کہاں غزل کا وہ پاسباں ہے

کہاں غزل کا وہ پاسباں ہے

(نذر ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم) 

امان ذخیروی، ذخیرہ، جموئ، بہار
رابطہ : 8002260577

عظیم انساں، عظیم شاعر
کہ شہر اندور ہے جس پہ نازاں
اسی کی گلیوں
میں کھیل کر وہ
جواں ہوا تھا
ہر ایک بزم سخن میں
وہ گلفشاں ہوا تھا
سخن کا وہ آسمان بھی تھا
وہ راحت قلب و جان بھی تھا
کوئی بھی شعر و سخن کی محفل
بغیر اس کے رواں نہیں تھی
حسیں نہیں تھی، جواں نہیں تھی
وہ لہجۂ دل کشا کہاں ہے
کسی کی ایسی نوا کہاں ہے
وہ ہنستا اور مسکراتا لہجہ
وہ آئینۂ حق دکھاتا لہجہ
عجب کنایے عجب اشارے
زباں سے جھڑتے تھے ماہ پارے
کبھی سیاست کی گفتگو تھی
کبھی محبت کی جستجو تھی
کہ فکر اس کی
بمثل خوشبو
ہوا کے شانے پہ کو بہ کو تھی
نظر اٹھائی جو آسماں پر
تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے
ستارے محفل میں آ گریں گے
اور اس کی تابانیوں سے ہوں گے
دلوں کے ظلمت کدے منور
اٹھائے ہاتھوں کو اس نے ایسے
کہ جیسے عقل و خرد کے سارے
دریچے لمحوں میں کھول دے گا
مٹھاس جیون میں گھول دے گا
زبان کھولی تو سامعیں کا
بڑھا تجسس
کہ جانے اب وہ کیا بول دے گا
نہ جانے وہ کس کو ناپ دے گا
نہ جانے وہ کس کو تول دے گا
غزل کی زلفیں سنوارتا تھا
قلم سے اس کو نکھارتا تھا
کہ جیسے کوئی بڑا مصور
صباحت نو عروس، جھک کر
یوں کینوس پر بنا رہا ہو
اور اپنے فن کی نفاستوں پر
قلم کی میٹھی شرارتوں پر
عروس نو کی نگارشوں پر
نہاں بدن کی وضاحتوں پر
رگوں میں پیدا حرارتوں پر
اور اس سے اپنی قرابتوں پر
وہ مند مند مسکرا رہا ہو
مگر وہ دنیا میں اب کہاں ہے
کہاں غزل کا وہ پاسباں ہے
رواں ازل سے یہ سلسلہ ہے
وہ اپنے خالق سے جا ملا ہے
مگر وہ زندہ ہے جاوداں ہے
بمثل دریا رواں دواں ہے
ہر ایک انساں کے جسم و جاں میں
فضا میں، تاروں میں، کہکشاں میں
کہ سارے عالم کے گلستاں میں
عظیم راحت کے فن کی خوشبو بکھر گئی ہے
***
امان ذخیروی کی یہ تخلیق بھی پڑھ سکتے ہیں :بچوں کی حمدیہ رباعیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے