مولانا آزاد تفقہ واجتہاد، تعمق و تدبر اور سیاست و بصیرت میں قوم وملت کے محسن اعظم تھے: مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی

مولانا آزاد تفقہ واجتہاد، تعمق و تدبر اور سیاست و بصیرت میں قوم وملت کے محسن اعظم تھے: مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی

(پریس ریلیز)
مولانا آزاد اکادمی، نئی دہلی کے زیر اہتمام آئی سی سی آر آزاد بھون میں منعقدہ ایک روزہ قومی سمینار میں مقتدر علمی وسماجی شخصیات کا اظہار خیال
نئی دہلی: ١٢/نومبر ٢٠٢١
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ ان جیسی ہمالیائی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ انھوں نے انتہائی نازک گھڑی میں قرآنی تعلیمات، سیرت نبوی اور امامان دین کی عزیمت و دعوت کی روشنی میں قوم و ملت اور انسانیت کی مخلصانہ رہ نمائی کی۔ وہ متحدہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار، آزادی وطن کے قافلہ سالار اور ملک و انسانیت کے بڑے معمار تھے اور تفقہ و اجتہاد، تعمق و تدبر اور سیاست و بصیرت میں قوم و ملت کے محسن اعظم تھے۔ آج بھی مولانا کی معنویت مسلم ہے اور تادیر ان کی اجتہادی بصیرت اور عملی اسوہ سے روشنی حاصل کی جاتی رہے گی۔ ان خیالات کا اظہار مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے کیا۔ موصوف کل مولانا آزاد اکیڈمی، نئی دہلی کے زیر اہتمام آئی سی سی آر، آزاد بھون میں ”مولانا ابو الکلام آزاد: ایک مجتہد عصر“ کے موضوع پر منعقدہ ایک روزہ نیشنل سمینار میں افتتاحی خطاب کررہے تھے۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر کرن سنگھ سابق مرکزی وزیر حکومت ہند و سابق صدر آئی سی سی آر نے کہا کہ مولانا ابو الکلام آزاد نایاب شخصیت کے مالک تھے، جیل میں بند رہتے ہوئے انھوں نے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں، آزادی کی تحریک سے لے کر آزادی کے بعد ١٩٨٨ تک وہ سرگرم رہے، انھوں نے تین اکادمیوں ساہتیہ اکادمی، للت کلا اکادمی اور آئی سی سی آر کی بنیاد ڈالی، آئی سی سی آر آزاد بھون انھی سے منسوب ہے۔ وہ نہ صرف ملک کے پہلے وزیر تعلیم رہے، بلکہ اولین آئی آئی ٹی بھی انھی کی رہین منت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مولانا آزاد سے میری بہت بے تکلفی تھی، وہ مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے، جب بھی کشمیر جاتے تو مجھے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ ان کا طرز گفتگو بھی نہایت پرکشش ہوتا، کسی کو بھی وہ آزردہ نہیں کرتے۔ ملک کی آزادی کے لیے دی گئی ان کی قربانی ناقابل فراموش ہے۔مولانا آزاد نے ملک کی تعلیمی ترقی کے لیے جو لائحۂ عمل تیار کیا آج وہی مضبوط بنیاد ہے، وہ ارسطو و افلاطون جیسا ذہن رکھتے تھے۔
پدم شری پروفیسراختر الواسع نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج مولانا آزاد کا یوم پیدائش ہی نہیں، بلکہ ہمارا یوم احتساب بھی ہے کہ ہم نے آزادی کے بعد سے اب تک کیا کھویا اور کیا پایا، مولانا آزاد کی نگاہیں مستقبل کی تعمیر وترقی پر مرکوز تھیں. انھوں نے کم عمری میں ہی تمام متداول کتابیں پڑھ لی تھیں، خاندانی وجاہت کو مستعار نہیں لیا، بلکہ وہ جو کچھ بھی بنے اس میں ان کی جدو جہد کو دخل تھا۔ مولانا آزاد کو جو فہم و ادراک ملا وہ عطائے خداوندی تھا۔
سمینار کے روح رواں اور مولانا آزاد اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا آزاد مفکر و مدبر، مفسر قرآن اور صحافی تو تھے ہی انھوں نے جو اجتہادی کارنامے انجام دیے، اس کو نہ صرف باقی رکھنے بلکہ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مولانا آزاد کی اجتہادی بصیرت سے متعلق متعدد مثالیں بھی پیش کیں۔
مولانا آزاد اکیڈمی کے قائم مقام صدر و سابق ایم پی محمد ادیب نے اپنے صدارتی خطاب میں مولانا آزاد کی قومی و ملی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد ایک نابغہ شخصیت کے مالک تھے، انھوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کا جو خاکہ قوم کو دیا آج اسی پر عمل پیرا ہوکر اپنے گم گشتہ میراث کو پاسکتے ہیں، آج مولانا آزاد جیسی آفتاب وماہتاب  شخصیات بے شک نہیں رہیں، لیکن جو ستارے ہیں ان کی مدھم روشنی کو یکجا کرکے ہم اپنی منزل کی جستجو میں نکلیں تو آج بھی آگے بڑھنے سے ہمیں کوئی قوت روک نہیں سکتی، حالات بے شک پر خطر ہیں، لیکن مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، عزم و حوصلہ سے آگے بڑھ کر رکاوٹوں کو دور کریں۔
سابق چیف جسٹس پٹنہ ہائی کورٹ اقبال انصاری، پروفیسر خالد محمود سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بھی مولانا آزاد کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے۔ سمینار کی پہلی نشست میں پروفیسر نعیم الحسن اثری، صدر شعبۂ عربی دہلی یونی ورسٹی، پروفیسر ابوبکر عباد، استاذ شعبۂ ارد ودہلی یونی ورسٹی، معروف صحافی سہیل انجم اور ڈاکٹر جسیم الدین نے مقالات پڑھے۔ کلمات تشکر مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے پیش کیے۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد شیث محمد ادریس تیمی نے تمام شرکا کا استقبال کیا اور مولانا آزاد کی عصری معنویت کے حوالے سے مختصر روشنی ڈالی اور کہا کہ مولانا آزاد کی روشن دماغی، دینی بصیرت، معاملہ فہمی، ایثار و قربانی کے عوام و خواص سب معترف تھے۔
سمینار کی دوسری نشست زیر صدارت خواجہ محمد شاہد سابق چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسیٹی حیدرآباد اور زیر نظامت پروفیسر اخلاق احمد آہن جے این یو منعقد ہوئی۔
تلاوت قاری محمد عرفان صاحب نے کی۔ معروف دانشور ڈاکٹر سید عرفان حبیب انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، نئی دہلی نے کلیدی خطاب کیا اور کہا کہ مولانا آزاد نے مذہب سے ماورا نیشنلزم کی بات کی جس میں انسانیت کا پہلو نمایاں تھا۔ انھوں نے پوری قوت سے دو قومی نظریہ کی مخالفت کی۔ مہاتما گاندھی کی نگاہ میں ان کی خصوصی قدر و منزلت تھی۔
سابق ڈائریکٹر جنرل آر این آئی ایس ایم خان نے کہا کہ آزادی وطن کی جدو جہد میں مولانا آزاد کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی دور بیں نگاہ نے پچاس سال بعد رونما ہونے والے حالات کا ادراک کرلیا تھا۔ کاش کہ قوم و ملت نے ان کا اشارہ بر وقت سمجھ لیا ہوتا۔
پروفیسر منندرناتھ ٹھاکر سینٹر آف پولیٹیکل اسٹڈیز جے این یو نے کہا مولانا آزاد ہندستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے فلسفی تھے۔ انھوں نے مذہب کا استعمال انسانیت کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے کیا۔
صدارتی خطاب کرتے ہوئے خواجہ محمد شاہد سابق چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد نے کہا آج وسیع پیمانے پر مولانا آزاد کی شخصیت، معارف، کارنامے اور احسانات کے تذکار کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد نے وحدت ادیان کا تصور پیش کرکے قومی و انسانی وحدت کو فروغ دیا۔
اس نشست میں مولانا آزاد اکادمی کے قائم مقام صدر سابق ایم پی محمد ادیب اور جنرل سکریٹری مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے بھی اظہار خیال کیا، مقالہ نگاران نے مولانا آزاد، مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، رابندر ناتھ ٹیگور، تقسیم ہند اور قومی یکجہتی وغیرہ عناوین پر گراں قدر مقالات پیش کیے۔ اور تمام مقررین و مقالہ نگاران نے مولانا آزاد ایک مجتہد عصر کے عنوان پر سیمینار کے انعقاد پر مولانا آزاد اکادمی کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کی، ان کا شکریہ ادا کیا اور سیمینار کو وقت کی بڑی ضرورت قرار دیا۔ ڈاکٹر سلطان احمد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کلمات تشکر پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا۔ اس سیمینار میں مختلف شعبہائے حیات سے متعلق اہم شخصیات شریک تھیں۔
جاری کردہ
مولانا آزاد اکادمی، نئی دہلی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے