تعلیماتِ حضرت محی الدین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ

تعلیماتِ حضرت محی الدین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور

حضور پیرانِ پیر شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کی مبارک حیات طیبہ کے مختلف گوشے اہلِ اسلام کے لیے راہِ ہدایت ہیں۔ آپ کی پاکیزہ، مجاہدہ، عملی زندگی اور تحریک احیائے دین جو آپ کا مقصدِ حیات بھی تھی؛ پڑھنا، سننا طالبانِ راہِ حق کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ایمانیات، تصوف، اصلاحِ عقائد، بندگیِ رب العزت اور بندگانِ خدا کو راہِ راست پر لانا، اسلام کا پیرو بنانا، احیائے دین کرنا جس کی بنا پر حضرت شیخ محی الدین کا لقب بھی ملا۔ ہم آپ کے ملفوظات کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی تعلیمات مسلمانوں کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل اور دین و دنیا کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اگر آپ کی احیائے دین کی جدوجہد نمایاں نہ ہوتی اور اگر آپ کا یہ امتیازی وصف نہ ہوتا تو پھر یہ لقب بے معنی ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی مظلومیت نے آپ کو آتشِ زیرپا بنا دیا تھا اور آپ دین کو از سر نو زندہ کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف جہاد ہوگئے۔

آپ ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دیواریں پے در پے گر رہی ہیں اور اس کی بنیاد بکھر گئی ہے اس کو درست کردیں۔ یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوگی (سب کو مل کر کام کرنا چاہئے)۔ اے سورج اور اے چاند اور اے دن! تم سب آؤ۔ اس مختصر سے ملفوظ میں احیائے اسلام اور اقامت دین کے لیے کتنی تڑپ، کتنا سوز اور کتنا درد چھپا ہوا ہے۔ اس کو پڑھ کر قاری کا دل ہل جاتا ہے۔ پکارنے والا دین کی اقامت کے لیے پوری کائنات کو پکار رہا ہے۔ اس سے زیادہ پرزور اور عام دعوتِ دین دوسری کیا ہوگی۔ احیائے اسلام اور اقامت دین کی جد و جہد کے لیے اجتماعیت کا کتنا شدید احساس ہے۔ آپ ایک دوسرے ملفوظ میں ارشاد فرماتے ہیں: صاحبو! اسلام رو رہا ہے اور ان فاسقوں، بدعتیوں، گمراہوں اور مکر کے کپڑے پہننے والوں اور ایسی باتوں کا دعویٰ کرنے والوں کے ظلم سے جو ان میں نہیں ہیں، اپنے سر کو تھامے ہوئے فریاد مچا رہے ہیں۔

دین بر حق کی خدمت پر اللہ کا اجر:
حضرت قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے دین بر حق کی خدمت اور تبلیغ و اشاعت صدق و خلوص کے ساتھ کی اللہ خود اس کا اجر و ثواب بن جاتا ہے اور دنیا و عقبیٰ میں اسے عزت و آبرو عطا فرماتا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے یا ایھا الذین آمنو ان تنصرو اللہ ینصر کم و یثبت اقدامکم۔(القرآن، سورہ محمد، آیت 6) ترجمہ: اے ایمان والو، تم دین خدا کی مدد کروگے اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جمادے گا۔(کنزالایمان) اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعہ ہی کراتا ہے۔ یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ و دعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے۔ یعنی انھیں کافروں پر فتح و غلبہ عطا کرتا ہے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے۔ وہ دین کے ہوگئے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا۔ انھوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انھیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر رب نے فرمایا: وینصرن اللہ من ینصرہ۔(القرآن، سورہ حج، آیت 22) ترجمہ: اللہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔ جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا ہے۔ تم اللہ کی مدد کرو (یعنی اس کے دین کی نشر و اشاعت کرو) وہ تمھیں صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا اور تمھاری ہر طرح کی مدد فرمائے گا۔ پس میں تمھیں تاکید کرتا ہوں کہ اللہ کے کلام کی تبلیغ و اشاعت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور تسلیم و رضا کو اپنا شعار بناؤ۔ جو مسلمان اللہ کے کلام اور اس کے نبی کی سنت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے اس کا اجر و ثواب فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں سے بھی زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و اعانت ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہتی ہے۔ (فتوح الغیب، مقالہ نمبر 38، صفحہ 106)

سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ اگر حدودِ الٰہی میں (احکامِ شرعی) میں سے کوئی حد ٹوٹتی ہے تو سمجھ لو کہ تم فتنے میں پڑگئے اور شیطان تم سے کھیل رہا ہے۔ فوراً شریعت کی طرف رجوع کرو۔ اسے تھام لو۔ نفس کی خواہشات کو جواب دو۔ اس لیے کہ ہر وہ حقیقت جس کی شریعت تائید نہیں کرتی، باطل ہے۔ حضرت محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی ساری زندگی خلق خدا کا رشتہ خالق سے جوڑنے میں گزری۔ انھوں نے اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لگایا۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ایک بڑی عظیم روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے کنارے بھر گئے۔ اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی اور اس نے مجھ سے خطاب کرکے کہا: اے عبد القادر، میں تیرا رب ہوں، میں نے تیرے لیے سب محرمات(حرام) حلال کردیے ہیں۔ میں نے کہا: دور ہو مردود۔ یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت سے بدل گئی اور صورت دھواں بن گئی اور ایک آواز آئی عبد القادر، خدانے تمھارے علم و تفقہ کی وجہ سے بچا لیا ورنہ اس طرح میں ستر صوفیوں کو گمراہ کر چکا ہوں۔ میں نے کہا: اللہ کی مہربانی سے۔ کسی نے عرض کیا حضرت، آپ کیسے سمجھے کہ یہ شیطان ہے۔ کہا، اس کے کہنے سے کہ میں نے حرام چیزوں کو تمہارے لیے حلال کر دیا۔

ایمان کی بنیاد عقیدہ توحید کو مضبوط کرتی ہے:
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے ایک مجلس میں توحید کے مضمون کو اس طرح واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا: ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی تجھے نفع پہنچا سکتاہے نہ نقصان۔ جو کچھ تیرے لیے مفید ہے یا مضر اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے۔ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ جو نیکو کار ہیں وہ باقی مخلوق پر اللہ کی حجت نہیں۔ بعض ان میں ایسے ہیں جو ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے دنیا سے دور ہیں گو دولت مند ہیں مگر حق تعالیٰ ان کے اندر دنیا کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ یہی قلوب ہیں جو صاف ہیں۔ جو شخص اس پر قادر ہو اسے مخلوقات کی بادشاہی مل گئی۔ جو اپنے قلب کو مقلب القلوب سے وابستہ کرتا ہے شریعت اس کے ظاہر کو تہذیب سکھاتی اور توحید و معرفت باطن کو مہذب بناتی ہے۔

مشیت الہٰی کے خلاف شکایت مت کر:
محبوب سبحانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ہم تجھے تاکید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو امور تیرے لیے ظاہر ہوں ان کے خلاف کسی کے سامنے شکایت نہ کر اور اللہ تعالیٰ نے جیسا اور جو سلوک تجھ سے کیا ہو اس فعل کے باعث مخلوقات میں اسے مہتم نہ کر ( تہمت نہ لگا)۔ اگر کسی دور میں تو مبتلائے مصائب و آلام رہا ہو تو یہ تجھے سمجھنا چاہئے کہ مصیبت کے بعد راحت و آرام ہے اور غم و الم کے بعد مسرت و شادمانی بھی اللہ کی طرف سے موعود ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنے کلام مقدس میں فرمایا: بلاشبہ مصیبت کے بعد راحت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بہت وسیع و بسیط ہیں۔ اتنی بسیط کہ بندہ انھیں شمار نہیں کر سکتا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو انھیں ہرگز شمارنہ کر سکو گے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں نوع انسانی کے لیے مقدر ہیں کہ تو ان کا احاطہ بھی نہیں کر سکتا تو اس فیاضی اور رحمت و بخشش سے ہرگز مایوس نہ ہو۔ خالق کے علاوہ مخلوق سے باطنی ربط و تعلق نہ رکھ۔ تیری محبت ہو تو پھر اسی سے ہو عرض حاجت ہو تو اسی کے حضور ہو اور کسی قسم کا شکوہ و شکایت نہ ہو کیونکہ دنیا میں جتنے اور جس نوعیت کے بھی عوامل اور واقعات ہیں وہ سب اس کے اذن اور حکم سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ پس احوالِ تقدیر پر شکوہ شکایت نہ کر اور مشیت ایزدی کے خلاف واویلا چھوڑ دے کیونکہ مختلف مصائب میں کتنے مصائب ہیں جو انسان پر اپنے پر وردگار کی شکایت کے باعث نازل ہوتے ہیں۔ شیخ جیلانی فرماتے ہیں: میں حیران ہوں کہ تو ایسے پروردگار کی شکایت کس طرح سے کرتا ہے جو ارحم الراحمین ہے، خیر الحاکمین ہے، فیاض و مہربان ہے، بندوں پر رحمت و بخشش فرمانے والا ہے اور ان پر والدین سے زیادہ شفقت و کرم کرنے والا ہے۔ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنا کہ والدین اپنی اولاد پر ہوتے ہیں۔ پس تم بھی اللہ کا ادب و احترام اختیار کرتے ہوئے زندگی میں جو مصائب در پیش آئیں ان پر صبر و تحمل کرتے ہوئے اللہ سے عفو و کرم کے خواستگار رہو کیونکہ توبہ اور طلب عفو پر معاف کر دینا اور مشکلات رفع فرمانا اس کا دستورہے۔ (فتوح الغیب، مقالہ نمبر 18، ناز پبلشنگ ہاؤس، دہلی)

ایمان کو مضبوط کرنا احیائے دین کا حصہ:
حضرت پیرانِ پیر قطب ربانی نے ارشاد فرمایا: اگر تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگے تو سمجھ لے کہ تیرا یقین و ایمان بہت کمزور ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شرطِ اطاعت کے ساتھ مومن سے جو وعدہ کر رکھے ہیں ان کی خلاف ورزی وہ ہرگز نہیں کرتا اور جب تیرے دل میں یقین و ایمان محکم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ تجھے یوں خطاب فرمائے گا: آج کے دن تو ہمارا محبوب و مقرب ہے اور ہماری رحمتیں تیرا استقبال کرتی رہیں گی۔ یہ خطاب تجھ سے بار بار ہوگا اور پھر تو خدا کے برگزیدہ بندوں میں سے ہوجائے گا اور درجہِ ایمان پر تیرا کوئی ارادہ و مطلب باقی نہ رہے گا اور تو ارادۂ الہٰی کی موافقت ہی میں روحانی سرور محسوس کرے گا۔ اب تو اللہ کے سوا تمام دیگر چیزوں سے بے رغبت اور بے نیاز ہوگیا اور شرک کی تمام آلائشوں سے محفوظ۔ اب تجھے اللہ کی طرف سے رتبہ تسلیم و رضا عطا ہوگا اور اس کی حمایت و خوشنودی کا تجھ سے وعدہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی نعمتیں تیرے لیے بسیط ہوجائیں گی اور تیرے کلام کو معمور حکمت کیا جائے گا۔ پھر تجھے دنیا و عقبیٰ میں جن و انس تمام مخلوقات میں محبوب و محترم بنایا جائے گا کیونکہ اللہ کی اتباع سے تونے مخلوق کو مطیع کر لیا ہے۔ اللہ کی محبت مخلوق کی محبت کی ضامن ہے اور اس کا قہر مخلوق میں بغض پیداکرتا ہے۔ پھر دنیا میں تو نے جن چیزوں کی خواہش کی ہوگی اور تجھے نہ ملی ہوں تو ان کا عمدہ سے عمدہ معاوضہ تجھے آخرت میں دیا جائے گا۔ تجھے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا اور جنت الماویٰ کی تمام برگزیدہ نعمتیں تجھے عطا کی جائیں گی۔ اگر تو نے دنیائے فانی میں رہتے ہوئے نفس کی لذت و شہوات سے اجتناب کیا اور خالصتاً اپنے معبود بر حق ہی کو اپنا قبلہِ مقصود بنایا تو اس جذبہِ توحید کی برکت سے تجھے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اپنی جائز حلال نعمتوں سے وسعت کے ساتھ فیض یاب فرمائے گا اور عقبیٰ میں تجھے موحدین و صالحین کے ساتھ بلند درجات عطا فرمائے گا۔

راہِ اعتدال تبلیغ دین کا حصہ:
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے اقوال اور ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے اسلام کی اعتدال کی راہ کو اپنایا اور بندگانِ خدا کو اس کی تعلیم دی۔ دولت، انسانی، اعمال کی بہتری، خدمت خلق، ایثار قربانی اور رضائے الٰہی کے حصول میں معاون بھی رہتی ہے پھر حکماء کے بقول یہی دولت انسان کی کمزوری اور بے راہ روی، ظلم و زیادتی کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس اور نازک پہلو ہے جس کی وجہ سے اسلام نے اعتدال پر زور دیا ہے تاکہ کوئی بشر کسی بشر کا حق چھین نہ سکے۔

دراصل معاملات کی درستگی قانون عدل کے بغیر مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ جب تک عدل و انصاف کا نظام قائم نہ ہو، معاشی زندگی میں حقوق پامال ہوتے رہتے ہیں۔ خوفِ خدا اور احتسابِ نفس اس نظام کی بنیاد ہے۔ جس کے اندر خوفِ خدا اور احتسابِ نفس نہ ہو تو وہ انسان نہ تو اپنی زندگی کے ساتھ انصاف کر سکے گا اور نہ ہی مخلوق کو انصاف دے سکے گا۔ آپ سیدنا شیخ بے پناہ خدا کا خوف رکھتے تھے۔ خلفا اور حکام کو ہمیشہ تنبیہ کرتے رہتے اور ان کے منصفانہ طرز عمل اور ظالم حکمرانوں کو تنقید فرماتے تھے۔ آپ صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ ضرورت سمجھتے تو بڑی صاف گوئی اور جرأت کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے۔ حکام و سلاطین و خلیفۂ وقت پر تنقید اور ان کے غلط فیصلوں کی مذمت بھی کرتے اور اس کے بارے میں کسی کی وجاہت اور اثر کی مطلق پرواہ نہ کرتے۔ حافظ عمادالدین بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: آپ خلفا، وزرا، سلاطین کو بڑی صاف گوئی اور بے باکی و جرأت کے ساتھ ان کو بھرے مجمع میں بر سر منبر ٹوک دیتے۔ جو کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت والے کی آپ کو پرواہ نہ ہوتی تھی۔

محبوب سبحانی کے ارشادات و نصیحتیں:
(1)اللہ تعالیٰ کے اسمِ مبارک کی قسم نہ کھاؤ۔ اس میں احتیاط رکھو کہ تمھاری زبان سے خدا کی قسم کا لفظ نہ نکلے۔ اس عادت کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انوار کا ایک دروازہ اس کے قلب پر کھول دیا جاتاہے، اسے رخصت پایہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کے عزم و ارادہ میں قوت و استحکام پیدا ہوتا ہے۔(2) جھوٹ سے بچو بلکہ ہنسی مذاق میں جھوٹ نہ بولو۔ یہ عادت صادقہ اختیار کرنے پر اللہ تبارک و تعالیٰ شرح صدر فرمائے گا۔ اور علم صافی عطا فرمائے گا۔ (3) ایفائے عہد کرو تاکہ سخا و حیا کے مراتب تم پر آشکارا ہوسکیں۔ (4) مخلوق الہٰی کے لیے لعنت کالفظ استعمال نہ کرو۔ ابرار و صادقین کے اخلاق کا یہی طریقہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفظ آبرو فرماتا ہے اور نقصان خلق سے مامون کر دیتاہے۔ (5) کسی کے لیے بد دعانہ کرو بلکہ صبر کے ساتھ زور و ستم برداشت کیا کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مخلوق میں اسے محبت و قبولیت عامہ منصب عطا ہوتا ہے۔ (6) اہلِ قبلہ میں سے کسی ایک کے مشرک، کافر، منافق ہونے کی بشارت قطعی نہ دو۔ اتباعِ سنت نبوی یہی ہے۔ اور اس بات سے انسان علمِ الہٰی میں مداخلت کرنے سے بچ سکتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کو رحمت عامہ کے فیضان سے کثیر حصہ مل جاتا ہے۔ (7) گناہ ظاہری یا باطنی ہوں ان سے خود کو بالکل قطع نظر کر ڈالو اور اپنے جوارح کو بھی بچاؤ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قلب و جوارح کو اس کا اثر جلد معلوم ہوجائے گا۔ (8) اپنی معیشت و روزی کا بوجھ مخلوق پر نہ ڈالو۔ اس عادت سعید سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت خوش اسلوبی سے ادا ہوسکتی ہے اور اس میں کمال عزت ہے۔ اس سے یقین اور اعتماد علی اللہ کی صفات کی تکمیل ہوتی ہے۔ (9) ابنِ آدم سے ذرہ بھر بھی لالچ نہ رکھ۔ عزت، بزرگی، غنا، خالص نقش شافی تو شاق، اس خصلت میں ہے اور زہد کا اصول اسی بات پر منحصر ہے۔(10) تواضع اور مدارات کو اپنی عادت بناؤ۔ اس عادت میں جملہ طاعت شامل ہوجاتی ہیں۔ اس میں علو مرتبت ہے، یہی کمالِ تقویٰ ہے اور اس عادت سے صالحین تک رسائی ہے۔ آپ نے فرمایا: اپنے احوال کی شکایت کسی دوست نہ کسی قرابت دار سے اور نہ کسی دوسرے سے کیا کرو۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی شکایت کرنا ہے۔ کسی مخلوق پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرو اور نہ کسی سے کچھ سوال کرو اور نہ کسی کو دل کی حالت بتلاؤ۔

آپ کالقب محی الدین:
حضرت عمر کیانی و شیخ عمر بزار سے نقل ہے کہ انھوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے لقب محی الدین کا کیا باعث ہے؟ تو آپ نے فرمایا: دین اسلام بوڑھا، کمزور ہوگیا تھا اس کو توانا کیا محی الدین ہوا.

آپ نے خاصانِ خدا کو مخاطب کرکے فرمایا: انتباہ کرنا سیکھو۔ بدعت کے کام نہ نکالو، اطاعت کرو الگ راہ نہ اختیارکرو۔ گناہ سے آلودہ نہ ہوا کرو بلکہ ان سے پاک رہا کرو۔ اپنے مالکِ حقیقی کے آستانہ پر جمے رہو۔ صبر اختیار کرو بے صبر نہ ہو، ثابت قدم رہو، تفرقہ سے بچو، رحمتِ الہٰی سے مایوس نہ ہوا کرو۔ ذکر الٰہی کرنے کے لیے اکٹھے ہو جایاکرو۔
آپ کے پند و نصائح بے شمار ہیں۔

طوفانِ نوح لانے سے اے چشم کیافائدہ
دو اشک ہی کافی ہیں اگرکچھ اثر کریں

حدیثِ نبوی ہے: (ترجمہ) حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرے کیونکہ وہی اس کا بہترین مستحق ہے۔ اللہ ہمیں نیک باتوں پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین.
***
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب وامام مسجدہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا کی وایا مانگو جمشیدپور، پن 831020 جھاڑ کھنڈ
رابطہ:09386379632
یہ بھی پڑھیں:کلچرل قونصلر اسلامی جمہوری ایران، نئی دہلی سے حافظ محمد ہاشم قادری کی ملاقات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے