کتاب: خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر

کتاب: خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر ولی اللہ عبد السبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے، جس کے ہر شعر سے ان کی قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ اور ڈاکٹر عبد المنان طرزی کی مشہور و معروف منظوم ’’سیرت الرسول‘‘ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔
ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کے اڑتیس صفحات پر عرض خاص، قطعۂ تاریخ طبع اول، قطعۂ تاریخ طبع جدید، پیام مسرت، شجرۂ نبویہ، نسب نامہ خیر البریۃ، اسوۃختم الرسل، تشکر و امتنان اور مقدمہ خود شاعر کے قلم سے ہے، جن میں سے بعض نثر میں ہے اور بعض نظم میں، اس کے علاوہ پیشوائی ابو محمد ولی الزماں بن منتظر خان ناشر کی جانب سے ہے، جب کہ تاثرات مولانا عبد الخالق سنبھلی، مولانا ریاست علی بجنوری، مولانا محمد یوسف تاؤلی اساتذہ دار العلوم دیوبند، مولانا سید محمد راشد مظفر نگری مبلغ دار العلوم دیوبند، منظوم تقریظ جناب تاج الدین اشعر رام نگری کی ہے، جنھوں نے اشعار کے نوک و پلک درست کرنے کا کام کیا ہے، اصل کتاب صفحہ ۴۰ سے شروع ہوتی ہے، ایک سو سولہ پر مراجع کا ذکر ہے اور ۱۲۸ پر ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کو مختلف کلنڈروں سے نقشہ کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔
طبع جدید جو اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے، اس میں دو سو اشعار کے ساتھ عنوانات اور حوالہ جات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، مطابع الرشید مدینہ منورہ سعودی عرب سے طبع شدہ یہ کتاب کاغذ، رنگین طباعت وغیرہ کے اعتبار سے بھی ممتاز ہے، خوب صورت اور دیدہ زیب، ناشر نے پوری کوشش کی ہے کہ کتاب کی طباعت سیرت نبوی کے اعلا معیار اور سیرت کے موضوع کے شایان شان ہو۔
کتاب کا موضوع سیرت پاک ہے، اس مناسبت سے شاعر نے چھوٹی بحر میں زبر دست قادر الکلامی کا ثبوت دیا ہے، سیر و تاریخ کے لیے سب سے موزوں اور مناسب مثنوی والی ہیئت ہے، اس میں خاصی گنجائش رہتی ہے، لیکن مصنف نے اس کتاب کے لیے جس بحر کا انتخاب کیا ہے اس میں عموما شاعر کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے، اسے سیرت پاک کا معجزہ اور ولی عظیم آبادی کی کرامت کہیے کہ وہ اس پل صراط سے صحیح وسالم گزرے ہیں، اس گذارنے میں میرے ہم وطن شاعر معین احمد شائقؔ مظفر پوری بن ڈاکٹر آل حسن مرحوم، نعیم الرحمن نعیم جلالپوری اور تاج الدین اشعر رام نگری بنارس کا بڑا عمل دخل رہا ہے، شائق مظفر پوری کے انتقال کے بعد ان اشعار پر سب سے زیادہ اصلاح اور دقت نظر کے ساتھ ان کے نوک و پلک درست کرنے کا کام جناب تاج الدین اشعر نے کیا، تاج الدین اشعر اپنے نامور باپ مولانا امام الدین رام نگری کے نامور صاحب زادے اور نقیب کے سابق ایڈیٹر شاہد رام نگری کے بھائی ہیں. مشہور سخنور، صحافی، ادیب ہیں، نعت گوئی میں خصوصی ملکہ رکھتے ہیں، انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’درستگی کی پوری کوشش کے با وجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاح کاحق ادا نہ ہوا۔‘‘
چھوٹی بحر کی وجہ سے ولی عظیم آبادی نے بہت جگہوں پر اشاروں کنایوں میں بات رکھی ہے، اس لیے طویل نوٹ اور حاشیہ کی بھی ضرورت ہوئی، شاعر کے احساسات و خیالات پوری طرح قاری کی گرفت میں آجائیں اس خیال سے مفید اور مستند انداز میں انہوں نے اشعار کی توجیہہ اور تاریخ کی تشریح نثر میں کر دیی ہے، حاشیہ قیمتی ہے اور قاری تک اپنی بات پہنچانے کا بہتر ذریعہ بھی۔ مبہم تعبیرات اور اشارات کی وضاحت کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔ اشعار میں قافیہ بشر، جگر، نظر وغیرہ ہے، مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قافیہ خوب نکالا ہے، ردیف اللہ اللہ مکرر ہے، جو پڑھنے میں خاص لطف و کیف و سرور پید اکرتا ہے، پوری کتاب پڑھئے تو آپ دس سو باسٹھ مرتبہ اللہ اللہ کا ورد کر چکے ہوں گے، سیرت ختم الرسل کا مطالعہ اور اللہ اللہ کا ورد، فائدہ ہی فائدہ، لطف ہی لطف، ثواب ہی ثواب، کتاب کا پہلا عنوان وادی غیر ذی زرع میں آمد بہار ہے، چند اشعار دیکھئے:
زباں پر ہے شام وسحر اللہ اللہ
کروں ذکر خیر البشر اللہ اللہ

قلم کا ہے سجدے میں سر اللہ اللہ
کہ لکھتا ہے خیر السیر اللہ اللہ

خلیل خدا کا سفر اللہ اللہ
سوئے منزل معتبر اللہ اللہ

اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے:

صلوٰۃ وسلام آپ پر میرے آقا
مری سمت بھی اک نظر اللہ اللہ

ولی ہے تہی دست علم و عمل سے
لکھے کیا وہ خیر السیر اللہ اللہ
اشعار میں سلاست ہے، روانی ہے، بر جستگی ہے، تعقید لفظی اور معنوی سے خالی ہے، صاحب کتاب عرصہ دراز سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں، دامن کوہ احد آپ کا مستقر ہے، اس لیے مدینہ کی پر کیف فضاؤں نے تخیل میں پرواز اور رفعت پیدا کی ہے، داخلی طور پر مصنف کے محبت رسول نے کام کیا اور کتاب انتہائی اہم اور معیاری تیار ہو گئی۔ مولانا عبد الرحیم بستوی ؒ سابق استاذ دار العلوم دیوبند نے بجا لکھا ہے:
’’ولی صاحب عشق نبی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان کا شاہ کار قلم حب النبی کی روشنائی چوس کر اوراق پر رواں ہے اور سیرت کے موتی بکھیر تا ہوا آگے بڑھتا ہے‘‘ (۱۳) حضرت مولانا ریاست علی بجنوری نے لکھا ہے ’’زبان و جذبات یعنی الفاظ اور معانی دونوں کی خوبی قابل قدر ہے‘‘ (۱۵) حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی دامت برکاتہم نے لکھا ہے ’’ نام بھی ماشاء اللہ خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر یقینا اسم با مسمی ہے، آں عزیز نے وجدوکیف سے اس کی تالیف کی ہے، اس لیے اس کے پڑھنے کا خاص اثر ہوتا ہے (۱۲۲)
مختصر یہ کہ کتاب سیرت کے موضوع پر قابل قدر اضافہ ہے، اور اس لائق ہے کہ ہر مسلمان کے گھر میں رہے، بچے بوڑھے، عورت مرد سب اس کا مطالعہ کریں، کہیں پر کتاب کی قیمت /ہدیہ درج نہیں ہے، مجھے مفت ملی ہے، آپ کو بھی مفت مل سکتی ہے، کوشش کر دیکھئے، ملنے کا پتہ کتاب پر درج ہوتا تو میں آپ کو ضرور بتاتا۔
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :مرنے کی جلدی از مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے