شخصیت : ڈاکٹر اشرف آثاری

شخصیت : ڈاکٹر اشرف آثاری

کالم نگار: ایس معشوق احمد

دنیا اس کام کی ستائش ضرور کرتی ہے جو اشتیاق، کامل توجہ، دیدہ ریزی، اور والہانہ پن سے کیا جائے۔شوق اور لگن کے ساتھ ساتھ فن پر بھی مکمل گرفت ہونی چاہیے جب ہی ایک تخلیق کار کی تخلیق صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ کوئی بھی تخلیق کار اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی تخلیق کرتا ہے اس کو شہرت اور دوام ملے۔ جس تخلیق میں کچھ انوکھا اور نیا ہو، جو پرکشش اور خوب صورت ہو، پر تاثیر ہو اور جو اپنی طرف متوجہ کرنے کی طاقت رکھتی ہو وہی زندہ رہتی ہے۔ وادی کشمیر میں ایسے تخلیق کاروں کی کمی نہیں جنھوں نے ایسی تخلیقات یاد گار چھوڑی ہیں جن میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ وہ خود کو صدیوں تک زندہ رکھ پائے گی۔ ایسا ہی ایک منفرد اور کنہہ مشق ادیب ڈاکٹر اشرف آثاری ہے۔ جن کی تخلیقات اس قابل ہیں کہ وہ قارئین کے ایک وسیع حلقے کو متاثر کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر اشرف آثاری 14 اپریل 1954ء میں پیر احسن شاہ کے گھر تولد ہوئے۔ چونکہ آثار شریف درگاہ حضرت بل جائے پیدائش ہے اسی مناسبت سے نام کے ساتھ آثاری کا لاحقہ لگا لیا۔ والد صاحب بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے اور علم طب سے بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ کشمیری زبان میں شاعری بھی کرتے تھے اور ان کی غزلیات کا مجموعہ "باغ وحدت" کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر اشرف آثاری نے کشمیر یونی ورسٹی سے عربی میں پوسٹ گریجویشن کی ہے۔ لکھنے کی شروعات ستر کی دہائی میں کی۔ 1972ء کے آس پاس پہلا افسانہ روزنامہ آفتاب میں "زخمی مسیحا" کے عنوان سے چھپا۔ ڈاکٹر اشرف آثاری ادبی دنیا میں ایک شاعر، ناقد، افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور خاکہ نگاری کی حیثیت سے پہچان رکھتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ "میں شاعر تو نہیں" زیر طبع ہے۔ نعتیہ مجموعہ "مدینہ مدینہ" اور سنجیدہ شعری مجموعے "صد برگ" بھی جلد منظر عام پر آئیں گے۔ شاعری میں عشرت کرتپوری کے شاگرد ہیں جو پہلے جگر مراد آبادی اور بعد میں شاعر مزدور احسان دانش کے شاگرد ہوئے۔ ڈاکٹر اشرف آثاری کا طنز و مزاح سے بھرپور کلام "ملا آصف کاشمیری" کے نام سے کشمیر عظمی میں ایک عرصے تک چھپتا رہا جس کی ادبی اور عوامی سطح پر کافی پذیرائی ہوئی۔ ڈاکٹر اشرف آثاری کی تنقید کے حوالے سے "عصری ادب کے رنگ و آہنگ (1)" نامی کتاب 2014 ء میں چھپ چکی ہے۔ اس کتاب میں سینتیس مضامین شامل ہیں جن میں زیادہ تر ہم عصر قلم کاروں پر لکھے گئے ہیں۔ علامہ اقبال سے لے کر حیکم منظور تک، محمد یوسف ٹینگ سے لے کر فرید پربتی تک، نور شاہ سے لے کر اشوک پٹواری تک کشمیر میں لکھے گئے ادب پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے جس میں تنقید کا بنیادی منصب یعنی خوبیوں اور خامیوں کی طرف بہترین انداز میں اشارے ملتے ہیں۔ کتاب میں شامل علامہ اقبال اور شیوازم نامی مضمون لطف الرحمن کے مضمون اقبال اور شیومت کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اقبالیات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی کتاب "علامہ اقبال اور قادیانیت" کو بھی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ملی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن مزید اضافہ کے ساتھ "علامہ اقبال اور مرزائیت" کے عنوان سے جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔ ڈاکٹر اشرف آثاری پیشے سے معالج ہیں اور ہومیوپیتھی میں ان کی اب تک پانچ کتابیں ہومیوپیھتی اور نوجوانوں کے جنسی مسائل، ہومیو پیتھی اور دمہ، ہومیوپیتھی اور برص، ہومیوپیتھی اور پراسٹیٹ اور ہومیوپیتھی اور گردوں کی پتھریاں کافی مقبول ہو چکی ہیں۔ انشائیوں اور خاکوں کا مجموعہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا" جلد زیور طبع سے آراستہ ہوگا۔
ڈاکٹر اشرف آثاری کے دو افسانوی مجموعے "افسانہ لکھ رہا ہوں ( 2014) ء اور بلھا کیہ جاناں میں کون؟ ( 2018 ) ء چھپ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف آثاری بہ آواز بلند کہہ رہے ہیں کہ میں "افسانہ لکھ رہا ہوں" جس میں”یادوں کے دفتر" بھی ہوں گے اور "نئے افق کی تلاش" بھی۔ "گمنام قبرستان" جس کی کھوج حال ہی میں ہوئی ہے سے ماں خوشی خوشی یہ نعرہ لگاتے ہوئے نکلے گی کہ "میرا بیٹا زندہ ہے"۔ "دادی اماں" جب "سوال" کریں گی کہ "بندر بڑے یا ریچھ؟" تو "قدسیہ" بچوں سے کہے گی کہ "وہ کون تھا" ، جواب آئے گا کہ”مہمان" تھا جو "فرار" ہوگیا ہے۔”واپسی" پر جب ان کا "ملاپ" ہوگا تو یہ اقرار بھی ہوگا کہ "ہم سا برا نہ کوئی" کیونکہ "دشمن کی بیٹیاں" جب "خود کشی" کرتی ہیں تو یہ خبر "پھانس" کی طرح دل میں چبھ جاتی ہے۔ "کتے دہشت گرد نہیں ہوتے" جب "سبز پری" یہ اعلان کرتی ہے تو "خود کش بمبار" حملہ کرتا ہے اور اس کی وفات کے بعد لوگ کہتے ہیں کہ "سالا جنت میں مرگیا"۔ یہی خبر ابھی گردش کررہی تھی تو "سنگ باز" نعرہ لگا رہے تھے کہ "جنگ ابھی جاری رہیگی"۔ "قدسیہ آپا" کو جب "پانچ سو کا نوٹ" مل جاتا ہے تو وہ خدا کا شکر بجا لاتی ہے اور کہتی ہے کہ "یہ سب تمہارا کرم ہے"۔ جب سب مل جاتے ہیں تو یہ مشورہ ہوتا کہ "ہم لوگ" اپنا اپنا دکھ درد سنائیں یا "گھر گرہستی" سنبھالیں۔
ڈاکٹر اشرف آثاری نے کشمیر کے پر آشوب حالات اور درد ناک مناظر کا ذکر علامتی افسانوں میں بھی کیا ہے اور براہ راست بھی۔ ان کے افسانوں میں تازگی بھی ہے، شگفتگی، شادابی اور رعنائی بھی۔ ان کے یہاں سماج میں پنپ رہی برائیوں کا ذکر، انسان اور انسانیت کا درد، اپنوں کا احساس، فطرت کے حسین نظاروں کا بیان، حقیت نگاری کا عمدہ اظہار، زبان کی لطافت، اسلوب کی ندرت اور باتوں کو آسانی سے سمجھانے کا ہنر موجود ہے۔ رومان سے ہٹ کر ڈاکٹر اشرف آثاری حقیقت نگاری اور دل دوز واقعات کو اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں جنت کا بیان بھی ہے اور جہنم کی تصویر کشی بھی۔لوگوں کی بے بسی، آہ و زاری، خون ٹپکتی آنکھیں، احتجاج کرتے لوگ، پریشانیاں اور نفسیاتی مسائل اور ابتر حالات کی جھلکیاں ان کے یہاں دیکھی جاسکتی ہیں. پروفیسر حامدی کاشمیری ان کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ:
” ڈاکٹر اشرف آثاری پوری تن دہی اور dedication سے قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کے مسائل اور مشکلات کا شعور اور آگہی رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک معاشرے میں طبقہ بندی اور سیاسی اونچ نیچ گہرے مسائل کو جنم دیتی ہے اور وہ جذباتی اور ذہنی ردعمل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مظلوم اور فلاکت زدہ ہم وطنوں کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور وہ یہاں کے موجودہ حالات سے بہت متاثر ہیں۔"
ڈاکٹر صاحب ایک سنجیدہ اور حساس انسان ہیں۔آئے روز اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کو خوب صورتی سے افسانے کا رنگ دیتے ہیں اس میں بعض دفعہ کامیاب ہوتے ہیں تو کبھی فنی لوازمات کو قائم نہیں رکھ پاتے۔ ان کا افسانہ پھانس (1) اور پھانس (2) کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہاں ذاتی تجربات ہی نہیں بلکہ وہ درد بھی بیان ہوا ہے جب بوڑھے والدین کا اکلوتا سہارا اغوا ہوکر گمنام قبرستان کے حوالے کیا جاتا ہے تو ماں باپ زندہ لاشیں بن جاتی ہیں۔ زندہ رہنے کی خواہش باقی نہیں رہتی اور نہ ہی انھیں مرنے کا غم ہوتا ہے۔ جس جانب دیکھتے ہیں انھیں لخت جگر کی یاد ستاتی ہے اور آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف آثاری نے "گمنام قبرستان" میں لاپتے ہوئے نوجوان کے والدین کی کیفیات، جذبات، بیٹے سے محبت اور شفقت، بیٹا چھن جانے کا دکھ اور غائب ہوئے نوجوانوں کو موت کے حوالے کرنے کے واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ زبیدہ کو اٹھارہ برس بعد خبر ملتی ہے کہ اس کا اکلوتا بیٹا مختار جو لاپتہ ہوا تھا کی میت اسی گمنام قبرستان میں دفنائی گئی ہے جو حال ہی میں کھوج نکالا گیا ہے۔ مختار خوب صورت، صحت مند اور دین دار نوجوان تھا۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلا تھا کہ وردی پوش افراد نے اسے ساتھ کیا لیا کہ ہر جگہ ڈھونڈنے کے باوجود کوئی نشان قدم نہ ملا۔ زبیدہ صبح سے شام تک اسی گمنام قبرستان میں گم صم بیٹھی رہتی تھی۔ ملکی اور بیرونی ممالک کی میڈیا نے زبیدہ اور قادر کی تصویروں کے ساتھ پوری کہانی کی خوب تشہیر کی۔حکومتی ایجنسیوں نے کوشش کی کہ زبیدہ قبرستان جانے کی عادت ترک کر دے لیکن اس کی عادت نہ چھوٹنی تھی نہ چھوٹی۔ اچانک ہی زبیدہ نے قبرستان آنا چھوڑ دیا. سارے لوگ، میڈیا کے افراد زبیدہ کی صحت کے حوالے سے فکر مند تھے۔ قادر نے اپنے منیجر صاحب کو یہ راز بتایا کہ اٹھارہ برس قبل جس بدنام زمانہ مخبر اصغر نے مختار کو پہلے غائب اور پھر ٹھکانے لگوایا تھا، نے پٹنہ سے خط بھیج کر حلفا بیان دیا کہ مختار اس گمنام قبرستان میں دفن نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبیدہ اب وہاں نہیں جاتی۔ افسانہ سے اقتباس:
” اصغر نے خط پر اپنا پتہ نہیں لکھا تھا اگر لکھا ہوتا تو میں اس سے ضرور پوچھ لیتا کہ خدارا ہمیں بتاؤ کہ تم نے ہمارے بیٹے مختار کو کہاں اور کس گمنام قبرستان میں چھپا رکھا ہے تاکہ میں اور زبیدہ بھی اسی گمنام قبرستان میں دو گز زمین حاصل کر لیتے"۔
آپ کی تخلیقات وادی کے معروف اخبارات و رسائل کے علاوہ آجکل، شاعر، بیسویں صدی، ایوان اردو، تخلیق، چہار رنگ، روبی، کہکشاں، عالمی سہارا، بزم سہارا، تعمیر، انشاء، ادبی محاذ، انتساب میں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر اشرف آثاری ہومیو میڈیکل ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں اور نگینہ انٹرنیشنل کے سنئیر رکن مجلس مشاورت رہ چکے ہیں، اپنی ذاتی مصروفات کی وجہ الگ ہو گئے۔ ڈاکٹر آثاری نے سہ ماہی رسالہ "شب تاب" بھی نکالا تھا جو کچھ شماروں کے بعد نکلنا بند ہوا۔ اردو اکادمی جموں و کشمیر کے بنیادی رکن بھی ہیں۔ ڈاکٹر اشرف آثاری کو ادبی خدمات کے صلے میں وفا بھدرواہی فاؤنڈیشن ایوارڈ، سارہ محمد عبد اللہ ایوارڈ 2014ء برائے اردو تنقید، تحریک ادب بنارس 2014ء یاد گار محبت ایوارڈ، عمر مجید فاؤنڈیشن ایوارڈ 2015ء، نگینہ انٹرنیشنل ایوارڈ 2017ء برائے معاونت تحقیق، بخشی میموریل ایوارڈ 2018ء برائے اردو ادب ملے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف آثاری ابھی لکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کے قلم سے مزید بہترین فن پارے وجود میں آئیں گے.
گذشتہ کالم یہاں پڑھیں:شخصیت : رحیم رہبر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے