نہیں

زندگی کا مزاج عیش پسند
اور فطرت سے ہوں قلندر میں

ایک بڑھیا کی گود میں چھوٹا سا بٹوا
دنیا اس بٹوے کے اندر رکھی ہے

خودی اب منتہا پر چل رہی ہے
میری مرضی خدا پر چل رہی ہے

یہ دس اشعار میں نے ان کے مجموعہ کلا م شفق زار سے یوں ہی منتخب کرلیے ہیں۔ منظم انتخاب کچھ مزید پہلو روشن کرسکتا ہے۔ ان اشعار میں ذات و کائنات کا عرفان و وجدان، موت و زیست کا ادراک، سرشاری و سرمستی اور خودی و قلندی کا جس طرز سے اظہار ہوا وہ صدائے دمادم کی طرف لپکنے پر بر انگیختہ کرتا ہے۔ ان میں انفعالیت اور قنوطیت کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ خدا پر مکمل ایقان کے ساتھ جزبہ براہیمی پیداکرنے کی صدا دی جارہی ہے۔ اور زندگی کے عرفان سے لطف کشید کرکے آگ کو گل زار بنانے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ اس طرح خورشید طلب کی شاعری صالح فکر، صالح قدر، علو ہمتی، بلند حوصلگی کی پیغام بر ہے۔ پاکستانی شاعر سید انصر نے انھیں زندگی سے بھر پور شاعر کہا ہے اور بجا کہا ہے۔
لیکن ذرا ٹھہریے شاعری صرف پیغام بری تو نہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شاعر نے فن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ در اصل الفاظ کا چناؤ اور فنی رچاؤ شاعر کو امتیاز بخشتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خورشید طلب فنی اسرار و رموز سے خوب واقف ہیں لیکن ایک دو پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔ شفق زار سے یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کیوں میں پتھر کی جگہ باندھوں پہاڑ
شعر میں حرف ادق کس کے لیے

اب کوئی شعر سلیقے کا سنا رخصت لے
زندگی تو نے بہت قافیہ پیمائی کی

ان اشعار کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ شاعر بحور و اوزان، ردیف و قوافی اور الفاظ کے بہتر استعمال سے واقف و آگاہ ہے۔ کسی شعر میں جو بات لفظ پتھر کے استعمال سے کہی جاسکتی ہے اسی کے لیے پہاڑ لفظ کا استعمال تصنع و تکلف پر محمول ہوگا۔ اور شاعری پر تصنع و تکلف ناخوش گواری کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ صوتی ہم آہنگی کے اعتبار سے پہاڑ کے مقابلے پتھر کا لفظ زیادہ سلیس اور موزوں ہے۔ یعنی فن شعر میں شاعر کا موقف یہ ہے کہ قافیہ پیمائی اور بھاری بھرکم، ثقیل الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ خورشید طلب کا نظریہ فن شعر ہوا۔ عملی طور سے کچھ مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے اسلوب و استعمال الفاظ کا ایک نمایاں پہلو جو ہمارے سامنے آتا ہے وہ ہے ان کے اشعار کا نثر کے قریب ہونا۔ خورشید طلب کے بیش تر اشعار ایسے ہیں کہ اگر ان کی نثر کی جائے تو بھی وہ جوں کا جوں توں رہتے ہیں۔ یعنی اس میں کچھ تبدیلی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شفق زار کے مرتب جہانگیر نایاب نے عرض مرتب کے ضمن میں لکھا ہے:
”محترم خورشید طلب صاحب میرے آئیڈیل بھی اور استاد بھی۔ میں بچپن ہی سے ان کی شاعری کا گرویدہ ہوں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھے کبھی ان کی کسی غزل میں بھرتی کا کوئی شعر نظر نہیں آیا۔“ (ص: ۱۲)
یہاں انھوں نے غزل میں بھرتی کا شعر نہ ہونے کی بات کہی ہے۔ غزل میں بھرتی کا شعر ہونا عجز خیال کی علامت ہے۔ یعنی جب شاعر کے پاس کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہ ہوتو کچھ فرسودہ اور پامال اشعار کو نظم کرلیتا ہے۔ تاکہ غزل مکمل ہوسکے۔ لیکن شعر میں بھرتی کا لفظ ہونا عجز بیان کی علامت ہے۔ یعنی آپ کے پاس کہنے کے لیے تو بہت کچھ ہے لیکن آپ کہہ نہیں پا رہے ہیں، الفاظ کو توڑ مروڑ کر، ان کی ترتیب بگاڑ کر ان کے توازن و ہم اہنگی کا خیال نہ رکھتے ہوئے، خیال کو نظم کر لیتے ہیں۔ اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں:
ایک تو یہ کہ اس شعر کی نثر کریں تو اس میں کچھ ایسے الفاظ مل جائیں جن کی نثر میں، جملے میں ضرورت نہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تمام اوزان وقوافی کے ساتھ شعر نثری آہنگ میں ہو اور نثر کرتے وقت اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ دوسری صورت پہلی صورت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اور شاعر کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔ خورشید طلب کے مذکورہ اشعار میں یہ صورتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ یہاں مزید کچھ مثالیں پیش ہیں۔
جہاں آغاز میں الجھا ہوا ہے
کہانی انتہا پر چل رہی ہے

اگر وہ جنگ کا اعلان کرنے والا ہے
تو اس کا فیصلہ حیران کرنے والا ہے

سینے سے اب تو کوئی پتھر کی سل ہٹادے
کب تک لہو جلاؤں، کب تک غبار روؤں

شیر کو بھبھکی دی گیدڑ نے، شیر کو غصہ آیا
گیدڑ جا دبکا جھاڑی میں زد میں بکرا آیا

جشن گریہ کا اہتمام کیا
جب خدا سے کبھی کلام کیا

حاصل گفتگو یہ ہے کہ خورشید طلب کا شعری مجموعہ شفق زار رنگا رنگ فکر و خیال اور فنی خوبیوں سے آراستہ و پیرا ستہ ہے، اہم اور قیمتی شعری مجموعہ ہے۔ یقینا اسے عصری اردو شاعری کے آسمان پہ ایک ستارے کی مانند رکھا جانا چاہیے۔

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :بت شکن از طیب فرقانی 

شیئر کیجیے

One thought on “خورشید طلب : شفق زار کے حوالے سے

  1. طیب فرقانی صاحب بہترین تجزیہ پیش کرنے کے لیے مبارک باد۔۔۔مفصل اور جامع
    آپ کے دستخط ہیں کاغذ پر
    اب مجھے اور دیکھنا کیا ہے۔۔
    خوب۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے