بت شکن

بت شکن

طیب فرقانی 

جب اس نے اس ضخیم کتاب کی آخری سطر پر پہنچ کر سر اٹھایا تو اس کے ہاتھ میں نوکیلی کلہاڑی تھی. ہزاروں صفحات کی کتاب پڑھتے پڑھتے وہ نہ صرف یہ کہ  مزید تروتازہ ہوگیا تھا بلکہ اسے احساس ہوا کہ اس کے ارد گرد کئ ایک بت خانے ہیں، جن کے بتوں کو توڑا جانا بہت ضروری ہے. کلہاڑی پر اس کی پکڑ مزید سخت ہوگئی.
وہ مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اٹھا اور اپنے سب سے نزدیکی بت خانے میں داخل ہوگیا.
اس نے گھڑی پہ نگاہ ڈالی. وقت کم تھا اور بت خانے میں چھوٹے بڑے ہزاروں بت تھے. سب کو توڑنا اس کے لئے ممکن نہ تھا. اس نے ہزاروں صفحات کی اس کتاب میں پڑھا تھا کہ چھوٹے بتوں کی روحیں بڑے بتوں کے عکس سے جلا پاتی ہیں. بڑے بتوں کو ٹوڑنے سے چھوٹا بت خود بخود پگھل کر معدوم ہوجاتا ہے.
اس نے بڑھ کر نسبتاً ایک بڑے بت کے شانے پر زوردار حملہ کیا. جھناک کی زوردار آواز کے ساتھ بت گر گیا. بت خانے سے عجیب سی بھنبھناہٹ اٹھی. بھنبھناہٹ اعصاب کو متاثر کرسکتی تھی لیکن ہزاروں صفحات کی اس کتاب میں ایسے مواقع سے بچنے کا ٹوٹکا موجود تھا. اس نے ایک لمبی سانس لی اور ٹوٹکا آزما کر خود کو مزید توانا محسوس کیا.
اس نے دیکھا کہ ہزاروں صفحات میں لکھی ہر بات درست ہوتی جارہی تھی. اس کا نشہ لطف دے رہا تھا. اس نے چن چن کر بتوں کو ڈھانا شروع کردیا. بڑے بتوں کے ڈھہہ جانے کے ساتھ چھوٹے بت موم کی طرح پگھل جاتے تھے. ہر بت کے ڈھہہ کر گرنے کے بعد بھنبھناہٹ کا شور ضرور اٹھتا تھا. کبھی ہلکا، کبھی تیز…اور ہر بت کو گراکر اس کا نشہ مزید لطف دیتا تھا. ٹوٹکے اتنے کارگر تھے کہ بعد میں اسے ٹوٹکے نہیں کرنے پڑے. دھیرے دھیرے بت خانے کے بہت سے بڑے بت گر کر چور ہوگئے. چھوٹے بت موم کی طرح پگھل کر رہ گئے. بتوں کی کرچیوں کی آواز موسیقی میں بدل جاتی تھی اور پگھلے موم اس کے جام کو اتنا لبریز کر گئے کہ اس کا ذہن گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک کی طرف نہیں گیا. بہت سا وقت صرف ہوگیا. تھوڑا وقت بچا تھا کہ اچانک اس کی توانائی ختم ہونے لگی. جیسے منزل کے قریب پہنچ کر گاڑی کے فیول کی سوئی سرخ رنگ کے نشان پر لٹکنے لگتی ہے. بہت وقت سے ٹوٹکے استعمال نہیں کرنے سے اب ٹوٹکوں کی تاثیر بھی جاتی رہی. اس نے اسکلیٹر پر اپنی گرفت مزید سخت کی. گاڑی کی گڑگڑاہٹ تکلیف دہ حد تک بڑھ گئی. اس نے ہزاروں صفحات کی اس کتاب کے اوراق کو ذہن میں دہرانے کی کوشش کی. لیکن بہت سا وقت گزر جانے کی وجہ سے اوراق کرم خوردہ ہوگئے تھے.
واپسی کی دو ہی صورتیں تھیں. یا تو سارے بتوں کو توڑ کر بت خانے کو پاک کردیا جائے یا سارے بتوں کو سالم صورت میں اپنی جگہ قائم کردیا جائے. وقت رہتے دوسری صورت ہی اسے کارگر نظر آئی. اس نے ٹوٹے بتوں کی جگہ دوسرے بت بنانے شروع کردیئے. لیکن  ہر بت اسی وقت تک باقی رہتا جب تک کہ اس کا اپنا عکس ان پر پڑتا رہتا. اس نے ایک خاص مقام چن کر بڑا سا چبوترہ بنایا. پھر ٹوٹے بتوں سے خالی مقام کو جلد از جلد پر کر دیا اور خود چبوترے پر جاکر دوسرے بتوں پہ جیسے ہی اپنا عکس ڈالا گھڑی کی سوئیاں  آخری بار تھر تھرائیں اور خاموش ہوگئیں. دور کہیں ایک شخص ہزاروں صفحات کی ایک کتاب پر جھکا ہوا تھا…

 

طیب فرقانی کی گذشتہ تحریر : ” الف یا مصطفی ” ایک نعت ایک ہزار شعر (تبصرہ)

شیئر کیجیے

One thought on “بت شکن

  1. Name : مسعود بیگ تشنہ
    Email : baig.masood54@gmail.com
    Message : پر اسرار علامتی افسانہ جس کے اسرار کے کھلنے کی کنجی ملنا آسان نہیں. کیا یہ کتاب کتابِ زندگی ہے؟ کیا ہمارے خود ساختہ بتوں کو ہم ڈھ سکتے ہیں؟ کیا ہمارا زندگی کا عکس بتوں کو اس سرِ نو نئی زندگی نہیں دے رہا ہے، جنہیں ہم ڈھانا چاہتے ہیں؟ کیا یہ سب کرتے کرتے ہماری زندگی کی گھڑی کی آخری ساعت نہیں پہنچنے والی ہے؟ وقت کم ہے کا اشارہ کس طرف ہے؟ زندگی جانے کب ختم ہو جائے! نہایت کامیاب افسانہ. بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات مسعود بیگ تشنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے