بزمِ صدف کے دوروزہ بین الاقوامی سے می نار کا افتتاح

بزمِ صدف کے دوروزہ بین الاقوامی سے می نار کا افتتاح

اردو صحافت کی نئی نسل کو کاروباری جہت کے ساتھ اسلاف کی جسارت اور قوّتِ قلم سے نئی تاریخ لکھنی ہے
بیداری اور ترقّی کے حصول کے ساتھ صحافت کا سفر ہندستانی زبانوں میں انقلاب تک پہنچا
بزمِ صدف کے سے می نار میں علما اور دانش وروں کا خطاب -آج سے می نار کے دو سیشن، کئی نام ور بیرونی صحافیوں کی شمولیت


پٹنہ: جدید صحافت کی عالمی تاریخ اگرچہ ساڑھے پانچ سو برس سے زیادہ کی ہے مگر ہندستان میں یہ کم و بیش ڈھائی سو برسوں کو محیط ہے۔ مشینی ایجادات نے ان پانچ سو برسوں کی صحافت کے قاری کو دشتِ تحیرات میں پہنچا دیا۔ آج یہ ڈھائی ٹرلین ڈالر سے زیادہ کی بڑی انڈسٹری ہے۔ ایسے ماحول میں اردو اخبار کی تاریخ ملاحظہ کرتے ہوئے بہ یک نظر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ان دو سو برسوں میں اردو صحافت نے بڑی حد تک ذمّہ داری ادا کی ہے۔ ’جامِ جہاں نما‘، ’دہلی اردو اخبار‘ سے لے کر نَول کشور پریس تک ایک سلسلہ ہے جہاں سماج اور علم و فن سے گہری وابستگی ہوتی تھی اور صحافت کے ٹکسال میں ڈھل کر نئی نسل شاہ راہِ حیات کے مختلف شعبوں میں سرگرمِ عمل ہوتی تھی۔ ہمارے صحافی صرف آزادی کی جنگ یا غدر کے زمانے میں انقلاب آفریں اقدام نہیں اُٹھاتے تھے بلکہ ایسے لوگ ہر دور میں رہے جنھوں نے اپنی باتوں سے حکومت کے مزاج کو بدلنے میں کامیابی پائی۔
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے دو روزہ ’اردو صحافت کے اہم موڑ: دو صدی کا احتساب‘ عنوان سے منعقدہ سے می نار کا کلیدی خطبہ معروف صحافی احمد جاوید دے رہے تھے۔ احمد جاوید نے اپنے تفصیلی خطبے میں نئی نسل کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کے کندھوں پر بے حد بڑی ذمّہ داری عاید ہوتی ہے۔ اگر پونجی اور تکنیک کے شور میں وہ دب کر رہ گئے اور اپنی زبان کے محدود وسائل کی بنیاد پر نئی صحافت کا بالخصوص کمیونٹی جرنلزم کے خوابوں تک نہ پہنچے تو مستقبل شاید تاب ناک نہ ہو۔
بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے سے می نار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ کوئی رسمی موقع نہیں بلکہ ہم نے اپنی زبان کی دو سو برسوں کی تاریخ کو جانچنے، پرکھنے اور اس کے مطابق مستقبل گڑھنے کے شعور کے حصول کے لیے دانش وروں کو سَر جوڑ کر بیٹھنے کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے ہندستان میں اردو صحافت کی تاریخ اور اس سے نئے سماج کی تشکیل کے امور پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح صحافت نے ہندستانی سماج کو نئی روشنی عطا کی اور وہ ملک کی تعمیر و تشکیل کی بنیاد گزار بن گئی۔ انھوں نے ہندستانی صحافت کو ملک کی نشاۃ الثانیہ کا حقیقی سبب قرار دیا۔ انھوں نے اردو میڈیا فورم کی مہم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اپنی زبان کی صحافت کے دو سو برسوں کے جشن میں انھوں نے ترغیب حاصل کی اور اُسی روشنی میں اس سے می نار کے خدّ و خال متعین کیے گئے۔
سے می نار کا افتتاح کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر اور کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس کے پرنسپل پروفیسر تپن کمار شانڈلیہ نے عالمی سطح پر صحافت کو بیداری اور ترقّی کا پیمانہ بتایا۔ جب کہ یہ صحافت ہندستانی زبانوں میں انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ انھوں نے اردو صحافت کے بارے میں یہ سندیش دیا کہ اِسے جَن جَن تک پہنچائے بغیر اس کا تاریخی کردار پھر سے لوٹ کر نہیں آ سکتا ہے۔
کویت سے تشریف فرما ڈاکٹر وصی الحق وصی نے اپنے مختصر خطاب میں ١٨٥٧ء میں اپنی جان نچھاور کرنے والے صحافی مولوی محمّد باقر کو یاد کیا اور اس بات کی داد دی کہ کس طرح اس زبان کے لکھنے والوں نے قربانیاں دیں اور ان میں کس طرح جرأتِ رندانہ بھری ہوئی تھی۔ اِنکم ٹیکس کمشنر جناب اسلم حسن نے اردو صحافت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا اور بتایا کہ یہ زبان موثّر اظہار کا ذریعہ ہے۔ ممبئی سے تشریف فرما روزنامہ ’ہندستان‘ کے ایڈیٹر جناب سرفراز آرزو نے صاف لفظوں میں کہا کہ میں ماضی سے زیادہ مستقبل کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ اس لیے اردو صحافت کے مستقبل کی مجھے زیادہ فکر ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اردو صحافیوں کی سینہ کوبی سے ہمیشہ شکایت رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو صحافت نے اپنے بولنے والوں کے مفاد سے تاریخ کے کسی بھی موڑ پر کبھی غدّاری نہیں کی۔ انھوں نے صحافت کی بدلتی ہوئی زبان کی طرف بھی توجّہ دلائی اور کہا کہ اس طرف بھی ہمیں دھیان دینا چاہیے کیوں کہ آج ہم انّیسوں صدی کے اخباروں کی زبان میں اپنی خبریں نہیں لکھتے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہمارے عہد کی صحافت نئی زبان سے آراستہ ہے۔ ممتاز آزاد شناس ڈاکٹر جمشید قمر (رانچی) نے اردو صحافت کے خاص موڑ کے طَور پر ’تہذیب الاخلاق‘ اور’الہلال‘، ’زمیں دار‘، اور ’اردوے معلا‘ کو بہ طَورِ نمونہ پیش کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تسلسل اور یکسانیت کے پہلوٗ سے اِن اخبارات و رَسائل کے مشتملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سب کے مقاصد میں کہیں نہ کہیں ایک وحدانی تصوّر شامل تھا۔ جس کی وجہ سے آزادی کے دور میں اردو صحافت کی ایک روشن تصویر تیّار ہوئی۔
بہار پبلک سروس کمیشن کے رُکن جناب امتیاز احمد کریمی نے صحافی، صحافت اور اردو صحافت کے اختصاص پر گفتگوٗ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ ہندستانی صحافت کی تاریخ اردو صحافت کے تذکرے کے بغیر نامکمّل ہے۔ انھوں نے اردو اخبارات کو یہ مشورہ دیا کہ ان کے صفحات پر تعلیم و تعلّم اور مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے نئی نسل کو تیّار کرنے کے لیے خاص مواد ہونا چاہیے۔ انھوں نے اردو اخبار سے متعلّق افراد کو یہ کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچنے کے لیے بھی اپنی کوششیں کریں۔ اردو میڈیا فورم کے صدر اور امارتِ شرعیہ کے نائب ناظم مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی نے اپنے مختصر خطاب میں صحافت کی تاریخ کے تین مراحل کا ذکر کیا اور بتایا کہ ایک دور تھا جب صحافت میں حق کی طرف داری اصول کے طَور پر آزمانے کا نسخہ تھا۔ بعد کے دور میں غیر جانب داری کا ایک شوشہ کھڑا ہوا مگر عملاً ایسا کبھی نہ ہو سکا مگر صحافت کے تیسرے دور کے مایوسانہ تذکرے میں انھوں نے تشویش کا اظہار کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ صحافت اب دولت اور قوّت کی بنیاد پر کھڑی ہو رہی ہے۔ اردو اکادمی کے سکریٹری جناب عظیم اللہ انصاری نے پروگرام کی صدارت فرمائی۔ انھوں نے اردو اخبار کے دائرۂ کار میں وسعت لانے اور ریڈرشِپ میں اضافے کے لیے مہم چلانے کا مشورہ دیا۔ بزمِ صدف کے ڈائرکٹر صفدر امام قادری نے شکریہ ادا کرتے ہوئے مطّلع کیا کہ ١٣/ نومبر ٢٠٢١ء کو سے می نار کی دو نشستیں ہوں گی۔پہلی نشست کی مجلسِ صدارت میں پروفیسر نجمہ رحمانی (صدر شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی)، جناب سہیل انجم (وائس آف امیرکا، نئی دہلی)، ڈاکٹر ریحان غنی اور شاہد اختر شامل رہیں گے۔ پہلے اجلاس کے مقالہ خواں حضرات میں ڈاکٹر طارق فاطمی، ڈاکٹر زین شمسی، مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر نظام الدین احمد، ڈاکٹر الفیہ نوری، ڈاکٹر تسلیم عارف، جناب محمد مرجان علی، محترمہ شگفتہ ناز کے مقالے پیش کیے جائیں گے۔ سے می نار کی دوسری نشست دو بجے دن سے شروع ہوگی جس کی مجلسِ صدارت میں ڈاکٹر جمشید قمر (رانچی)، ممتاز اردو ہندی صحافی اور ادیب ڈاکٹر سہیل وحید (لکھنؤ)، مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی اور ڈاکٹر محمد گوہر شامل ہوں گے۔ اس اجلاس میں جناب سہیل انجم، ڈاکٹر ریحان غنی، ڈاکٹر ظفر امام، جناب رہبر مصباحی، جناب عارف اقبال، ڈاکٹر منی بھوشن کمار، ڈاکٹر افشاں بانو، محترمہ نازیہ تبسُّم اور جناب پرویز عالم اپنے مقالے پیش کریں گے۔ سے می نار منعقد کرنے والے ادارے کی جانب سے اخبار کی خبر کے ذریعہ کل کی دونوں نشستوں کے لیے دعوت دی گئی ہے۔
٭٭٭

اردو صحافت کے دو سو برسوں کا احتساب؛ بزمِ صدف انٹرنیشنل کے سے می نار کا نشانہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے