فکرِ اقبال اور عالمی یوم اردو  : ایک مواخذہ

فکرِ اقبال اور عالمی یوم اردو : ایک مواخذہ

مسعود بیگ تشنہ 

[سب سے پہلے] عالمی یومِ اردو کی مبارک باد اور نیک خواہشات :
ادب ،تہذیب اور الفت کی بولی
حدیثِ دل براں، چاہت کی بولی
کریں تقریر، کوئی گفتگو ہو
زباں اردو بنے عزت کی بولی
(@مسعود بیگ تشنہ
9 نومبر 2021 ،اِندور ،انڈیا) 

ہر دم جواں زندگی کے مبلّغ اقبال ایک عہد ساز انسانیت نواز مفکّر و شاعر کا نام ہے، جنھوں نے فلسفۂ خودی اور فلسفۂ عشق اور تجدیدِ فکرِ اسلامی کے آمیزے سے نئی صدی اور آنے والے زمانے کے ابنِ آدم کے لیے مردِ مومن کے تصور کو جِلا بخشی اور بہتر دنیا کی کامنا کی :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اس سلسلے میں ان کا پہلا قدم اسلامی فکریات کو عصر جدید سے آنکھیں ملانے کے قابل بنانا اور اس کی تشکیل و تفہیمِ نو تھی. اقبال نے قوموں کے عروج و زوال پر گہری نظر رکھتے ہوئے، جرمن فلسفی کوئٹے سے متاثر ہو کر اور قرآنی فکر سے روشنی لے کر آنے والی صدیوں کے لیے ابنِ آدم کی ممکنہ پیکر تراشی کی. میں ابنِ آدم اس لیے کہ رہا ہوں کہ در اصل سچا ابنِ آدم ہی سچا مردِ مومن اور سچا مردِ مومن ہی سچا ابنِ آدم ہو سکتا ہے. اقبال کی دور رس نگاہ خالقِ کائنات اور کائنات کے عشق میں مبتلا ہونے والے تسخیر پسند جدید انسان کے ہیولے کو بنتا دیکھ رہی تھی تبھی اقبال نے کہا ہوگا کہ :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
….. اور اس ترقی کے سفر میں جسے میں معراجِ ثانی کہوں گا، اقبال نے جدید انسان ( modern & super human) کی آمد کی دھمک سن لی تھی جس کی سائنسی ترقی سے دیگر آسمانی مخلوق سہمتی دکھائی دینے لگتی ہے :
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
اقبال کا مردِ مومن علی الاعلان کہتا ہے کہ ‘نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ‘…. مگر اس کے لئے عالم گیر محبت درکار ہے اور یہی عالم گیر محبت فاتحِ عالم ہے اور یہی عالم گیر انسانی برادری ( Universal Brotherhood) پر منتج ہے :
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
فکرِ اقبال تک پہنچنے کے لیے اقبال کی خودی اور انا تک پہنچنا ہو گا جس کے لیے شکوہ اور جواب شکوہ کا مطالعہ ناگزیر ہے. ہم بصد خلوص اقبال کو علامہ، شاعرِ مشرق، مفکّرِ اسلام تو بلا سکتے ہیں اور رحمۃ اللہ علیہ بھی پکار سکتے ہیں مگر ان کی فکر سے ایک سو اسّی درجہ کی دوری ہمیں مردِ ناداں کے علاوہ کیا کہے گی. مشہور قدیم ہندی مفکّر بھرتری ہری کے سنسکرت مقولے کو اقبال نے کیا خوب اپنی شعری فکر میں ڈھالا ہے :
پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
اقبال کا کلام اور پیغام آفاقیت، روحانیت، اخلاقیت، اور جدید تر انسانیت پر مبنی ہے. محض اس لیے اقبال کی حیثیت کو کم نہیں آنکا جا سکتا ہے کہ اس کی بنیاد میں اسلامی فکریات ہے، اقبال کی فکر نے تو اسلامی فکریات سے الٰہیات اور جدید تر انسانیت کی اساس ڈالی. جس طرح انگریزی کے ادبِ عالیہ کو الٰہیاتی و کلیسائی فکر سے مملو دیکھ کر ناک منھ سکوڑنے کا جواز نہیں بنتا، ہم اقبال کے ساتھ اسی حسنِ سلوک کی امید رکھتے ہیں. اقبالِ ثانی آن جہانی جگن ناتھ آزاد اگر زندہ ہوتے تو اس انتہائی مختصر تحریر کو پڑھ کر مطمئن اور متبسم ہوئے بغیر نہیں رہتے.
انسان اپنی فکر اور اپنے عمل سے اپنی زندگی کو جنت بھی بنا سکتا ہے اور جہنم بھی :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

زندگی فکر و عمل سے تازہ اور تابندہ رہتی ہے. کیا ہم ہمیشگی کی زندگی کے لیے اپنے آپ کو اچھی فکر و اچھے عمل سے آراستہ نہیں کر سکتے :
تو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی

آج ضرورت ہے کہ قومی یکجہتی اور عالم گیر انسانیت کی روح سے آشنا اور منور ہند کی دو عظیم شخصیات سناتن (قدیم ترین) وَیدِک فکر سے منور سوامی وویکانند اور جدید اسلامی فکر سے منور علامہ اقبال کی عہدِ جدید کے تقاضوں کے پیشِ نظر از سرِ نو باز یافت کی جائے.
(9 نومبر 2021 ،اِندور ،انڈیا)

عالمی یومِ اردو اور اقبال کا یومِ پیدائش

کسی بھی زبان کی مقبولیت کو اس کی شاعری کے توسط سے جانا جاتا ہے. اردو شاعری کے توسط سے دو بڑے نام سامنے آتے ہیں غالب اور اقبال. موٹے طور پر دونوں میں ایک صدی کی تقدیم و تاخیر ہے. اگر انیسویں صدی کو غالب کے نام کر دیں تو بیسویں صدی اقبال کے نام اپنے آپ ہو جاتی ہے. اور اکیسویں صدی کی شروعات یا بیسویں صدی کے اواخر میں اگر فروغِ اردو کے لیے اقبال کی یومِ ولادت کو یومِ اردو منانے کی بنیاد پڑ گئی تو اس میں برا کیا ہے؟ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر کی حیثیت سے ولی دکنی کے نام کے بعد سے ابھی تک کئی اور نام سامنے آ چکے ہیں جو ولی دکنی سے پہلے گزرے ہیں. اسی لیے غالب امکان یہی ہے کہ تقدیم پر تاخیر کو فوقیت دے کر یومِ اردو ایک ایسے شاعر کے یومِ ولادت سے منسوب کر دیا گیا کہ جس کی شاعری کی دھمک بیسویں صدی میں سب سے زیادہ سنی گئی. جب یومِ اردو کی تقریبات ہوتی ہیں تو اردو کے فروغ کے حوالے سے باتیں ہوتی ہیں اور جب یومِ اقبال کے تعلق سے تقریبات ہوتی ہیں تو اقبال کی شخصیت و شاعری اور فکرِ اقبال پر مرکوز باتیں ہوتی ہیں.
لہٰذا میں پھر کہوں گا کہ کیونکہ گزشتہ پچیس سال سے یومِ اردو ہر سال عالمی سطح پر 9 نومبر کو ہی منایا جاتا رہا ہے تو اب اس پر کسی طرح کی بحث چھیڑنا بحثِ محض سے زیادہ کچھ نہیں ہے.

(تحریر : مسعود بیگ تشنہ
8 نومبر 2021 ،اِندور)

مسعود بیگ تشنہ کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ فرمائیں : کتنی خاموشی سے برپا کر رہا ہوں انقلاب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے