کورونا نامہ

کورونا نامہ

(کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں چند موضوعاتی نظمیں بہ صورت غزل)

(کیا کروں جا کے سناؤں کسے اپنی روداد
آکے نزدیک وہ پھر دور چلی جاتی ہے
وبائی ادب یا کرونائی ادب دنیا بھر میں ایک موضوع کے طور پہ متعین ہوگا. اس کے جمع و ذخیرہ کا عمل کہیں کہیں ہوا بھی ہے.
یہاں برقی اعظمی کی تیرہ نظمیں / غزلیں پیش ہیں. برقی اعظمی کو موضوعاتی شاعری کے لیے جانا جاتا ہے. یہاں پیش کردہ نظمیں غزل کی صورت میں ہیں.
ان تیرہ نظموں / غزلوں کو ایک تسلسل میں رکھ کر دیکھیں تو کورونا وبا کی پیدائش، سماجی، معاشی، انفرادی و اجتماعی زندگی پر اس کے اثرات، حکومت اور عوام کے رویے، ان کا دکھ درد، ادب، شاعری اور مشاعرہ، آف لائن سے آن لائن کی طرف ہجرت، درد و الم اور ہجر و کرب اور تنہائی کا بیان ملتا ہے. غزل ہو اور عشق کی بات نہ ہو تو بات بنتی نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ برقی اعظمی کی اس موضوعاتی شاعری میں عشق و عاشقی اور وصل و ہجر کا بھی ضمنی بیان شامل ہے. خدائے وحدہ لم یزل کی بارگاہ میں دعائیں اور انسانی رشتوں کو نبھانے کے لیے محبتیں بانٹنے کا پر سوز جذبہ بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے.
طیب فرقانی) 

ہوگئی ناقابل برداشت یہ کورونا کی مار
(کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں مناجات بہ درگاہ قاضی الحاجات)

احمد علی برقی اعظمی

ہوگئی ناقابل برداشت یہ کورونا کی مار
لوگ رخصت ہو رہے ہیں اب قطار اندر قطار
رحم فرما اپنے بندوں پر الٰہ العالمیں
ملتجی ہیں تیری رحمت کے سبھی پروردگار
لرزہ بر اندام ہیں اقوام عالم ہر طرف
موت کی ہر لحظہ خبریں مل رہی ہیں دل فگار
اس وبا سے تو ہی دے سکتا ہے ہم سب کو نجات
کر رہے ہیں سب ترے فضل و کرم کا انتظار
حشر سے پہلے ہی اک محشر بپا ہے ہر طرف
چل بسے اس سے نہ جانے کتنے فخر روزگار
آج مرگ ناگہاں سے ہیں سبھی وحشت زدہ
گلشن ہستی کی ہے جس سے خزاں دیدہ بہار
قبضہ قدرت سے باہر کچھ نہیں یارب ترے
سن لے برقی اعظمی کے قلب مضطر کی پکار

چین کو اپنا بنایا ایسا کورونا نے شکار
احمد علی برقی اعظمی

چین کو اپنا بنایا ایسا کورونا نے شکار
ہو گیا سارے جہاں میں جس سے برپا انتشار
اس کے شر سے مانگتا ہے ہر کس و ناکس پناہ
ابن آدم کے لئے ہے روح فرسا اس کا وار
ہے یہ مہلک وائرس سب کے لیے سوہان روح
گلشن ہستی کی ہے جس سے خزاں دیدہ بہار
گررہے ہیں اوندھے منھ دنیا میں شیئر مارکیٹ
ہو گئے برباد کتنوں کے نہ جانے کاروبار
لرزہ بر اندام ہیں سارے جہاں میں اس سے لوگ
ہیں مضر اثرات سے اس کے مسافر بے قرار
ہر ہوائی اڈے پر ہے افراتفری آج کل
جانے کب ماحول ہوگا پھر دوبارہ سازگار
درس عبرت ہے ہمارے واسطے فطرت سے جنگ
دامن نوع بشر ہے آج جس سے تار تار
خود بنا کر وائرس سے جوہری ہتھیار ہم
اپنی بداعمالیوں کی جھیلتے ہیں آج مار
آج تک اس کا نہ تھا برقی کوئی وہم و گماں
جان لے لیں گے کسی کی نزلہ کھانسی اور بخار

کررہا ہوں لاک ڈاؤن میں بسر
احمد علی برقی اعظمی

کررہا ہوں لاک ڈاؤن میں بسر
جیسے ہو اک قید خانہ میرا گھر
بند ہے کورونا سے سب کا ناطقہ
نالہ ہائے نیم شب ہیں بے اثر
ہے یہ کورونا ایک قدرت کا عذاب
اسپتالوں میں ہیں بے بس چارہ گر
آج ہر گھر کی یہی ہے داستاں
ہے امیرِ شہر جس سے بے خبر
لکھ رہا ہوں میں قلم برداشتہ
آج ہے جس حال میں نوع بشر
جن کا کوئی بھی نہیں پُرسان حال
ہیں سبھی مزدور سرگرمِ سفر
ہیں جو اہلِ خانداں سے اپنے دور
ہے پڑا کوئی اِدھر کوئی اُدھر
درہم و برہم ہے دنیا کا نظام
وائرس کے ہیں سبھی زیرِ اثر
کرب تنہائی سے اب عالم ہے یہ
کاٹنے کو دوڑتا ہے اپنا گھر
کھو چکا تاب و تواں مُرغِ خیال
مُضمحل ہیں جس کے برقی بال و پَر

کورونا میں وحشت زدگی کا عالم
احمد علی برقی اعظمی

خوں کے آنسو رو رہاہے دل یہ منظر دیکھ کر
رحم فرما ان کے حال زار پر پروردگار
کیا طریقہ ہے یہی تجہیز اور تکفین کا
یہ مناظر دیکھ کر ہیں میری آنکھیں اشکبار
سب ہیں کورونا وائرس کے وار سے وحشت زدہ
ایسے عالم میں نہیں کوئی کسی کا غم گسار
کررہے ہیں لوگ ملنے جلنے والوں سے گریز
قلب مضطر لاک ڈاؤن سے ہے سب کا بے قرار
کاٹنے کو دوڑتا ہو جیسے خود کو اپنا گھر
جانے کب ماحول ہوگا پھر دوبارہ سازگار
کیسے کیسے لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے
جائے عبرت ہے یہ برقی گردش لیل و نہار

غزل
کورونا کے تناظر میں
احمد علی برقی اعظمی

کرتا نہیں کسی سے کہیں کوئی پیار اب
سب کو ستا رہا ہے غمِ روزگار اب
ہر شخص ان دنوں ہے خزاں کا شکار اب
ناپید جیسے ہوگئی فصلِ بہار اب
خطرے میں حکمرانوں کا ہے اقتدار اب
سارے جہاں میں جس سے ہے اک خلفشار اب
کورونا نے سب کو حال سے بے حال کردیا
خواب و خیال جیسے ہو صبر و قرار اب
اوقات کیا ہے اپنی پتہ سب کو چل گیا
اک وائرس کی زد میں ہے سب کاروبار اب
دیکھے نہ اس کو مذہبی عینک سے میڈیا
کورونا بنا رہا ہے سبھی کو شکار اب
دنیا کا جس سے درہم و برہم نظام ہے
تعداد مرنے والوں کی ہے بے شمار اب
مسجد میں آکے گھر سے نہ رکھے کوئی قدم
اعلان ہو رہا ہے یہی بار بار اب
وحشت زدہ ہیں ہاتھ ملانے سے آج لوگ
کرتے تھے دل لگی جو وہ ہیں دل فگار اب
سر پر سوار جن کے تھا اب تک جنون شوق
کس پر کریں گے جان وہ اپنی نثار اب
تفریح گاہ کرتے تھے تفریح سب جہاں
سُنسان سب پڑے ہیں وہاں مرغزار اب
مِلتی نہیں نظر سے نظر اور دل سے دل
عشاق جیسے بیٹھے ہوں سب سوگوار اب
محصور سب ہیں اپنے ہی گھر کے حصار میں
کرتا نہیں کسی کا کوئی انتظار اب
دیتے ہیں سب یہ پُرسشِ احوال کا جواب
اپنے ہی گھر میں قید ہے یہ خاکسار اب
ہے صرف اپنی جان کی لاحق سبھی کو فکر
برقی نہیں کسی کا کوئی غم گسار اب

عالم گیر سطح پر کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں فی البدیہہ غزل مسلسل
احمد علی برقی اعظمی

شمعِ دل اپنی سرِ شام بجھی جاتی ہے
’’ اتنی ہیبت ہے کہ ہر سانس رُکی جاتی ہے ‘‘
لاک ڈاؤن سے ہے اب زندگی اپنی بوجھل
اب نہ مجھ سے یہ شبِ ہجر سہی جاتی ہے
کردیا کورونا نے آکر اسے درہم برہم
قصر دل کی تھی جو دیوار گِری جاتی ہے
شبِ تنہائی کا احساس نہ پوچھو اپنی
بات کوئی نہ کہی اور سُنی جاتی ہے
ذہن ماؤف ہے اور میرا قلم ہے ساکت
کوئی تحریر نہ ایسے میں لکھی جاتی ہے
ہے مرا سوزِ دروں میری غزل سے ظاہر
لکھ کے مجھ سے ہی نہ خود اب وہ پڑھی جاتی ہے
کیا کروں جا کے سناؤں کسے اپنی روداد
آکے نزدیک وہ پھر دور چلی جاتی ہے
گرمجوشی سے مِلا کرتے تھے مجھ سے جو کبھی
دیکھ کر اُن کی مجھے، سانس رُکی جاتی ہے
اب تو سب ہاتھ مِلاتے ہوئے کتراتے ہیں
کیونکہ ہربار ہتھیلی یہ دُھلی جاتی ہے
’’ ڈبلیو ایچ او ‘‘ ہے جہاں بھر میں محافظ سب کی
جس کی ہر ملک میں اب بات سُنی جاتی ہے
شرق اور غرب کی تفریق نہیں ہے کوئی
سب کی آواز میں آواز مِلی جاتی ہے
خوف کورونا کا ہے اب خوف خدا پر غالب
واعظوں سے بھی یہی بات سُنی جاتی ہے
پھر دکھائے نہ خدا ایسا بھیانک منظر
مُسکراتے ہوئے ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہے
اب سنبھالوں تو سنبھالوں اسے کیسے برقی
دل کی دنیا مرے برباد ہوئی جاتی ہے

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں ایک فی البدیہہ طرحی غزل
احمد علی برقی اعظمی

جو اپنا فرض ہے وہ بھی ادا کیے جائیں
تمام خلق خدا کا بھلا کئے جائیں
وبا کی شکل میں کورونا عذاب قدرت ہے
” دعاکے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں “
ہے اس سے بچنا تو آپس میں فاصلہ رکھیں
جو احتیاطی تدابیر ہیں کیے جائیں
کہا تھا آپ سے کس نے کہ لاک ڈاؤن میں
بغیر ماسک کے باہر یونہی چلے جائیں
جو مل رہے ہیں تو یونہی ملیں کف افسوس
جو اس کا دینا ہے تاوان وہ دیے جائیں
پلیس والے کسی کے سگے نہیں ہوتے
کیاہے آپ نے جیسا اسے بھرے جائیں
ہے ایک عالمی بحران یہ خدا کے لیے
جو سہہ رہے ہیں سبھی آپ بھی سہے جائیں
جو بات دل میں ہے وہ برملا بیان کریں
سنیں سنیں نہ سنیں حال دل کہے جائیں
وصال یار میسر نہیں تو صبر کریں
مزہ فراق کا بھی کچھ دنوں چکھے جائیں
نہیں ہے کوئی مصاحب تو ایک گوشے میں
خود اپنا چاک گریباں یونہی سیے جائیں
جو جان ہے تو جہاں ہے یہ اک حقیقت ہے
جو روکھی سوکھی ملے کھائیں اور پیے جائیں
ہے لاک ڈاؤن اگر تو الگ تھلگ رہ کر
جہاں ہیں جیسے ہیں برقی یونہی جیے جائیں

کورونا کی تباہ کاریوں کے تناظر میں منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی

شہر و دیہات و بستیاں خاموش
ہرطرف بند کھڑکیاں خاموش
ہے ہر اک گھر کی داستاں خاموش
بچے گُم صُم ہیں اور ماں خاموش
ہر طرف ایک ہو کا عالم ہے
رہ گذر میں ہے کارواں خاموش
جس کو دیکھو ہے آج مُہر بَلَب
بچے، بوڑھے ہوں یا جواں، خاموش
تھیں جو فطرت سے برسرِ پیکار
اِن دنوں ہیں وہ ہستیاں خاموش
ان کی آنکھوں میں تھی جو برقِ تپاں
ان دنوں ہیں وہ بجلیاں خاموش
خندہ زن تھی کبھی بہار پہ جو
ہے وہی آج کل خزاں خاموش
کررہے تھے زباں درازی جو
ہوگئے ہیں وہ ناگہاں خاموش
دیکھ کر حالِ زار گلشن کا
فرطِ غم سے ہے باغباں خاموش
شاخِ گُل پر پُھدَک رہی تھیں جو
ہیں وہ گلشن میں تِتلیاں خاموش
بس کسی کا کہیں نہیں چلتا
اب ہیں شہزور و ناتواں خاموش
بس اذاں ہی سنائی دیتی ہے
مسجدوں میں ہیں خطبہ خواں خاموش
لاک ڈاؤں میں آج کل برقی
جو جہاں ہے وہ ہے وہاں خاموش

موضوعاتی غزل مسلسل
احمد علی برقی اعظمی

مظلوم و بیکسوں پہ لُٹائیں محبتیں
تاکہ جہاں میں آپ بھی پائیں محبتیں
بہتر نہیں ہے اس سے کوئی اور نیک کام
حُسنِ عمل سے اپنے کمائیں محبتیں
ہیں چارہ گر تو چارہ گری میں کریں نہ بُخل
سب کے ہیں دردِ دل کی دوائیں محبتیں
پُرسان حال جن کا نہیں ہے کہیں کوئی
اُن کے لیے بھی اپنی بچائیں محبتیں
نادار و مفلسوں سے کریں اس طرح سلوک
بچوں سے جیسے کرتی ہیں مائیں محبتیں
جو مُستحق مدد کے ہیں اُن کی مدد کریں
تشہیر کے لیے نہ دکھائیں محبتیں
سامان ہیں سبھی کی یہ تسخیر قلب کا
دیتی نہیں کسی کو سزائیں محبتیں
سمجھیں نہ آپ رائیگاں اس کار خیر کو
’’ انمول ہیں جہاں میں دعائیں، محبتیں ‘‘
برقی اصول زندگی اس کو بنا کے آپ
ممکن ہے جتنا سب سے نبھائیں محبتیں

ہے کیسا وبا کے دنوں کا ادب
احمد علی برقی اعظمی

ہے کیسا وبا کے دنوں کا ادب
کہ جس میں مصیبت کے مارے ہیں سب
ہیں شاہ و گدا سب مصیبت زدہ
سبھی ہیں گرفتار رنج و تعب
وہ کورونا کے آگے ہے بے دست و پا
شہنشاہِ شاہاں تھا جس کا لقب
ہے شیرازۂ زندگی منتشر
سبھی لاک ڈاؤن میں ہیں جاں بلب
جنھیں رنگ رلیوں سے فرصت نہ تھی
نکلتے نہیں گھر سے وہ بے سبب
ہیں وحشت زدہ ان دنوں خاص و عام
سبھی بھول بیٹھے ہیں لہو و لَعَب
جہاں کو مٹانے پہ تھے جو تُلے
انھیں یاد آتا ہے ایسے میں رب
یہ اشعار رہ جائیں گے یادگار
جنھیں یاد رکھیں گے تاعمر سب
ہے برقی زمانے کی یہ شرحِ حال
ہے اب جس سے دوچار عصری ادب

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں منظر نامہ عہد حاضر بہ صورتِ غزل
احمد علی برقی اعظمی

لاک ڈاؤں میں ہر اک شخص ہے بیٹھا مرے دوست
حشر برپا ہے ہر اک سمت یہ کیسا مرے دوست
کس سے میں اپنا بیاں جاکے کروں سوز دروں
میں بھی ایسے میں بسر کرتا ہوں تنہا مرے دوست
آگئی موت اگر کورونا کے دوران تو پھر
نہ میسر مجھے ہوگا ترا کاندھا مرے دوست
ذہن ماؤف ہے اور میری زباں ہے ساکت
کیا بتاؤں تجھے اب دیکھا ہے کیا کیا مرے دوست
ہے یہ اک تلخ حقیقت تو فسانہ نہ سمجھ
تنہا جو آیا ہے، وہ جائے گا تنہا مرے دوست
ہاتھ بھی اب تو مِلاتے ہوئے سب ڈرتے ہیں
سَر میں بس جان بچانے کا ہے سودا مرے دوست
اقربا اور اعزہ بھی نہ آئے مرے کام
تھا فقط وہم و گماں میں نے جو سوچا مرے دوست
مجھ پہ جو جان چھڑکتے تھے زبانی برقی
اُن کا منظور نظر تھا، مرا پیسا مرے دوست

کر رہا ہے ہر کسی پر وار کورونا وائرس
احمد علی برقی اعظمی

باعث رنج و غم و آزار کورونا وائرس
کر رہا ہے ہر کسی پر وار کورونا وائرس
اسپتالوں میں ہیں بے بس اس کے آگے چارہ گر
کر رہا ہے سب کو اب بیمار کورونا وائرس
یا الہیٰ تو ہی دے سکتا ہے اب اس سے نجات
کر رہا ہے سب کو اب لاچار کورونا وائرس
اس وبا کا کب نہ جانے کون ہو جائے شکار
ڈس رہا ہے سب کو مثل مار کورونا وائرس
ان کو جن کی لاک ڈاؤن سے معیشت ہے تباہ
کررہا ہے مفلس و نادار کورونا وائرس
ہر کوئی وحشت زدہ ہے کوچہ و بازار میں
کر رہا ہے زندگی دشوار کورونا وائرس
لوگ رخصت ہو رہے ہیں اب قطار اندر قطار
چل رہا ہے وقت کی رفتار کورونا وائرس
ان دنوں ہوجائے جس کو نزلہ کھانسی اور بخار
سوچتا ہے کررہا ہے وار کورونا وائرس
لڑ رہے ہیں اک مسلسل جنگ جس سے ڈاکٹر
جانے کب مانے گا اپنی ہار کورونا وائرس
درہم و برہم ہے جس سے آج دنیا کا نظام
اب ہے وہ ناقابل اظہار کورونا وائرس
اس کی زد میں آگئے کتنے مشاہیر ادب
جیسے ہو اک دشمن فنکار کورونا وائرس
اس سے ہو جائے کسی کا جب گلہ خارش زدہ
چبھتا ہے ایسے ہو جیسے خار کورونا وائرس
اپنے شر سے دے دے اب نوعِ بشر کو یہ نجات
کاش سن لے میرے یہ اشعار کورونا وائرس
کشتیٔ عمرِ رواں منجدھار میں ہے ان دنوں
کردے راہ زندگی ہموار کورونا وائرس
بچ کے اس سے جائے تو جائے کوئی برقی کہاں
کر رہا ہے جان سے بیزار کورونا وائرس

کورونا کی تباہ کاریاں اور عالمی مشاعرے
احمد علی برقی اعظمی

جن کا بازار سخن پر تھا تسلط ان دنوں
کردیا کورونا نے یکسر بند ان کا کاروبار
لاک ڈاؤن میں گھروں میں اپنے وہ محصور ہیں
کررہے ہیں اپنے وہ اچھے دنوں کا انتظار
تھا اسی پر منحصر ان کا نظام زندگی
اقتصادی مندی یہ ان کے لیے ہے ناگوار
اس مصیبت میں نہیں ان کا کوئی پرسان حال
کب تک آخر یہ سہیں گے یونہی اس مندی کی مار
ہورہی ہیں روز برپا آنلاین محفلیں
بیشتر اب زوم پر ہے شاعروں کا انحصار
رکھ سکا خود پر نہ قابو ہو گئے یہ چند شعر
فیس بک پر دیکھ کر اک پوسٹ کو بے اختیار
جاتا تھا بحرین کوئی اور کوئی برقی قطر
جانے کب ان کے لیے ماحول ہوگا سازگار
برقی اعظمی کو جانیں :

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے