شخصیت : رحیم رہبر

شخصیت : رحیم رہبر

کالم نگار : ایس معشوق احمد

جموں و کشمیر میں ادب کا عالی شان محل تعمیر کرنے میں یہاں کے ادبا اور شعرا نے خون پانی ایک کیا ہے۔ اس محل کو پائیدار اور پرکشش بنانے کے لیے یہاں کے ادیبوں نے وسیع نظر اور عمیق مشاہدے کا مظاہرہ کرکے فن کاری کے اعلا نمونے پیش کیے ہیں۔بعض حضرات نے شاعری کے ذریعے اس کی زینت بڑھائی تو وہیں دوسری جانب نثر نگاروں نے ناول، ڈراما اور افسانوں کے ذریعے سے اس کے نقش و نگار میں رنگ بھرے دیے تاکہ محل کی خوب صورتی دو چند ہوجائے۔ جن ادیبوں نے مختلف اصناف سے محل کی آسائش و زیبائش میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں ایک معروف نام رحیم رہبر کا ہے۔
رحیم رہبر کے قلمی نام سے معروف شخصیت کا اصل نام عبد الرحیم ڈار ہے۔ آپ 3 مارچ 1959ء میں پیٹھ کانہامہ ماگام بڈگام میں عبدل سبحان ڈار کے گھر تولد ہوئے۔ محمکہ تعلیم میں پلاننگ آفیسر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ لکھنے کی شروعات شاعری سے کی اور کشمیری زبان میں شعری مجموعہ "رسلی نغمہ" کے عنوان سے 1993ء میں چھپ چکا ہے۔ کشمیر کے جن ادیبوں نے کثرت سے لکھا ان میں رحیم رہبر کا نام ممتاز ہے۔ ان کے ہاتھوں میں تیز رو قلم ہے جو تیز تر چلتا ہے۔ تین زبانوں انگریزی، اردو اور کشمیری میں آپ کی اب تک اکسٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ پہلی کتاب 1979ء "عبادات" کے عنوان سے منظر عا م پر آئی ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع مذہب ہے۔ ادب کے علاوہ مذہب اور نفسیات سے دل چسپی رکھتے ہیں۔نفسیات پر "مشعل" نامی کتاب 1987ء میں چھپ چکی ہے۔ آپ کے اب تک کشمیری زبان میں گیارہ افسانوی مجموعے ۱- یپآری وولو تاپلیو ، ۲- وآران بونہ ہُند حآران کاو، ۳- یہ دود کر بلہ، ۴۔ اوش تہ الاو، ۵- یخ خابہ تلاوُک، ۶۔ زر زژء تہ آختاب، ۷۔ سریہہ تہ سیکستان، ۸۔ سریہہ تہ صحراو، ۹- ژھاے، ۱۰۔ تصویر، ۱۱- بہ در نہ تاپس شائع ہو چکے ہیں۔ رحیم رہبر کے افسانے انگریزی، عربی، فارسی، ہندی اور پنجابی زبانوں میں ترجمہ ہوچُکے ہیں۔ کشمیری زبان میں ان کا تنقیدی و تحقیقی کارنامہ "یمن لعلن مول کس زانے" نامی کتاب ہے۔ "زان" کے عنوان سے کشمیری زبان کی قواعد بھی لکھ چکے ہیں۔ رحیم رہبر نے بہ حثیت ترتیب کار مرحوم پریم ناتھ کول مستانہ کے کلام "شے ون" کو تین جلدوں میں ترتیب دیا ہے۔ اس کے علاوہ مرحوم شاعر محمد یوسف دلنواز کا کلام "زخمی جگر" کے عنوان سے شائع کر چکے ہیں۔کشمیری زبان میں ان کا پہلا ناول "وڈو" کے عنوان سے چھپا ہے۔ ٹی وی سریل نیلہ مئژ، احساس، امار بھی کافی مقبول ہو چکے ہیں۔ ریڈیو ڈرامے بھی کافی تعداد میں لکھ چکے ہیں جو وقتا فوقتا ریڈیو پر نشر ہوئے ہیں۔ رحیم رہبر نے بہ حیثیت مترجم بھی اپنی پہچان بنائی ہے۔ گلزار کی تصنیف "دھواں" کا ترجمہ کشمیری زبان میں”دہ" کے عنوان سے کر چکے ہیں۔ انھوں نے ساہتیہ اکادمی کی تجویز کے تحت یہ کام انجام دیا۔ ڈاکٹر شبنم عشائی کی تصنیف "من بانی" کا ترجمہ "من باوتھ" کے عنوان سے بھی کر چکے ہیں۔
اردو میں رحیم رہبر کے اب تک پانچ ناول ہرا گھاو، افروٹ کی دیوی، آخری کرتا بھی چاک ہوا، آنسو اور مُسکراہٹ اور قوس قزح شائع ہوچکے ہیں۔ ان ناولوں میں ان شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے جنھوں نے اپنے احساسات اور جذبات کو ارض وطن پر قربان کیا ہے۔ کشمیر خوب صورت بھی ہے اور جہنم بھی، اس خاصاں خدا کی وادی کے لوگ کیسی کس مپرسی اور بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جہالت و افلاس، مظلومیت اور بربریت، ابتر حالات اور واقعات کو اپنے محسوسات سمیت رحیم رہبر نے ان ناولوں میں مشاقی سے بیان کیا ہے۔
رحیم رہبر کا افسانوی مجموعہ "حصار" 2018 ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اگرچہ ان کے یہاں کثرت ہے لیکن معیار کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ان کے یہاں خالص علامتی اور ابہام سے پر افسانے بھی ہیں اور راست بیانیہ سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اسلوب منفرد اور واضح ہے جو ان کی شناخت بن گیا ہے۔ روایتی اسلوب سے پرہیز برت کر راست بیانیہ اور علامتی اظہار کی آمیزش سے نیا پیرایۂ اظہار اپنا کر اپنے افسانوں میں سماجی، اخلاقی، نفسیاتی کے ساتھ ساتھ باطنی زندگی کی بھی عکاسی کی ہے۔ ان کی بعض کہانیاں مبہم، مشکل اور پیچیدہ ہیں جن کو قاری کشمیر کے سیاق و سباق کے بغیر نہیں سمجھ پاتا۔ ان کی تخلیقات کو آسانی سے سمجھنے کے لیے کشمیر کے ماحول، فضا اور حالات و واقعات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ان کے یہاں حقیقی اور سچی صورت حال بیان ہوئی ہے۔ کوئی ادیب جب آس پاس ظلم ہوتا دیکھ رہا ہوتا ہے تو اس کو وہ قلم سے روکنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ استعماری قوتوں کے نشانے پر بھی رہتا ہے۔ اس روک سے ہی مزاحمتی ادب وجود میں آتا ہے۔ رحیم رہبر کشمیر کے مزاحتمی ادب کا اہم نام ہے۔
کشمیر میں ابتر حالات ہی نہیں ہیں بلکہ یہاں غربت اور افلاس نے بھی معاشرے کو زنجیروں میں جکڑ لیا ہے۔ ایک طرف نفیساتی پریشانیاں اور حادثات و واقعات دوسری طرف اجڑا پچڑا گلشن. رحیم رہبر نے بہ ذات خود ان حالات کا مشاہدہ کیا اور ان تمام صورت حال کا اظہار اپنے افسانوں میں کرکے اپنے عہد کا آئینہ بن گئے ہیں۔ ان کے یہاں لیلی مجنوں کے قصے نہیں بلکہ ابتر حالات اور زوال آمادہ معاشرے کی داستان ہے۔ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری اور رومانیت کا سنگم ہوتا ہے۔ دھندلی اور خیالی دنیا کے بجائے مشاہدے، گہرائی اور سادگی کے ساتھ سنجیدگی سے حقیقی دنیا کی جھلکیاں ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں روانی اور تسلسل کے ساتھ کہتے ہیں۔پوری زندگی جن مشاہدات اور تجربات سے واسطہ رہا ان کو ہی تحریری صورت میں پیش کرتے ہیں۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ رحیم رہبر نے کھلی آنکھوں سے اپنے معاشرے، حالات، تاریک راتیں، غمگین صبحیں، روتی آنکھیں، ادھ کھلی اور گم نام قبریں، گولیوں کا شور، دھماکوں کی گونج، سڑکوں پر سوکھا ہوا خون دیکھا ہے۔ ان تمام دیکھے ہوئے حالات کو پر تاثیر انداز میں صحفہ قرطاس پر درج کرتے ہیں۔
رحیم رہبر قاری کو خوابوں کے حصار میں نہیں رکھتے بلکہ حقیقت کے آسمان میں اڑان بھرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں رستے زخم، غمناک آنکھیں، پریشان حال مائیں، شیطان کے آلہ کار قاتل، خونی کھیل کھیلنے والے شاطر، وحشیانہ کرتوتوں کا مرتکب انسان، بے گناہوں کی چیخ و پکار، اضطراری کیفیات، اموات کا ننگا ناچ، راتوں کا ہولناک سناٹا، جنت نما دھرتی پر ہو رہی خون ریزی جیسے موضوعات عام فہم زبان میں بیان ہوئے ہیں۔ افسانوں کے موضوعات مختلف اور منفرد ہیں اور ہر افسانے کا رنگ جدا ہے۔ افسانوں میں رنگا رنگی کی بدولت انھوں نے زندگی کے ہر پہلو، ہر کروٹ، اتار چڑھاؤ اور ہر خیال کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے محبت کے بارے میں بھی لکھا ہے اور اس تاثر کے بارے میں بھی جو محبت سے پڑتا ہے۔ تخیلی اور رومان پرور زندگی میں جو رنگینیاں اور رعنائیاں ہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے اور سامراجی قوتوں کے ظلم و جبر اور سخت گیری کو بھی موضوع بنایا ہے۔
پروفیسر قدوس جاوید رحیم رہبر کی افسانہ نگاری کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ :
"فنی اعتبار سے رحیم رہبر اور ان کے معاصرین کے افسانوں میں کشمیر کے مخصوص ثقافتی، اساطیری اور مذہبی اقدار کے زیر سایہ رومانیت کی چاشنی اور ترقی پسندی کی حرارت تو ہے ہی ساتھ میں بیانیہ میں جدت پسندی کے باوجود مابعد جدید تصور ادب کے ساتھ مفاہمت ( affermation) کی جو پلکیں اور گھلاوٹیں ملتی ہیں ان کی بنا پر رحیم رہبر اور ان کے معاصرین افسانہ نگار کہیں مزاحمتی، کہیں طنزیہ اور کہیں احتجاجی لب و لہجے کے ساتھ کشمیر کے اردو افسانے کو ایک نئی شعریات کے روبرو کر رہے ہیں”۔
رحیم رہبر اپنے افسانوں میں کثرت سے انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا استمعال شدہ انگریزی لفظ جملوں میں پیوند کاری نہیں لگتا بلکہ زبان میں روانی پیدا کرتا ہے۔ بعض دفعہ تو پورے جملے انگریزی زبان کے لاتے ہیں۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ رحیم رہبر کسی حسینہ کی زلفوں کے اسیر ہیں۔ ان کے افسانوں میں کوئی نہ کوئی حسینہ ضرور وارد ہوتی ہے جس کا نقشہ وہ دل کش انداز میں کھینچتے ہیں۔ ان کے معروف افسانے "حصار" کی حسینہ کا حلیہ ملاحظہ فرمائیں:
"وہ خوب صورت حسینہ پھول جیسی شرمیلی، گول گول آنکھیں، ابرو کماں جیسی…..چاند جیسا چہرہ۔۔۔۔سنہرے بال ۔۔رسیلے گلابی ہونٹ۔"
اپنے مختصر افسانوں میں "ہابیل" کے قصے کو بھی دہرایا ہے اور "نمردو"کے دعوؤں کو بھی، "افلاطون" کا فلسفہ بھی ہے اور ماں کی "ممتا" بھی، یہاں "کرسمس کارڈ" بھی ہے اور "عبرت" بھی، لکیر، حصار، اڑان، ہائی وے اور گھاؤ بھی۔ کہانی ایک رات کی بھی ہے اور درد کا دریا بھی۔ کثرت کے باوجود ان کے یہاں یکسانیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
رحیم رہبر کی تخلیقات کشمیر کے اخبارات و رسائل کے علاوہ ملک کے معتبر رسائل و جرائد میں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں۔ آپ کو ادبی خدمات کے صلے میں مختلف اعزازات اور ایوارڈوں سے بھی نوازا گیا ہے جن میں صمد میر ایوارڈ، ہرموکھ ایوارڈ، عبدلاحد آزاد میموریل ایوارڈ، خلعت گلشن کلچرل فورم کشمیر ایوارڈ، آیکن ایوارڈ ( ICon Award 2020 )، سئینیر فلیو شپ ایوارڈ ( 2010) اور نیشنل ایوارڈ (2006) شامل ہیں۔
رحیم رہبر معیار کا خیال رکھ کر لگاتار لکھ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نایاب ہیرے کی قدر ہم سے نہ ہو سکی۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ کشمیر کے ناقدین جانب داری کا رویہ ترک کرکے رحیم رہبر کے فکروفن کو جانچیں تاکہ ان کی لکھی کتابوں کو وہ پذیرائی ملے جس کی وہ حقدار ہیں۔
گذشتہ کالم یہاں پڑھیں :شخصیت : علی شیدا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے