شخصیت : ڈاکٹر محمد شفیع ایاز

شخصیت : ڈاکٹر محمد شفیع ایاز

کالم نگار : ایس معشوق احمد

ناطق گلاٹھی کا شعر ہے کہ:
کر مرتب کچھ نئے انداز سے اپنا بیاں
مرنے والے زندگی چاہے تو افسانے میں آ

یہ حقیقت ہے کہ جو اپنا انداز بیان منفرد رکھے گا، نئے انداز سے کچھ نیا کہنے کی کوشش کرے گا، اسی کا افسانہ غور سے سنا جائے گا اور ادب عالیہ میں اپنی جگہ بنا پائے گا۔ ہر ذی روح کو مرنا ہے۔ دنیا اسی کو یاد رکھتی ہے جس نے کوئی منفرد کارنامہ انجام دیا ہو، چاہیے وہ کسی بھی میدان میں ہو۔ ادبی دنیا میں بھی کچھ ادبا اور شعرا مرنے کے بعد بھی با حیات رہتے ہیں۔ انھیں ان کی منفرد فکر اور انداز بیان زندہ رکھتا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایسے ادبا اور شعرا کی اچھی خاصی تعداد ہے جو منفرد انداز اپنا کر بہترین تخلیقات سامنے لاتے ہیں۔ ایک صنف ان کے اظہار کے لیے ناکافی ہوتی ہے اور وہ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنے اندر کے تخلیق کار کو خاموش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان منفرد کہنے والوں اور مختلف اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھانے والوں میں ایک معروف نام ڈاکٹر محمد شفیع ایاز کا ہے۔
ڈاکٹر محمد شفیع بٹ کی پیدائش 1960ء میں اننت ناگ کے محلہ سید صاحب کاڈی پورہ میں غلام نبی بٹ کے گھر میں ہوئی۔ بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا اور اس شوق کو جلا ڈگری کالج اننت ناگ میں ملی۔ پہلی تحریر 1978ء میں اسی کالج کے میگزین ویری ناگ میں ” جہیز" کے عنوان سے چھپی۔ 1979ء میں کالج میگزین ویری ناگ کے انگریزی اور اردو دونوں گوشوں کے مدیر رہے۔1982ء سے باقاعدہ اخبارات و رسائل میں چھپنے لگے اور ریڈیو کشمیر سرینگر اور یووانی کے پروگراموں میں شرکت کرنے لگے۔ ایاز تخلص پروفیسر دوارکا ناتھ درانی صدر شعبہ اردو ڈگری کالج اننت ناگ کے کہنے پر اختیار کیا۔ ڈاکٹر ایاز نے سائنسی مضامین میں گریجویش کے بعد ایم بی اے کیا اور شعبہ منیجمنٹ میں تحقیقی کام کرنے کے بعد بینک میں ملازم ہوئے۔ بینک میں بہ حثیت ڈائرکٹر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سبک دوش ہوئے۔
ڈاکٹر محمد شفیع ایاز قارئین کو اپنے مشاہدات میں شریک کرنے کے لیے افسانے لکھتے ہیں، اپنے سماج اور معاشرے کی عکس بندی کرنے کے لیے انشائیہ کے میدان میں اپنے تخیل کے اسپ دوڑاتے ہیں، جذبات کے دریا میں جب غوطہ زن ہوتے ہیں، ابھر کر آتے ہیں تو غزل لکھ لیتے ہیں۔ تنہائی میں جب اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کرنے بیٹھتے ہیں تو حمد لکھتے ہیں اور جب عشق رسول میں سرشار ہوکر قلم اٹھاتے ہیں تو نعت لکھتے ہیں۔ تین زبانوں انگریزی، اردو اور کشمیری پر دست رس رکھتے ہیں اور تینوں زبان میں کتابیں چھپ چکی ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کی کتاب اسلامک بیکنگ ( islamic banking) 2009ء میں چھپ چکی ہے۔ اردو میں ڈاکٹر صاحب کا پہلا افسانوی مجموعہ ” درد پنہاں" کے عنوان سے 1999ء میں چھپا ہے۔ اس کے بعد تین اور افسانوی مجموعے پگڈنڈی کا مسافر (2011)ء، فیصلہ ابھی باقی ہے ( 2016)ء اور آدھے ادھورے لوگ 2020ء میں شائع ہوچکے ہیں۔
ادیب حساس ہوتا ہے اور اپنے وقت کے سماجی، سیاسی، تہذیبی، معاشرتی مسائل سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ایاز زندگی اور مسائل زندگی کا قریبی مشاہدہ رکھتے ہیں اور اپنے معاشرہ کو گہری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صرف کرب انگیز حالات کو ہی اپنے افسانوں کا موضوع نہیں بناتے بلکہ گردونواح میں رہنے والے اشخاص کی زندگی میں جھانک کر ان کے شب و روز کو بھی قرطاس کے حوالے کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ڈاکٹر ایاز نے بہترین افسانے تخلیق کئے جن میں افسانے کے لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے وہیں دوسری طرف ان کے کچھ افسانوں میں افسانے کے اجزا نہیں بلکہ خاکے کے لوازمات دیکھنے کو ملتے ہیں کیونکہ ان افسانوں میں شخصیت کے نقوش اجاگر ہوئے ہیں اور ان کو پڑھ کر قاری مرکزی کردار کے حلیے، عادات و اطوار اور شب و روز سے واقف ہوتا ہے۔ ان کا معروف افسانہ "ڈکسن" مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ چالیس سال کا عزیز ڈکسن کے نام سے مشہور تھا کیونکہ ڈکسن نامی انگریزی کا نوکر پندرہ روز تک رہ چکا تھا۔ جب بات کرتا تھا تو ڈکسن صاحب کا ذکر ضرور کرتا تھاجس سے لوگوں میں ڈکسن کے نام سے مشہور ہوا۔ جاتے وقت ڈکسن نے عزیز کو اچھی خاصی رقم دی تھی جس سے اس نے ایک ریڑی خریدی جس کو وہ گاڑی کہتا تھا۔ ڈکسن(عزیز) لالچ، خودغرضی اور عداوت جیسے عیوب سے پاک تھا۔ سردیوں کے موسم میں برف باری بہت ہوئی اور سفیدے کا درخت ڈکسن کی گاڑی پر گرا جس سے وہ ٹوٹ گئی۔یہ صدمہ ڈکسن برداشت نہ کرسکا اور خود بھی چل بسا۔ راستے میں پھسلن کی وجہ سے ڈکسن کا تابوت ریڑی پر قبرستان تک پہنچایا گیا۔ مجھے یہ افسانہ نہیں بلکہ ڈکسن کا خاکہ لگا۔ یہی بات ” رامو" کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ وہ بھی اسی طرح افسانہ نہیں بلکہ رامو کا خاکہ ہے۔
ڈاکٹر ایاز کے اردو میں پانچ شعری مجموعے تلاش سحر (2010)ء، شب تنہائی ( 2012)ء، تم یاد کرو گے (2013)ء، شام ہونے لگی ( 2014)ء اور برستے ہی نہیں بادل (2016 ) منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان شعری مجموعوں کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان کی شاعری آپ بیتی کو جگہ بیتی بنانے کی سعی ہےجس میں چوٹ کھائے دل کے نالے، آزمائشوں اور مصبتوں پر صبر کا پیغام، بیتے لمحوں کی خوشگوار یادوں کا ذکر، سکون کی جستجو، وفا کے بدلے وفا کی آرزو، محبوب کا روٹھ کر جانا اور منانا، اپنوں کی تلاش اور دل کے نہاں خانوں میں چھپے رازوں کو افشا کرکے جہاں پر عیاں کرنے کی صدا ہے۔ ایاز کی شاعری میں ابہام کی بھرمار ہے نہ استعاروں کی بہتات، نہ مبہم اشاروں کنایں کا سہارا لیا گیا ہے اور نہ گنجلک زبان ہے بلکہ ایاز عام فہم، سہل اور آسان یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ گفتگو کی زبان اپنا کر دل کی بات قرطاس کے حوالے کرتے ہیں۔ایاز عروض کے ماہر نہیں لیکن شدت جذبات کو غزل میں بیان کرنے پر قادر ہیں۔ زاہد مختار صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"محمد شفیع ایاز ….آسمان بھر شرافت، زمین بھر صبر، لمحہ بھر تلخی اور سمندر بھر خاموشی۔۔۔۔ان سب اوصاف کا پیکر جب اپنی آبلہ پائی کے سفر میں اپنے اشعار کو صفحہ قرطاس پر سجاتا ہے تو ان اشعار پر ابہام کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ ان میں دھڑکنوں کی صدائیں بڑی سادگی سے سر گوشیاں کرتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔"
دل میں جب ٹیس اٹھے ،جذبات جب جاگ جائیں، درد جب بے قابو ہو جائے، دل کے نالے جب لفظ سے اشعار تک کا سفر طے کرتے ہیں تو ایاز کی شاعری وجود میں آتی ہے۔ ایاز کی شاعری رات کے سناٹے میں "جاگتے رہو" کی صدا نہیں ہے بلکہ دن کے اجالے میں بیدار رہنے کی نوا ہے۔ جن کا مشغلہ راتوں کو ضیائے قمر سے لطف اندوز ہونا ہو، جو سوتے ہیں تو بس اس لیے خواب میں محبوب کا دیدار ہوجائے، ستاروں کو گن گن کر رات گزارنے والے، خوابوں کا پرستان سجانے والے ان کی شاعری سے محظوظ نہیں ہوں گے بلکہ ان کی شاعری ان کو زیادہ پرکشش لگے گی جو اندھیرے میں صرف اندھیرا دیکھتے ہیں اور شمع جلا کر اندھیرے کو نہیں چیرتے بلکہ اپنا آپ جلا کر سویرا لاتے ہیں۔ ایاز کبھی تقدیر کے لکھے پر راضی ہے تو کبھی نالاں، کبھی شکر کرتے ہیں تو کبھی شکوہ، کبھی انھیں زندگی سزا لگتی ہے تو کبھی مزہ، کبھی دل کا درد چھپاتے ہیں تو کبھی دنیا کو اس سے باخبر کرنا چاہتے ہیں۔ چند اشعار دیکھیں:
رائیگاں ہیں کوششیں اب بے اثر تدبیر ہے
جو ملا ہے سو ملا ہے بس یہی تقدیر ہے

ہر سو پریشانی کیوں
ایسی یہ زندگانی کیوں

ادھورے رہ گئے ارمان یارو
رہی یہ زندگی حیران یارو

دل کی بستی اجڑ گئی کب کی
حال دل کا خراب ہے یارب

کبھی زندگی سزا ہے کبھی زندگی مزہ ہے
وہ بھی اک تیری رضا ہے یہ بھی اک تیری رضا ہے

ہم نے تیری یادوں سے روشن کیا ہے گھر
دیوار پہ تیری کوئی تصویر نہیں ہے

درد پنہاں اب عیاں ہونے لگا
راز دل راز جہاں ہونے لگا

ڈاکٹر ایاز کی انشائیوں پر مشتمل کتاب "خرافات" 2021ء میں چھپ چکی ہے۔ اس کتاب میں سنتیس (37) انشائیے / کالم شامل ہیں۔ ڈاکٹر ایاز اپنے انشائیوں میں سیاسی حالات اور انسانی رویوں پر طنزیہ انداز اپنا کر اظہار خیال کرتے ہیں اور اخلاقی گراوٹ، سماجی برائیوں کی طرف مزاحیہ انداز میں اشارے کرتے ہیں۔ کشمیری زبان میں ڈاکٹر ایاز کی اب تک تین کتابیں پوت ژھائے ( شعری مجموعہ 2014 ء)، ہدیہ عقیدت ( شعری مجموعہ جس میں صرف حمد اور نعمت ہیں۔2018 ء) اور ییلہ ززر ژاؤ ( افسانوی مجموعہ، 2021ء ) شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیری نغموں کی کیسٹ ” شانہ بڈ" 2007ء میں ریلیز ہوئی۔ ایاز کے لکھے نغموں کو وادی کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے جن میں عبد المجید گنائی کے علاوہ قیصر نظامی اور محی الدین مجروح شامل ہیں.
ڈاکٹر ایاز کی تخلیقات انگریزی، اردو اور کشمیری کے اخبارات و رسائل میں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں جن میں شیرازہ، ثقافت، کشمیر عظمی، بلند کشمیر، گریٹر کشمیر، سبزار، البلاغ المبین، آفاق وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر ایاز ہفتہ روزہ "سبزار" کے منیجنگ ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ کو 2010ء میں رائٹر آف دی اییر ( writer of the year) کا ایوارڈ ملا ہے اور 2020ء میں indian book of reads کی توصیفی سند سے بھی نوازا گیا ہے۔ ڈاکٹر ایاز کشمیر ہیومن رائٹس کونسل کے ہیڈ ہیں اور مراز ادبی سنگم کے ممبر، محفل فکر و فن کے ممبر اور لٹریری سوسائٹی آف انڈیا کے ممبر ہیں۔ ابھی ان کا قلم رواں ہے اور امید ہے کہ رواں رہے گا تاکہ ڈاکٹر ایاز مزید فن پاروں کو وجود بخشیں گے۔
گذشتہ کالم یہاں پڑھیں :شخصیت : مقبول فیروزی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے