آہ! محمدنظام الدین انصاری: یقین نہیں آتا کہ آپ کہیں اور چلے گئے!!!

آہ! محمدنظام الدین انصاری: یقین نہیں آتا کہ آپ کہیں اور چلے گئے!!!

[پہلی قسط] 

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

اب سے اکیاون برس پہلے آمنہ اردو ہائی اسکول، بتیا کی دوسری جماعت میں ١٩٧٠ء میں جب میرا داخلہ ہوا، اسی سال اسکول کے سب سے کم عمر کے استاد محمد نظام الدین انصاری کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ غالباً پانچویں کلاس میں کلاس ٹیچر تھے اور لووَر پرائمری میں کلاس نہیں لیتے تھے۔ سفید کرتا، پائجامہ اور ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں گہرے رنگ کے اوسط قد کاٹھی کے ایک بارعب استاد نظام الدین انصاری چلتے پھرتے نظر آتے۔ کبھی کسی اونچے درجے کے کلاس میں تاکتے جھانکتے، ان کی بورڈ پر لکھی خوب صورت ہندی تحریر نظر آجاتی۔ شام میں بازار کی طرف وہ اور نثار احمد دونوں استاد چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آتے۔ کبھی کھیل کے میدان بڑا رمنا میں بالکل کنارے سے دونوں ایک دوسرے کی پرچھائیں بنے ہوئے ٹہلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ دنیا و مافیھا سے الگ اور بے خبر ان دونوں کو اسی انہماک سے ٹہلتے ہوئے ہم دیکھتے رہتے۔ ہم فٹ بال کے میدان میں ہوتے اور ان کی چہل قدمی کا جلوہ دیکھتے رہتے۔ بیچ میں کبھی یہ خبر آئی کہ نظام الدین صاحب ٹریننگ کے لیے کہیں باہر گئے، اس بیچ ہندی کے ایک دوسرے جز وقتی استاد بھی آگئے اور کچھ دنوں کے لیے ہم اُن سے دور ہوگئے۔ تیسری جماعت پاس کرتے کرتے ہم ایک درجہ آگے بڑھ کر پانچویں میں پہنچے مگر تب تک اسکول کے نظام میں تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ ایک ڈیڑھ برس گزرتے گزرتے اسکول کا ہائی سیکشن دوسرے کیمپس میں منتقل ہوگیا اور نظام الدین انصاری بھی دوسرے اساتذہ کے ساتھ نئے کیمپس میں چلے گئے۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ پرائمری اور مڈل اسکول میں نظام الدین انصاری نے ہمیں باضابطہ طور پر پڑھایا یا نہیں، شاید دور کا ہی ان کا جلوہ رہا۔
١٩٧٥ء میں آٹھویں جماعت میں داخلے کے ساتھ ہم نئے کیمپس میں پہنچے مگر ہمیں تو سائنس اور حساب پڑھنا تھا۔ ہندی کا مضمون غیر ہندی داں کی حیثیت سے پڑھنا تھا۔ نظام الدین انصاری کو سنسکرت اور پیور ہندی پڑھانے کی ذمہ داری تھی، اس لیے آٹھویں جماعت میں وہ ہم سے پھر پھسل گئے۔ اس دوران ملک میں ایمرجنسی لگی۔ اس کے پہلے پولیس کی گولیوں سے شہر میں لوگ مارے جاچکے تھے اور کرفیو لگنے کے واقعات ہم نے دیکھ لیے تھے۔ ایمرجنسی میں حکومت کی طرف سے آج کے زمانے کی ہی طرح حکومت کے اقدام کی تعریف میں جلسے کرانے کی ذمہ داری دی گئی۔ اسکول میں ایمرجنسی کے فیضان پر تقریری تقریب منتخب ہوئی۔ ہمارا گھر کانگریسی تھا اور حکومتِ ہند کی طرف سے اس زمانے میں طرح طرح کے دستاویزات پہنچا دیے جاتے تھے۔ ہم نے انھی سرکاری کاغذات کی مدد سے اپنی تقریر تیار کرلی تھی۔ کچھ اور بچوں نے بھی اپنی باتیں پیش کیں۔ ہم نے ایمرجنسی کے فائدوں کے بارے میں اپنا بیان دیا۔ طلبا کی باری جب ختم ہوئی تو صفِ اساتذہ سے نظام الدین انصاری صاحب کھڑے ہوئے۔ وہی پختہ رنگ اور وہی دودھیا لباس۔ تقریر شروع ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ کوئی طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ دنیا میں ظالم حکمرانوں کی تاریخ بتاتے ہوئے وہ ان کے انجام کو بھی بتاتے جارہے تھے۔ ہٹلر، مسولینی، چرچل کی عوام دشمنی کی تفصیلات وہ کچھ اس طرح سے بتا رہے تھے کہ دس بارہ برس کے ہمارے ذہن پر ملک کی کانگریسی حکومت کی ناکامیاں اپنے آپ ظاہر ہورہی تھیں۔ دھیرے دھیرے اسٹیج پر سے کچھ دوسرے اساتذہ اور اسکول کے ہیڈ ماسٹرصاحب بھی خاموشی سے رخصت ہونے لگے۔ نظام الدین انصاری کی شعلہ بیانی جاری رہی۔ وہ جمہوری اقدار کی پامالی پر صرف ماتم نہیں کررہے تھے بلکہ ہمارے ذہنوں میں غیر کانگریسی سیاست کا وہ بیج بھی ڈال رہے تھے جو آگے چل کر ایک مستقل مقام تک پہنچا۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور دوسرے اساتذہ کو اس بات کی بھنک لگ گئی تھی کہ پولیس اسکول میں ریڈ کرے گی اور نظام الدین انصاری سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔
اس زمانے میں سی۔اے۔اے۔ اور یو۔اے۔پی۔اے۔ نہیں تھا مگر میسا کا قانون تھا۔ لالو یادو کی بڑی صاحب زادی میسا بھارتی کا نام اسی بدنام زمانہ قانون کی یادگار ہے۔ ایک گھنٹے سے زیادہ نظام الدین انصاری اسکول کے اساتذہ اور طلبا کے سامنے حکومت کی دھجیاں اڑاتے رہے۔ خدا کا فضل رہا کہ ان کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمرجنسی سے پہلے شہر میں کچھ جگہوں میں احتجاج کے طور پر جو جلسے اور دھرنے ہوا کرتے تھے، ان میں بھی وہ اپنے ضمیر کی آواز پر شریک ہوتے۔ ان کی وہ خوشی مجھے اب بھی یاد ہے جب ہم دسویں جماعت میں پہنچ چکے تھے اور جنتا پارٹی کی سرکار بن چکی تھی۔ اگلے روز وہ ہمارے کلاس میں آئے اور یونین کابینہ کی پوری فہرست ان کے محکموں کے ساتھ بورڈ پر لکھ کر ہمارے سامنے پیش کردیا۔ یہ ہندی زبان کے استاد کی جانب سے سیاست اور سماج کے لیے دیا جانے والا وہ درس تھا جو کبھی ہماری زندگی میں مدھم نہیں پڑا۔
نویں جماعت میں ہم پہنچے تو یہ ہمارے لیے سب سے خوشی کی بات تھی کیوں کہ نظام الدین صاحب ہمارے کلاس ٹیچر بن چکے تھے۔ شروع میں ہی انھوں نے بتا دیا کہ مہینے کی پندرہ اور تیس تاریخ کو فیس کلکشن ڈے میں ٹفن سے پہلے کے چار کلاس میں پڑھائی ہوگی اور سیکنڈ ہاف میں دفتری کام انجام پائیں گے۔ پورے سال انھوں نے ان دونوں تاریخوں میں ہندی قواعد کی اضافی کلاسیں لیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ لگاتار چار گھنٹیاں صرف اور صرف قواعد کے گاڑھے کام جب استاد مہینے میں دو بار انجام دے گا تو اس کا فیضان کیا کیا ہوسکتا ہے۔ ہم تمام طلبا میں چوں کہ اردو ذریعۂ تعلیم سے آراستہ ہورہے تھے، اس لیے فطری طور پر غیر ہندی داں کی حیثیت سے ہندی پڑھنے والے کی اغلاط اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ نویں جماعت میں نظام الدین انصاری نے چاک، ڈسٹر، چھڑی اپنی آواز اور ہماری کاپیوں پر لال روشنائی کی آمیزش سے وہ صورت پیدا کردی کہ اس وقت جو اسباق ذہن میں سمائے، وہ چھیالیس سال کے گزرنے کے بعد بھی ایک رتّی ادھر اُدھر نہ ہوا۔ قواعد کی باریکیاں، تحریر کی عمومی خامیاں اور ان کی اصلاح، الفاظ کے متبادل درجنوں الفاظ کی تلاش، ہلکے اور گاڑھے لفظوں کے استعمال کا شعور اور لفظوں کو کرید کر معنیٰ نکالنے کی مشق؛ اسی دور میں نظام الدین انصاری کی رہنمائی میں شروع ہوئی تھی۔ یہ ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات تھی کہ اسکول میں کلاس ٹیچروں کی ادلا بدلی میں دسویں کلاس میں نظام الدین انصاری پھر سے ہمارے کلاس ٹیچر ہوگئے۔ پھر چار گھنٹے کی قواعد کی تدریس اور زبان و بیان کی باریکیوں کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ پورے سال یہی چلتا رہا۔ ٹاسک دیا جاتا اور کاپی میں ہمارے لکھے لفظوں کی تصحیح کی جاتی۔ دھیرے دھیرے ہندی زبان میں پختہ شعور پیدا کرنے کی ہمارے استاد کی کوشش کامیاب ہونے لگی تھی۔
نظام الدین انصاری صرف صاف ستھرا لباس نہیں پہنتے تھے۔ بلیک بورڈ پر سفید چاک سے ان کے جیسا خوب صورت لکھنے والا آج تک مجھے کوئی استاد نہیں ملا۔ وہ لکھتے نہیں تھے، اس زمانے میں یہ محاورہ چلتا تھا کہ ہاتھوں سے چھاپ رہے ہیں۔ عنوان لکھنے کا انداز بورڈ کو الگ الگ حصے میں کالم کی طرح تقسیم کرنا، خاص نکات پر نشانات، رموزِ اوقاف کا شعور، انڈرلائن کرنا اور نہ جانے کتنے اعمال تھے جو وہ سیاہ تختے پر سفیدی سے روشن کرتے ہوئے چلتے تھے۔ بورڈ پر لکھی عبارتیں ہماری پیشانی اور ہمارے دماغ پر نقش ہوجاتیں۔ قواعد اس زمانے تک گھبراہٹ کی چیز تھی۔ عام طور پر اساتذہ اسے یاد کرنے کا ایک عمل مانتے تھے مگر نظام الدین انصاری نے قواعد کے اصول و ضوابط بتائے، ان کے پیچھے جو مقاصد متعین تھے، انھیں روشن کیا۔ زمانے کے چلن اور پرانے اور نئے کے بیچ جو امتیاز پیدا ہوا، اس پر بھی روشنی ڈالتے۔ املا کی اصلاح کے قائل تھے مگر تمام دقیانوسی اور روایتی اصولوں سے واقفیت کے بعد اس راستے کا سفر کرنے کی اجازت دیتے۔ مترادف الفاظ جنھیں ہندی میں پریائے واچی الفاظ کہتے ہیں، اسے بتاتے ہوئے دو لفظوں کے معنیٰ میں فرق اور استعمال کے امتیاز کو بھی روشن کرتے۔ قواعد کی تدریس میں اتنی مشقت تو ہمارے اردو کے کسی استاد نے بھی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ہندی کی قواعد اردو اور انگریزی کے مقابلے اب بھی زیادہ ازبر ہے۔
گیارہویں کلاس میں ہم طلبا نے اسکول انتظامیہ سے جھگڑا مول لیا۔ اسکول کے ایک بچے کو نکال دیا گیا تھا اور ہم نے اپنے دوستوں کی مدد سے تین دنوں تک اسکول میں اسٹرائک کرادی۔ مقامی ایم۔ایل۔اے۔ اور اسکول کے تمام اساتذہ ہمارے خلاف لگ گئے تھے۔ اس ماحول میں صرف ایک نظام الدین انصاری ہی تھے جو دن بھر اسکول میں ہم طلبا کے خلاف کیا منصوبہ بندی ہوئی، اس کی شام میں اطلاع دیتے تھے اور اس کی کاٹ کے لیے مشورہ دیتے تھے۔ خدا کا فضل رہا کہ اس میں طلبا کی جیت ہوئی اور اس میں نظام الدین انصاری سب سے زیادہ خوش اس وجہ سے تھے کہ ان کی حکمت اور ان کی تدبر نے طلبا کے مستقبل اور ان کی حمیت کی حفاظت کی۔ زندگی میں احتجاج اور اختلاف کا وہ پہلا باضابطہ سبق تھا جو ان کے جیسے استاد کی پردے کے پیچھے سے حوصلہ افزائی کے ساتھ استحکام پایا اور اب بھی زندگی کے ہر موڑ پر اس کا کہیں نہ کہیں اطلاق ہوتا رہتا ہے۔
گیارہویں جماعت کے اواخر میں انھوں نے مجھے گھر پر آنے کے لیے کہا اور بتایا کہ املا کی کچھ غلطیاں آپ کے یہاں ہیں، انھیں دور کرلینا چاہیے۔ اس زمانے تک ٹیوشن پڑھنا معیوب بات تھی، اس لیے میں ذرا ہچکچاہٹ میں مبتلا تھا مگر انھوں نے میرے والد سے بھی کہا اور پھر ہم ان کے گھر جانے لگے۔ شام میں وہ عام طور سے پندرہ سے بیس صفحات املا کراتے اور پھر ان کی سرخ روشنائی سے اصلاح کرتے تھے۔ میں رات میں واپس ہوکر اُن صفحات کو صاف کرلیتا پھر صبح میں اسکول کے وقت سے پہلے اسی طرح وہ دس پندرہ صفحات املا کراتے اور پھر ان کی اصلاح کردیتے۔ میں پھر انھیں صاف کرکے شام میں لے جاکر دکھاتا اور نئے سرے سے ڈکٹیشن لیتا۔ اس عمل میں زبان کی چھوٹی بڑی غلطیاں میری آنکھوں کے سامنے روشن ہوجاتیں اور انھیں میں درست کرنے کے راستے پر لگ جاتا۔ اس مرحلے میں ان کے موتی جیسے حروف کی نقل کی ایک مہم بھی شروع ہوئی، ویسی پختگی تو آنہیں سکتی تھی مگر نیک لوگوں کی راہ پر چلنے والوں پر بھی خدا کا انعام نازل ہوتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں فخر ہوتا ہے کہ اب بھی اپنے طور پر میں اردو، ہندی اور انگریزی کی تحریروں کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے اپنی ہندی کی ہی تحریر سب سے پسندیدہ معلوم ہوتی ہے۔ شاید اس میں یہ وجہ بھی شامل ہو کہ ان حرفوں کے پیچھے سے ہمارے استادِ محترم محمد نظام الدین انصاری کی شبیہہ بھی ابھر کر سامنے آتی ہو۔
ہندستان کی آزادی اور تقسیم کے سال چھپرا کے شیتل پور میں نظام الدین انصاری پیدا ہوئے۔ بیس برس کی عمر میں اردو ہائی اسکول، بتیا میں ہندی کے استاد ہوئے۔ پورے چالیس برسوں تک درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد اسی اسکول سے ٢٠٠٧ء میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ قدرت نے ہزاروں خاندانوں کے بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری سونپی تھی، اسے حد درجہ ایمان داری کے ساتھ انجام تک پہنچایا۔ ان کے سامنے جنھوں نے زانوئے ادب تہہ کیا، مختلف شعبہ ہائے حیات میں سینکڑوں اور ہزاروں نامور بنے مگر قدرت نے انھیں اولاد کی دولت سے مالامال نہیں کیا تھا۔ بعد میں اپنے بھائی کی اولاد کو ہی انھوں نے پوس پالک بنایا اور چھپرا سے اجڑ کر بتیا کے اُجّین ٹولا میں وہ نہ صرف یہ کہ آباد ہوئے بلکہ اسی محلے کے قبرستان میں آج ٢٥/نومبر ٢٠٢١ کو ہمیشہ کے لیے خلد آباد کا وسیلہ بنے۔ زندگی کو آغاز سے جس معیار پر رکھا، اسے آخر تک نبھایا۔ تعلیمی اور دفتری امور میں ان کے فیضان کا کون ہے جو اعتراف نہ کرے گا۔ اگر ہر ضلع میں ایسا ایک سنجیدہ اور باعلم استاد سرگرمِ کار ہو تو ہمارا تعلیمی نظام اپنے آپ مستحکم اور معیاری ہوجائے گا۔ [جاری] 

[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : غضنفرکی خودنوشت ’دیکھ لی دنیا ہم نے‘ : اجتماعی زندگی کاعجائب گھر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے